مشتاق احمد یوسفی کا آدم جی انعام یافتہ مزاحیہ مجموعہ۔ دیباچے میں یوسفی رقمطراز ہیں ’’حس مزاح انسان کی چھٹی حس ہے، یہ ہو تو انسان ہر مقام سے آسان گزر جاتا ہے‘‘۔ کتاب میں درج ذیل مضامین شامل ہیں۔ صبغے اینڈ سنز سیزر، ماتاہری اور مرزا بارے آلو کا کچھ بیاں ہوجائے پروفیسر ہوئے مرکے ہم جو رُسوا ہل اسٹشین بائی فوکل کلب چند تصویرِ بُتاں
Mushtaq Ahmad Yousufi D.Litt (HC), SI, HI is an Urdu satirical and humor writer from Pakistan. Banker by profession, Yousufi has also served as the head of several national and international financial institutions. He has received Sitara-e-Imtiaz and Hilal-e-Imtiaz, the highest civil honors by the Government of Pakistan. He was also given the highest literary award by Pakistan Academy of Letters in 1999 the Kamal-e-Fun Award. His books have received many awards and critical acclaim.
Yousufi was born in British India in a learned family. His father Abdul Karim Khan Yousufi was chairman of the Jaipur Municipality, and later Speaker of the Jaipur Legislative Assembly. Yousufi completed his early education in Rajputana and earned B.A. from Agra University while M.A. Philosophy and LL.B from Aligarh University. After partition of India his family migrated to Karachi, Pakistan.
Ibn-e-Insha, himself an Urdu satirist and humourist, wrote about Yousufi: "...if ever we could give a name to the literary humour of our time, then the only name that comes to mind is that of Yousufi!" Another scholar Dr Zaheer Fatehpuri wrote, "We are living in the '...Yousufi era' of Urdu literary humour..." The Yousufi era started in 1961 when Yousufi's first book Chiragh Talay was published.
When it comes to Urdu humour,Mushtaq Ahmed Yousufi is right up there among the very best.
There is just one little problem,however.The language is a bit difficult and the reader may need the help of an Urdu dictionary,every now and then.
After I first read this book,I kept wondering what the title "Khakam Budhan" meant.Had to ask google for help and found that it means,"dust in my mouth."
Yousufi's humour is one of a kind.It makes a sudden appearance and can make the reader double over with laughter.His two best books for me are this one and Chiragh Talay.Zarguzasht is good too,but the language is pretty difficult.
And not to forget the youtube clips if one searches Mushtaq Ahmed Yousufi where he reads his work aloud,it's delightful.
Yousufi wrote very few books,and they were published years apart.Wish he had written more,I read somewhere that he destroyed several of his manuscripts,before publication as they didn't meet his personal high standards.
I suppose there would have been plenty of laughs in those destroyed pages too.Now the reader has to be content with just a few books he deemed worthy of publication.
کتاب کا نام جتنا مشکل، زبان اس سے دو ہاتھ زیادہ مشکل سمجھ لیں (کم از کم آج کے اردو قاری کے لئے)۔ مشکل زبان (کلاسیکی زبان بھی کہہ سکتے ہیں) کی وجہ سے کتاب ختم بھی آہستہ آہستہ ہوتی ہے۔ ۔ ۔ اور اس سست روی کی وجہ سے بہت سے پڑھنے والے اکتاہٹ کا شکار ہوں گے۔ تاہم اگر ان سپیڈ بریکرز سے بچ نکلیں تو یوسفی صاحب کا لکھا اس دشوار گزار پہاڑی جھیل کی طرح خوبصورت ہے جس کا حسن خراج تو لیتا ہے مگر مایوس نہیں لوٹاتا۔
صحیفہء یوسفی کو بڑے بڑوں نے سند امتیاز سے نوازا ہے۔ یہاں تک کہا گیا کہ مزاح کا موجودہ عہد یوسفی کا ہے (ابن انشا)۔ ۔ ۔ شاید سطحی طور پر دیکھنے سے یہ سب تعریف مبالغہ لگے مگر حُسن زبان دانی، کمالِ فن ظرافت اور مزاح برائے مقصدیت کی نظر سے اگر پڑھا جائے تو شاید ہی کوئی کور ذوق ہو جو تعریف نہ کر سکے۔ ۔ ۔ اردو نثر کی خوبصورتی اگر محترم مختار مسعود کے بعد کہیں نظر آئی تو یوسفی کے ہاں نظر آئی۔
اگر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہونے کی امید لے کر کتاب پڑھیں گے تو کنفرم مایوس ہوں گے۔ ہاں اگر اعلا اردو میں دبی دبی مسکراہٹوں کا من ہو تو یہ کتاب حاضر۔ نوٹ: اردو کے نئے نئے رسیا کے لئے بہتر ہوگا کہ وہ یہ کتاب تھوڑا ٹھہر کر پڑھے۔ خوامخواہ کتاب کی ریٹنگ خراب نہ کرے۔
It was awesome. I read in almost two years ago and still like to read excerpts whenever I need good humor. Urdu humor writers are certainly some of the best creators of literature. Mushtaq Ahmed Yousufi is my most favorite. His style is unique. I would not call it light. It is more like satire than plain jokes. What I like is his use of figurative language that include the frequent use of metaphors, poetry and proverbs entailing such interpretations and meanings of common objects or habits that hardly anyone could have expounded. It is one of those perennial literary masterpieces that one can never get weary of.
آج بڑے عرصے بعد کسی مزاحیہ مصنف کو پڑھا ہے۔ یہ کتاب کئی چھوٹے چھوٹے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ہے۔ کہیں ایسا کہ پیٹ میں بل پڑ جائیں۔ کہیں اتنا کہ ہلکی سی مسکراہٹ آ جائے۔ ایک سو سات صفحات میں سے دیباچے سے کے کر آخری جملہ تک طنز و مزاح باقی رہتا ہے۔ آج کل ہم کہتے ہیں کہ سینس لیس کامیڈی فلم یا کتاب ہے۔ یا یہ کہ اس کے لئے دماغ گھر پر رکھ کر جانا ہوگا۔ یہ ایسی کتاب ہے جس کا طنز و مزاح سمجھنے کے لئے بھی آپ کو دماغ چاہیے۔ میری بہن کی طرح اگر آپ بھی بنا دماغ لگائے پڑھنے کے عادی ہیں تو پڑھنے کی زحمت نہ کریں۔ بہت سی ادبی کتابیں ہیں جو سکول اور کالج میں پڑھی ہیں، لیکن اب نہ یاد ہے، نہ ہی اس ویب سائٹ پر میسر ہیں۔ بھئی رعب پڑتا ہے کہ ہم ادبی کتابیں بھی پڑھتے ہیں۔ صرف عام رومانوی ناول نہیں۔ خیر۔
کچھ پسندیدہ جملے: فقیر کی گالی، عورت کے تھپڑ اور مسخرے کی بات سے آزردہ نہیں ہونا چاہیے۔ فحش کتابوں میں دیمک نہیں لگ سکتی کیونکہ ایسی کتابیں کھانے کے بعد وہ افزائشِ نسل کے قابل نہیں رہتی۔ وقت گزرتا دکھائی نہیں دیتا لیکن چہرہ پر ایک داستان چھوڑ جاتا ہے۔
آج پہلی دفع اردو ادب میں مزاح پڑھنے کا اتفاق ہوا اور مشتاق صاحب کے مزاح کو ہر زاویہ سے بے حد مکمل پایا۔ مشتاق صاحب کی زبان آج کے زمانے کے پڑھنے والے کے لیے مشکل معلعوم ہوتی ہے۔ انہوں نے مزاح میں بہت خوبصورتی سے بہت تلخ حقیقتوں کو بیان فرمایا ہے کہ پڑھنے والا تبسم کے ساتھ سوچنے پر بھی مجبور ہوجاتا ہے ۔ ابن انشا نے اس دور کو عہد یوسفی کہا ہے تو اس میں کوئ مضحاکہ نہیں کیونکہ مشتاق صاحب نے اپنے قلم سے یہ بات ثابت کردی ہے کہ اس دور کو عہد یوسفی نہ کہنا سراسر زیادتی ہوگی۔
گزشتہ چار سالوں میں مجھے دو چیزوں سے محبت بڑی شدت سے ھوی
1.لاہور 2.اردو مواخراذکر سے محبت تب ہوی جب پتہ چلا کہ ھم عہدِیوسفی میں جی رہے ہیں. ان کے الفاظ میں شرارت سبق اور تنز کا حسین امتزاج ہے. وہ بےباک لکھتے ہیں اور ان نازک تاروں کو چھو لیتے ہیں جہاں مزاح کی بلند چوٹی ہے اور اس سے آگے بدکلامی کی ڈھلوان ھے. مندرجہ بالا کتاب میں مضمون جو کتب فروشی پر لکھا گیا بہت خوب ہے
خاکم بدہن یوسفی صاحب کی دوسری لازوال تصنیف ہے جس نے اردو ادب میں طنز و مزاح نگاری میں ایک نیا باب کھولا ہے۔ یوسفی صاحب کی تحریر میں شوخی اور لطافت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور ہر جملہ پڑھ کر قاری محو خیالات ہو جاتا ہے اور جس پیرائے سے الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے اس سے لطف اٹھاتا ہے ! یہاں پر میں یہ بات بھی لکھتا جاؤں کہ یوسفی صاحب کی تحریر میں جنسیت بھی شامل ہے لیکن میں ان کے انداز تحریر کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے جنسیت کو بھی مزاح کے پیرائے میں بیان کیا ہے نا کہ لذت حاصل کرنے کے لیے. اس میں کوئی شک نہیں کہ یوسفی صاحب جیسا باکمال مصنف صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے اور علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ : ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
مشتاق احمد یوسفی کو اگر شہنشائے ظرافت نا کہا جائے تو زیادتی ہو گی۔ پطرس اور ابن انشاء جیسے ادبی قد کاٹھ رکھنے والوں کی نسبت یوسفی کو اگر ان سے بہتر نہیں پایا تو کم بھی نہیں پایا ۔ یہ کتاب دبی دبی مسکراہٹوں اور کچھ بلند بانگ قہقہوں پہ مشتمل پر معنی مزاح کا مجموعہ ہے ۔ سطحی مزاح پہ ہنس ہنس کر دہرے پڑنے والے افراد اسے پڑھنے سے باز رہیں
پطرس کے بعد یوسفی بلاشعبہ اردو مزاح کا ایک بڑا نام ہے۔ یوسفی کو پہلے نہیں پڑا تھا۔ بس ان کے چھوٹے موٹے اکتباسات کو صرف فیس بک پر پڑھے تھے۔ درمیان میں ایک دو اور اردو مزاح نگاروں کو پڑھنے کا موقع ملا۔ لیکن جو مزا پطرس کے مضامین کے پڑھنے سے ملا تھا وہ دوبارہ نہیں ملا ، تاوقتیکہ یوسفی کو پڑھا۔ پطرس کے بعد یوسفی نے اس کتاب کے ذریعے کھل کے ہنسنے کا موقع فراہم کیا۔
یوسفی صاحب کا یہ دوسرا شاہکار سنہ 1969ء میں شائع ہوا، جو کل نو مضامین (بشمول دیباچہ) پر مشتمل ہے۔
حسب حس مزاح، قاری مضامین یوسفی کے چٹکلوں کی کاٹ کو پرکھتے ہوئے محظوظ یا بہت زیادہ محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
کتاب کیا ہے کہ یوسفی صاحب کی اپنی اور چند احباب کی ادھیڑ عمری کی آپ بیتیوں یا یوں کہیے کہ مزاح بیتیوں کا سوچا سمجھا ظریفانہ بیان ہے، جسے یوسفی صاحب نے اپنی شوخئ تحریر سے ایسے آراستہ کیا ہے، جس کا بیان ممکن نہیں۔
جہاں پہلے مضمون "دست زلیخا" میں اپنے مجموعہ ء ثانی کا دیباچہ اور ذکرِ طباعت و کتابت ہے، وہیں "صبغے اینڈ سنز" میں اپنے دوست صبغت اللہ صاحب کی کتب فروشی اور کتابوں کی دکان کے رو بہ زوال ہونے کا اچھوتا ذکرِ سرکشی کر گئے ہیں۔ اور مجھے اس مجموعے میں سب سے زیادہ جس خاکے نے متاثر کیا، وہ "سیزر، ماتاہری اور مرزا" ہے، جس میں یوسفی اپنے انگریز افسر سے ملنے والے کتے 'سیزر' کی یادوں کا کھٹ مٹھا تذکرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ کھٹ مٹھا اس لئے کہ جہاں اس میں 'سیزر' کی شرارتوں اور مرزا کی کتوں سے نفرت بوجہ ڈر، کا پر لطف ذکر ملتا ہے، وہیں اس (سیزر) کی موت بوجہ کار حادثہ کا ایسا مغموم انداز میں بیان کیا ہے کہ آدمی یوں رونے لگ جائے، جیسے اپنے کسی گزرے رفیق کو روتا ہے۔ یوسفی کے اس رنگ نے ان کیلئے دل میں اعتقاد اور بڑھا دیا ہے۔
بہر حال، اگلے تمام مضامین واپس اپنی پہلی ڈگر پہ لوٹ آتے ہیں۔ یعنی جانب مزاح و خاکہ نگاری۔
"بارے آلو کا کچھ بیاں ہو جائے" میں مصنف اپنے ہر دلعزیز دوست مرزا عبد الودود بیگ کی خوراک بیتی کا بیاں کرتے ہیں کہ کیسے انہیں آلو سے چڑ ہوئ۔ پھر آلو سے تعلقات بحالی اور غذا کے صحت پر اثراتِ ہمہ جہت کا مزاحِ یوسفی ہماری حسِ مزاح کو لطیف لذات سے آشنا کرتا آگے بڑھ جاتا ہے۔ "پروفیسر" میں اپنے ایک عزیز پروفیسر قاضی عبد القدوس صاحب کی ہمہ جہت طبیعت کا میٹھی میٹھی طنزیہ تحریر سے بول بالا کر گئے ہیں۔
"ہوئے مر کے ہم جو رسوا"؛ اس خاکے میں یوسفی صاحب اپنے رفیق مرزا صاحب کی معیت میں ایک مرحوم ہمسایہ بزرگ، جو بحمد اللہ کثیر الازواج مرنے کے شرف گراں بار سے مشرف ہوئے تھے، کے جنازے سے تدفین اور بعد از تدفین چہلم تک کی چٹپٹی روئیداد لکھتے ہیں۔ اور اخلاقی نتیجہ یہی ہے کہ شرکاء کس اچھوتے انداز میں مرحوم کی تذلیلا تعظیم کا پورا اہتمام کرتے ہیں، اور اگر بس میں ہو تو قبر میں جھانک کر مرحوم کی پرتقصیر حیات کا آئینہ ان کو دکھائیں اور ان کی بعد از مرگ تالیف قلبی کا پورا اہتمام حصول ثواب سمجھتے ہوئے کر سکیں۔ "ہِل اسٹیشن" میں یوسفی نے احباب دیرینہ کی سنگت میں اپنے کوئٹہ کی سیر و تفریح کو چلبلے اور شوخ مزاح کی ہلکی آنچ پہ سنکا کر پیش کیا ہے، جو تقریبا کسی بھی قاری کو اپنی زندگی کے کسی موقع سے ضرور مماثل ملے گا، بوجوہ احباب۔ اس موقع پر یوسفی صاحب نے پروفیسر قاضی عبد القدوس، مرزا عبد الودود بیگ کے علاوہ قارئین کرام کو جناب ضرغوص صاحب یعنی ضرغام الاسلام صدیقی صاحب کی شخصیت سے متعارف کرایا ہے، جن کو جان کر ہلکی سی، مزاج نفیس میں، گھبراہٹ تک بھاگ جاتی ہے۔ "بائ فوکل کلب" بالخصوص اپنی ذات اور ادھیڑ عمری کے اس حصے کی جانب اشارہ کرتا ہے، جب دور و نزدیک کی نظر کمزور ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اس کا مطالعہ بھی پر لطف و نسبتا سراسیمہ رہا۔
اور آخر میں یوسفی "چند تصویر بتاں" میں اپنی فوٹو گرافی یعنی کیمرے سے تصویر کشی کے نادر و رنگین تجربات کے ساتھ کتاب کا ایسا اختتام کرتے ہیں کہ قاری کتاب کے خاتمے پر یوسفی کی شخصیت سے عارضی جدائ کا احساس لئے اس امید سے دامن گیر ہو جاتا ہے کہ آئندہ مجموعے میں ہمارا پھر سنگم یقینی ہے۔
حرف آخر: یوسفی صاحب جیسا مزاح نگار شاید اب پھر کبھی اردو زبان کو دوبارہ نصیب ہو پائے۔۔۔
کتاب: خاکم بدہن مصنف: مشتاق احمد یوسفی صاحب صنف: طنز و مزاح صفحات :۲۱۵ مطبع: فضلی سنز،کراچی
مشتاق احمد یوسفی جی کی کتب میں سے کسی ایک پر ریویو لکھنا میری جیسی کم علم اور کج فہم کی جانب سے کسی گستاخی سے کم نہ ہو گا۔ یہ کتاب میں نے بصد استحقاق ابّا کی لائبریری سے چوری کی ہے اور اب اس فعل پر میں کافی نازاں ہوں۔۔۔
"خاکم بدہن" کو پہلے بھی ایک بار کم از کم ۹ سال پہلے پڑھا تھا مگر بخدا جو لطف اس بار آیا پہلے نہ آیا تھا۔ کتاب ۸ مزاحیوں اور خاکوں میں منقسم ہے۔۔۔اور واللہ ایک سے بڑھ کر ایک۔۔۔
جن خاکوں نے مجھے ہنسا کر لوٹ پوٹ کیا ان میں "بارے آلو کا کچھ بیاں ہو جائے"، "ہوئے مرکےجو ہم رسوا"،" بائی فوکل کلب" اور "چند تصویرِ بتاں" سرِ فہرست ہیں۔
یوسفی جی کے ہاں جو مزاح میں شائستگی اور طنز کی لطیف کاٹ ہے وہ کسی اور کے ہاں نہیں ملتی۔ روانی میں وہ بات بھی اس سہولت سے کہہ جاتے ہیں جس کے لئیے لوگ الفاظ تلاشتے رہتے ہیں۔ یہی حال منظر نگاری کا ہے۔ منظر نگاری کا عمدہ نمونہ "ہِل سٹیشن" اور "بائی فوکل کلب" ہیں۔
تشبیہہ اور خوبصورت استعاروں کی انکے ہاں بھرمار ہے جو لطف دبالا کر دیتی ہے۔۔۔بالخصوص خاکوں میں ایسا نقشہ کھینچتے ہیں کہ قاری مذکورہ شخص کو گویا سامنے پاتا ہے۔۔۔۔اسی طرح جابجا مرزا عبدالودود(یوسفی جی کے رفیق جو انکے ساتھ موجود رہتے ہیں) کی موجودگی اور انکے چٹکلے قاری کو ایک لمحہ کےلئیے بھی بور نہیں ہونے دیتے۔۔۔
مزاح کے باب میں ایسی کتب اس دور میں غنیمت سے کم نہیں جہاں نہ صرف یہ کہ مزاح میں شائستگی ناپید ہوتی جا رہی ہے بلکہ چند اوٹ پٹانگ،جگت نما پھیکے جملوں کو ایک جگہ جمع کر کے بلاتردّد مزاح کا نام دے دیا جاتا ہے۔
اہلِ ذوق کےلئیے اس کتاب کا مطالعہ لازم ہے۔
********************************************
اقتباسات پیشِ خدمت ہیں:
"مرزا جب سے بولنا سیکھے ہیں،اپنی زبان کو ہماری ذات پر ورزِش کراتے رہے ہیں۔ اور اکثر تلمیح و استعارے سے معمولی گالی گلوچ میں ادبی شان پیدا کر دیتے ہیں۔"
"اِدھر چند سال سےہم نے یہ معمول بنا لیا ہے کہ ہفتہ بھر کی اعصابی شکست و ریخت کے بعد اتوار کو مکمّل "سبت" مناتے ہیں ۔ اور سنیچر کی مرادوں بھری شام سے سوموار کی منحوس صبح تک ہر وہ فعل اپنے اوپر حرام کر لیتےہیں جس میں کام کا ادنٰی شائبہ یا کمائی کا ذرا بھی اندیشہ ہو۔"
"اب مرزا میں بڑی پُرانی کمزوری یہ ہے کہ اُن سے کوئی مشورہ مانگے تو ہاں میں ہاں ملانے کے بجائے سچ مُچ مشورہ ہی دینے لگ جاتے ہیں۔"
"جس دن سے تعدّدِ ازواج کا قانون لاگو ہونے والا تھا،اس کی "چاند رات" کو ایک سیٹھ صاحب غریب خانے پر تشریف لائے۔ اِنتہائی سراسیمگی کے عالَم میں۔ اِن کے ہمراہ وجہِ سراسیمگی بھی تھی۔ جو سیاہ برقع میں تھی۔ اور بہت خوب تھی۔"
"آخرِ شب حضرت نے بطورِ خاص فرمائش کر کے طوائف سے اپنی بحر سے خارج غزل گوائی، جسے اس غیرتِ ناہید نےسُر تال سے بھی خارج کر کے سہ آتشہ کردی۔"
بعض مقامات پر ڈکشنری استعمال کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے لیکن مجموعی طور پہ بہترین کتاب ہے - پہلے دو تین مضامین تو ایسے ہیں کہ ہنسی رکتی ہی نہیں - بہت خوبیوں کے باوجود بھی میرے خیال سے یہ کتاب ان کا سب سے بہترین فن پارہ نہیں ہے - بہرحال اگر آپ مذاح پڑنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو اس کتاب کا مطالعہ کسی حال میں بھی ہاتھ سے جانے نہ دیں -
It's a masterpiece and an epic example of classic Urdu comedy. In the first few essays, I could not stop laughing while reading. That's the best part of the book. Despite all the beauties of this book, I would say "it's not the best of Yusufi's works'. Sometimes you have to use dictionary to understand the complex vocabulary. However, if you are interested in reading comedy, you should never miss this amazing piece of art.
اردو مزاح نگاری میں سب سے زیادہ عرصے اور معیار کو برقرار رکھنے والے شاید یوسفی ہی ہیں۔ ان کی ہر کتاب طویل قصوں پر مشتمل ہے جس میں قاری کھو جاتا ہے البتہ اس کو سمجھنے کے لیے قاری کا صابر ہونا بہت ضروری ہے۔ ایسا نہیں کہ ہر سطر سے قہقہے کے موضوعات مل رہے ہوں۔ بلکہ یوسفی ایک طویل تمہید باندھ کر پورا جامع پلاٹ بناتے ہیں جس کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے اور اکثر اس کے لیے گہرا ادبی ذوق خصوصا غالب فہمی نا گزیر معلوم ہوتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ فارسی اور پنجابی کی بھی اچھی شد بد چاہیے ہوتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ یہ کتاب اچھی ہے مگر ان کے لیے جو ذرا گاڑھی اردو ہضم کر سکتے ہوں اور شعر و شاعری کا بھی ذوق ہو۔
مجھے خاصا یقین تھا کہ میری اُردو کافی اچھی ہے. اول نمبر پر تو وہ یقین کا مینار ٹوٹا کیونکہ جو اُردو میں پڑھتا رہا ہوں یہ اُس سے خاصی مختلف تھی. باقی جہاں تک مزاح کی بات ہے تو میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کیونکہ یہ ایک بہت ہی عمدہ کتاب ہے. اردو کے معانی ڈھونڈنے میں زیادہ اور پڑھنے میں کم وقت لگ رہا تھا بالآخر تنگ آکر معانی ڈھونڈنے کی بجائے کتاب پڑھنے ہر اکتفا کیا تبھی اللہ اللہ کر کے کتاب ختم ہوئی. دور حاضر کہ وہ حضراتِ جن کو لکھنے کا شوق ہے ان کیلئے بھی یہ ایک اچھی کتاب ثابت ہو سکتی ہے بشرطیکہ کہ اگر آپ کو سمجھ آجائے.
Best Book to read. Loved it. Mushtaq ahmed Yousufi has always been my inspiration. His funny books are great in reading and attention catching. Love it. Have found here some of his great work https://reading.caretofun.net/
This entire review has been hidden because of spoilers.
An amazing book which serves as a great "stress relief" tool. Yousufi Sb. at his humble best. The insight into behaviors and a sense of humor that is unmatched by any other parallel in Urdu or English literature make this book a "gut-splitting" as well as an "enlightening" experience for me.
Characters of Mirza, Abdul-Quddoos, Sibghey and the author himself are not mere caricatures rather they are highly believable and real. It was a pleasure spending time with these highly adorable characters.
Till a few days ago "Aaab-e-Gum" was his best work for me but now "Khakam Badahan" has taken over.