Dr. Israr Ahmed, (1932-2010) was a Pakistan-based Muslim religious figure who has been described as well-known among Muslims in Pakistan, India, the Middle East, and North America. Born in East Punjab, (now part of Haryana) in India, the second son of a government servant, he is the founder of the Tanzeem-e-islami, an off-shoot of the Jamaat-e-Islami. He has spent the "last forty years" actively engaged in "reviving the Qur'an-centered Islamic perennial philosophy and world-view" with "the ultimate objective of establishing a true Islamic State, or the System of Khilafah." Ahmed is skeptical of the efficacy of "parliamentary politics of give-and-take" in establishing an "Islamic politico-socio-economic system" as implementing this system is a "revolutionary process".
انسان کی تخلیق کے مراحل کو قران و سنت کی روشنی میں بیان کرتی ہویی انتہائی عمدہ کتاب جس کا خلاصہ درج ژیل ہے
اا خمیر 'کن ' کے نتیجے میں نورِ بسیط کے ایک حصے میں اچانک زور دار دھماکے سے زمان و مکاں کی تخلیق ہوئی۔ دھماکے نے نار کی صورت اختیار کی، جس میں موجود سرعت رفتار اور بلند درجہ حرارت کے حامل بہت چھوٹے ذرات نے آن ِواحد ہی میں مکاں کو حیرت انگیز حد تک وجود بخش دیا۔ اس مادے ہی سے ایک ناری صفت مخلوق نے جنم لیا، جو وجوب و قدم کا حدوث و امکان کے سفرمیں جمود سے حیات کی طرف لفظ' امر ' کا اولین استعمال تھااورجس کا آشکار اس ناری مخلوق کے خمیر میں 'خودشناسی ' کے عنصر سے ہوا۔ جبکہ مرورِ زمانہ کے سا تھ یہ ناری بگولا مختلف حصّوں سے پھٹتا چلا گیا ،جس سے کہکشائیں وجود میں آگئیں۔ کہکشاؤں میں کرّے اور کرّوں میں اساسی ذرات کی تالیف سے ایٹم اور پھر مرکبات وجود میں آتے چلے گئے ۔عالمِ تخلیق کی یہ ناری مخلوق مادہ ِ تخلیق کی لطافت کے باعث زمان و مکاں کے قواعد میں جکڑی کائناتِ مادی کے دور دراز گوشوں میں رہنے لگی۔ یہ ایجادو ابداع کے مراتبِ نزول کا مرحلہ ثانی جبکہ تخلیق و تسویہ کے ارتقا کا پہلا مرحلہ تھا۔
تنزل کے آخری مرحلے میں ناری کرّوں نے بتدریج ٹھنڈا ہونا شروع کر دیا ، جن میں سے ایک پر زمینی ماحول کی بنیاد پڑی۔ سلگتی آگ کے ٹھنڈے پن سے خاکی چھلکا بنا، چھلکے سے بخارت نکلے اور فضا بنی، فضا میں مرکبات کے امتزاج سے پانی بنا، پانی نے برسنا شروع کر تو پوری زمین کو ڈھانپ لیا۔ زمیں کے سکڑنے کے باعث نشیب و فراز نے جنم لیا تو ایک طرف پہاڑ اور ان سے ملحق سطح و مرتفع کے مختلف مدارج و مراحل کی صورت میں خشکی پیدا ہوئی ،تو دوسری طرف نشیب میں پانی کے جمع ہونے سے سمندر وجود میں آئے۔ یوں تراب اور آب کے باہمی سنگھم سے حیاتِ ارضی کی تخلیق کا منبع وجود میں آیا ،جس سے مادے کے ارتقا کا طبیعیاتی اور کیمیائی مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔
عالم جمادات و نباتات کے بعد ارتقاء کے دوسرے مرحلے میں مادہ عالم حیوانات میں داخل ہوا۔ یہاں تک کہ سابقہ مرحلوں کا اس میں کوئی ثبوت تک نہ رہا۔ حیوانی مخلوق میں حیات کا خمیر بھی پہلے مرحلے کی طرف لفظ' امر' کا محتاج تھا، جو کمتر سے ابتر اور کہتر سے بہتر کی طرف چھلانگ لگاتے ہوئے بالآخر حیوانِ انسان پر پایہ تکمیل کو پہنچا۔ جس سے ایک اور خود شناس خاکی صفت 'خلق 'انسان وجود میں آئی۔ دونوں صاحبِ تشخص مخلوقات کے اندر ایک ہی خمیر کے باوجود مادہ کی اعلی صورت کے باعث ناری مخلوق افضل تھی۔ یہاں تک کہ ایجادو و بداع کے نزول کے پہلے مرحلے میں لفظ' کن' کے نتیجے میں تیار شدہ رو حانی وجود کو مخزنِ ارواح سے نکال کر حیوانی وجود میں پھونک دیا گیا۔ جس سے انسان، ایجاد کے پہلے نزولی مرحلے کے فقط نوری ملائکہ اور تخلیق کے پہلے ارتقائی مرحلے کے فقط ناری جنات سے اشرف ٹھہرا۔ واجب الوجود نے انسان کو اپنے دونوں ہاتھوں سے تیار کیا تھا ،جو اب عالم ِامر اور عا لم ِخلق کا حسین امتزاج تھا اور جس کی حقیقت کا ادراک ملائکہ اور جنات دونوں سے ہی با لا تر تھا۔ ارتقاء کے تیسرے مرحلے میں ہی انسان کی خلیفتہ اللہ کے طور پر تاج پوشی کی گئی اور دیگر ناری و نوری مخلوق کو سجدہ کرنے لیے کہا گیا۔ نوری خمیر اپنے پاک ہونے کی وجہ سے حکم بجا لیا جبکہ ناری خمیر اپنے یک رخی مادہ پرستانہ علم کے باعث بغاوت پر اتر آیا ،جس سے جاہل مادی خمیر میں سے حسد کا عنصر نمایاں ہوا۔ بعد ازاں مادی خمیر کی جہالت کے پرچار کو انسانی خمیر سے رد کرنے کے لیے دونوں کو زمین کرّے پر بھیج دیا گیا۔۔۔ تخلیق کا یہ آخری مرحلہ' رحم' میں ابھی تک جاری ہے جہاں ہر تین ماہ کے عرصے کے بعد مادی وجود کو روحانی وجود کے خلعت سے نوازا جاتا ہے۔ انسانی اور مادی خمیر کی جنگ میں پہلی فتح مادی خمیر کو حاصل ہوئی ،جو متعدد مقامات پر انسان کے حیوانی پہلوؤں کو اجاگر کرنے میں کامیاب رہا۔ سب سے پہلے نافرمانی سامنے آئی جس کے تدارک کی خاطر مادی نعمتیں اس سے اٹھا لی گئیں۔ بعدازاں حسد نے ظلم کی شکل اختیار کر لی اور ظلم شرک کی صورت میں ظلم ِعظیم بن گیا۔ اپنے اردگرد موجود مادی ماحول کی لطافت کے باعث مادی خمیر ترقی پاتا چلا گیا،جسے ناری خمیر نے اپنی فتح کا زینہ سمجھا جبکہ نوری خمیر زمین پر ممکنہ فساد کا نظارہ کر تا رہا۔ روح ِربانی بھی نوحؑ، ھودؑ اور صالحؑ کی صورت میں اس مادی خمیر سے لڑتی رہی یہاں تک کہ مادی خمیر کے نام لیوا ؤں کا کوئی نشان نہ رہا۔ یہ س سلسلہ ۵۰۰۰ سال تک چلتا ہوا آخر کار ذہنی اور فکری ارتقاء کی تکمیل کو پہنچا جب انسانی خمیر سے ابرہیم کی صورت میں توحید کے عملی تقاضے واضح ہو گئے۔ لیکن جیسے ہی معاشرے اور سماج نے ترقی پائی ، ناری خمیر نے انسان وجود میں سرایت کر کے انسان کے خمیر کے مادی جزو کو تقویت پہنچائی ،جس کے زیر اثر چند اور حیوانی خصائل منظر عام پر آئے۔ جنسی بے راہ روی ،معاشری و معاشی استحصال اور لوٹ مار، قتل و غات اور ظلم وستم سے انسان کے نوری خمیر پر باضابط حملہ ہوا،جس کی بنا پر مذہب کی شکل بگڑ گئی۔ اس دوران بھی روحِ ربانی لوطؑ، شعیبؑ، موسیؑ اور عیسی ؑکی صورت میں حق کا منبع رہی ،تاہم ابھی تک انسانی خمیر کو عملی کامیابی حاصل نہیں تھی۔ آخر کار کچھ عرصے بعد انسانی خمیر اپنی پوری آب و تاب سے مادی خمیر کے خصائل کا قلعہ قمع کرنے کے ساتھ اس کے خصائص کو اجاگر کرتے ہوئے روئے زمین پر ابھرا ور دین کی تکمیل کا با ضابطہ اعلان کر دیا گیا۔ انسانی خمیر کی مادی خمیر پر یہ پہلی آفاقی فتح اور عمرانی ارتقاء کی بلند ترین سطح تھی۔ آج بھی اسی عمرانی ارتقاء کا سلسلہ جاری ہے جس میں کہیں مادی خمیر پوری طاقت کے ساتھ تخت نشین ہے اور کہیں انسانی خمیر ستارے کی طرح روشن، شیشے میں بند نوری چراغ کےمانند ۔۔۔ اس ارتقاء کی آخری منزل ایجاد کی پہلی گھڑی سے ملنے کے لیے لفظ' کن' کی محتاج ہے ،جب انسانی خمیر کا خالص نوارنی جزو ہمیشہ کے لیے غالب آجا ۓ گا۔