What do you think?
Rate this book


160 pages, Paperback
First published September 17, 1984
میں دنیا کی چوٹی پر نہیں ہوں
یہ لمحہ کسی سنیاسی کا ٹیلہ ہے
جس پر کوئی تارک الدنیا بیٹھا رہے
وقت میرے پاؤں سے اٹھتا نہیں
میرے سر میں
ایک خاموش سیاہ دھماکہ بن کر پھٹتا نہیں
روشنی اور اندھیرا ایک بن چکے ہیں
رات ایک بے ربط سرگوشی ہے
ایک جسم خود سے چمٹا ہوا
خود کو خود سے جدا کرنے میں مصروف
خواب کٹی ہوئی انگلیوں سے
خواب کے عالم میں اپنے آپ کو چھوتا ہے
میں کسی دوراہے پر نہیں ہوں
چیزوں میں سے ایک کو چن لینا غلط راستے پر چلنا ہے
آغاز پھسل رہا ہے
انجام غائب ہے
نہ کوئی آغاز ہے نہ کوئی انجام
میں ایک وقفے کے اندر ہوں
نہ شروع ہوتا ہے نہ ہی ختم
جو کچھ کہہ رہا ہوں
اس کا سر پاؤں نہیں
اپنے اندر جھانکتا ہوں
ہمیشہ وہی نام وہی چہرہ پاتا ہوں
خود کو کبھی نہیں پاتا ہوں
ایک کھیل جسے ہم سب
اس کے ضابطے جانے بغیر کھیل رہے ہیں
ایک کھیل جسے کوئی نہیں جیتا
تاریخ سفر میں ہے
بغیر کسی آغاز کے
بغیر کسی انجام کے
کوئی بھی کہیں نہیں جا رہا
بے سایہ الفاظ
جنہیں ہم سن نہیں سکتے
جن سے ہم منکر ہیں
ہمارے نزدیک ان کا کوئی وجود نہیں
ہم شور سے مطمئن ہوں
میں جملے کے وسط میں ہوں
یہ مجھے کہاں لے جاۓ گا؟
کٹی پھٹی زبان میں
شاعر ... کتبوں کا رکھوالا
میری کھڑکی کے مد مقابل میں
درختوں کا ہنگامہ
گہری سبز آوازوں کا تموج
بائیں جانب، دیوار کے اوپر
رنگوں سے زیادہ خیال نذر آتے ہیں
ویران خلا میں روشنی ہے نہ سای
بادل تحلیل ہونے والے ہیں
گھر روشنیوں سے جگمگاتے ہیں
آسمان دریچے میں سمٹ رہا ہے
خلا سکڑ رہا ہے
خود اپنے اوپر
آھستہ آہستہ نام متحیر ہوتے جاتے ہیں
روشنی اپنے ہاتھوں کے درمیان تھامتی ہے
سفید پہاڑی اور سیاہ شاہ بلوط
آگے بڑھنے والے راستے کو
اور اس پیڑ کو جو کھڑا ہے
روشنی ایک پتھر ہے جو سانس لے رہی ہے
خواب خرامی کرنے والے دریا کا پاس
روشنی ایک لڑکی ہے جو پھیلا رہی ہے
طلوع سحر کے ایک بھورے گٹھے کو
روشنی کمرے کے پردوں میں باد نسیم کی شکل سنوارتی ہے
ہر ہر ساعت ایک زندہ بدن بناتی ہے
یہ ایک صراحی ہے جس سے آنکھ روشنیاں پیتی ہے
روشنی چادر کی تہیں
اور بلوغت کی سلوٹیں کھولتی ہے
یہ نہ معقول ہے اور نہ غیر معقول
روشنی غیر محسوس ہاتھوں کے ساتھ
تناسب کی عمارتیں تعمیر کرتی ہے
روشنی آئینوں کے ایک راستے سے فرار ہوتی ہے
اور روشنی کی طرف لوٹ آتی ہے
یہ ایک ہاتھ ہے جو اپنے آپ کو خود ایجاد کرتا ہے
اور یہ ایک آنکھ ہے جو اپنی ایجادات میں
خود کو دیکھتی ہے
روشنی وقت ہے اور وقت پر
مرتعش ہو رہی ہے
میں رات اور پانی ہوں
میں وہ جنگل ہوں جو پیش قدمی کرتا ہے
میں زبان ہوں
بدن ہوں
بدنوں کی بہار
تم گندم کی رات ہو
سورج کا جنگل ہو
میری رات تمہاری رات کے اندر ہے
مرا سورج تمھارے سورج میں
تمہارا جنگل مری زبان پر
تمہارا بدن مرے بدن کے اندر
میدانوں میں سرگوشیاں
صورتوں کا ظہور
میرے خیالات کی طرح غیر حقیقی
ہمیشہ کی طرح ریزہ ریزہ ہوتے چہرے
میں نے کچھ کہا
لفظ جو ہوا اڑا لے گئی
ایک سہ پہر کو چوٹیوں کی مشاورت ہوئی
چناروں نے کھڑے کھڑے چہل قدمی کی
میں نے ایک نیلا آسمان
اور تمام نیلاہٹیں دیکھیں
میں نے دیکھا دنیا اپنے وجود پر استراحت کر رہی ہے
میں نے دیکھا کہ پیکر ظاہر ہو رہے تھے
اور میں نے اس نصف ساعت کو
متناہیت کے کمال کا نام دیا
شیشہ سا افق
چوٹیوں کے درمیان تڑخ جاتا ہے
ہم بلوروں پر چلتے ہیں
نیچے اور اوپر
سکوں کی عظیم خلیجیں
نیلے خلاؤں میں
سفید چٹانیں، سیاہ بادل
تم نے کہا
سیاہ آسمان
زرد زمین
خروس رات کی دھجیاں بکھیر دیتا ہے
پانی بیدار ہو کر وقت پوچھتا ہے
ہوا جاگتی ہے اور تمھارے بارے میں پوچھتی ہے
جیسے جنگل اپنے پتوں کے بستر میں سوتا ہے
تم اپنے بارش کے بستر میں سوتی ہو
تم اپنے ہوا کے بستر میں سوتی ہو
تم اپنے چنگاریوں کے بستر میں سوتی ہو
بولو سنو مجھے جواب دو
بجلی کا کڑکا
کیا کہتا ہے
جنگل سمجھتا ہے
میں تمہاری آنکھوں سی داخل ہوتا ہوں
تم میرے منہ کے زریعے آتی ہو
تم میرے لہو میں محو خواب ہو
میں تمہارے سر میں جاگتا ہوں
میں تمھارے ساتھ پتھر کی زبان بولوں گا
میں تمھارے ساتھ برف کی زبان بولوں گا
میں تمھارے ساتھ پانی کی زبان بولوں گا
میں تمھارے ساتھ لہو کی زبان بولوں گا
وہ کیا ہے جو سنبھالے رکھتا ہے
شام کے نیم وا نور کو
تمام شاخیں
پرندوں کے بوجھ سے مغلوب
اندھیرے کی سمت جھکتی ہیں
رات کا استقبال ہوئے
پیڑوں کے جھنڈ
سکوت کے فوارے بن جاتے ہیں
دنیا ذرا کم ہی قابل اعتبار ہے
تم دفن ہو گہرائی میں اور فاصلے پر ہو
تم ہلے بغیر ہلتی جا رہی ہو
یہ سوچتے ہوئے کہ ت�� نا قابل رسائی ہو
میں تمہیں اپنی آنکھوں سے چھوتا
اور ہاتھوں سے دیکھتا ہوں
خواب جدا کرتے ہیں
اور خون ہمیں یک جان کر دیتا ہے
ہم نبض کی دھڑکنوں کا ایک دریا ہیں
تمہارے پپوٹوں تلے سورج کا بیج پکتا ہے
دنیا ... ابھی تک حقیقی نہیں
وقت حیران ہوتا ہے
جو کچھ کہ یقینی ہے وہ تمھاری جلد کی حرارت ہے
میں تمہاری سانس میں سنتا ہوں
وجود کی لہر
آغاز کا فراموش شدہ حرف
ایک پیڑ میرے سر کے اندر اگ
تمہاری ایک جھلک اس کو آگ لگا دیتی ہے
رات کے بدن میں دن طلوع ہوتا ہے
اس جگہ، مرے باطن میں، مرے سر کے اندر
پیڑ بولتا ہے
ذرا قریب آجاؤ ... کیا تم سن سکتے ہو؟
تمام دنیا سمٹ جاتی ہے
سترہ حروف تہجی میں
اور تم اس جھونپڑے میں
سبک ہوا میں تخلیق شدہ
چٹانوں اور صنوبروں کے درمیان
نظم اگتی ہے
میں جو کہ رہا ہوں
وہ مشکل سے تین سطور میں سما جاتا ہے
حروف تہجی کا جھونپڑا
تم اس کے سوا کچھ نہیں جو آدمی بناتا ہے
محنت کی کٹھن سزا سے گزر کر
شیو جی
علم خواب دیکھنے سے مختلف نہیں
اور خواب دیکھنا عمل سے مختلف نہیں ہے
شاعری تمام نظمیں سپرد آتش کر چکی ہے
لفظ انجام تک پہنچ چکے ہیں
نام اور شے کے درمیان فاصلہ تمام ہو چکا ہے
نام رکھنا تخلیق کرنا ہے
اور تصور کرنا، جنم لینا ہے
تمہاری سیاست زدہ زبان
خاموش ہو جاؤ یا شور کرو
یہ ایک ہی بات ہے
وہ تم کو پہلے ہی کہیں سزا سنا چکے ہیں
تمھارے خواب شفاف ہیں
تمھیں ایک کڑا فلسفہ درکار ہے
وہ بہت دور سے آتی ہے
کسی مرطوب دیس سے
بہت کم لوگوں نے اسے دیکھا ہے
اس کا راز میں بتاؤں گا
وہ دن کے وقت سڑک کے کنارے پتھر ہوتی ہے
اور رات کو آدمی کے پہلو کی طرف بہنے والا ایک دریا
دن مختصر ہے اور ساعت لمبی
بالکل بے حرکت میں اس کے قدموں کا سراغ لگاتا ہوں
میں صفحے پر اپنا سایہ دیکھتا ہوں
میں خود کا ساعت کے خالی مرکز میں
ناکام دیکھتا ہوں
مگر میں تم کو نہیں پاتا ہوں
اور خود کو بھی نہیں پاتا ہوں
مرے ہاتھ تم کو چھوتے ہیں اور تم یک دم غائب ہو جاتی ہو
میں تمہاری آنکھوں کے اندر دیکھتا ہوں اور اچانک غائب ہو جاتا ہوں
ساعت اپنے سایوں کا سراغ لگاتی، مٹاتی
اور وظع کرتی ہے
مگر میں اپنا سراغ نہیں لگا پاتا
اور نہ تم کو پاتا ہوں
ایک بیج ہے جو وقت میں خوابیدہ ہے
وہ حروف کے دھماکے سے ہوا میں پھٹ جاتا ہے
مرے، تمہارے اور وقت کے نام لیتا ہے
نام وو اثمار ہیں جو پکتے ہیں اور گر جاتے ہیں
ساعت کی اپنی وسعت، جو اپنے اندر آپ گر جاتی ہے
قدم پڑتے ہیں اس کوچے میں میرے
مگر جو گونجتے ہیں دوسرے کوچے میں
جس میں چاپ سنتا ہوں میں ان کی
میں اس کوچے میں ہوں محو سفر
جس میں
فقط کہرا حقیقی ہے
جو میں کہتا ہوں
وہ ایک لفظ سے دوسرے لفظ کے درمیان گم ہو جاتا ہے
مجھے معلوم ہے کہ میں دو بریکٹوں کے درمیان زندہ ہوں
اس انے اپنا ایک چہرہ بنا
اس کی نسبت سے زندہ رہا
مر گیا، اور پھر، مر کے زندہ ہوا
آج اس کے اسی چہرے پر
اس کے چہیرے کی سب جھریاں ہیں
اور ان جھریوں کے قریں
کوئی چہرہ نہیں
ہم ان گھروں میں پیدا ہونے پر مجبور ہوتے ہیں
جنہیں ہم نے نہیں بنایا ہوتا
سفر پھر شروع ہو جاتا ہے
دھیان
ہمارے اور ہم سے پہلے
پرانے، بھولے بسرے گھروں کی دریافت کرتا ہے
گھر
جو سورج کی طرح ابھرتا ہے
ہر شے کو نمایاں
روشن اور واضح... اس شے کا روپ دیتے ہوئے
اور پھر ڈوب جاتا ہے
ختم ہو جاتا ہے
جیسے کوئی جگہ
اپنی جگہ پر بیٹھے بٹھاۓ
بس یونہی
نذر آنا بند ہو جاۓ
وقت میں تبدیل ہو جاۓ