Dr. Israr Ahmed, (1932-2010) was a Pakistan-based Muslim religious figure who has been described as well-known among Muslims in Pakistan, India, the Middle East, and North America. Born in East Punjab, (now part of Haryana) in India, the second son of a government servant, he is the founder of the Tanzeem-e-islami, an off-shoot of the Jamaat-e-Islami. He has spent the "last forty years" actively engaged in "reviving the Qur'an-centered Islamic perennial philosophy and world-view" with "the ultimate objective of establishing a true Islamic State, or the System of Khilafah." Ahmed is skeptical of the efficacy of "parliamentary politics of give-and-take" in establishing an "Islamic politico-socio-economic system" as implementing this system is a "revolutionary process".
ڈاکٹر صاحب کی اس کتاب پر تبصرہ کرنا تو سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہو گا تاہم میں یہاں کوشش کروں کی اپنے محسوسات اور ذاتی تجربہ آپکے سامنے پیش کروں جو مجھے اس کتاب کو پڑھ کر حاصل ہوا ہے۔
یوں تو سیرت ایک ایسا موضوع ہے جس کا، اگر آپ خود کو typically مذہبی نہ بھی گردانتے ہوں تب بھی، مطالعہ کسی نہ کسی لیول پر ہر شخص نے کیا ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ صرف بعثت تمام عالم کے لیے ہوئی بلکہ آپکی شخصیت بھی اتنی متاثر کن، مکمل، اور ہمہ جہت ہے کہ ایک عام آدمی ،خواہ وہ مسلم ہو یا نہ ہو، آپکا بے دام غلام بنے بنا رہ نہیں سکتا۔ مؤخر الذکر پہلو ہی دراصل ڈاکٹر صاحب کے زیر نظر رہا ہے اور اسی مدار کے گرد یہ کتاب گردش کرتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے استدلالی انداز میں، انسانی نفسیات کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تئیس سالہ(مکی و مدنی)انقلابی جدوجہد اور اعلائے کلمتہ اللہ کے لیے آپ اور آپکے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تگ و دو کو پیش کیا ہے۔ اب وہ خواہ مکی دور میں قریش کے مظالم ہوں، اور ان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتھک صبر ہو، مدینہ پہنچنے کے بعد آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی حکمت عملی اور اسکے ثمرات، یا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غزوات میں جنگی حکمت عملی، یا صلح حدیبیہ میں آپکی سیاسی دور اندیشی اور بصیرت، ہر واقعے کو اس استدلالی انداز سے پیش کیا ہے آپ نہ صرف مبہوت رہ جاتے ہیں بلکہ آپ کے دل میں یہ خیال بھی جا گزیں ہو تا ہے کی جیسے اس سے قبل تو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کما حقہ جانا ہی نہیں۔ یوں سمجھیں کہ اس کتاب کو پڑھ کر نئے سرے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ہو جاتا ہے جس میں عقیدت تو ہے ہی ہے، ساتھ فخر بھی ہے۔ کئی مواقع پر آپ پڑھتے پڑھتے مسکرا اٹھتے ہیں تو کہیں رقت طاری ہوتی ہے۔ کہیں ڈاکٹر صاحب کا یہ شکوہ آپکو پانی پانی کرتا ہے کہ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کے دعوے دار ہو کر بھی آپکی (صلی اللہ علیہ وسلم) تئیس سالہ انقلابی جدوجہد میں سے محض تئیس واقعات تک نہیں گنوا سکتے۔
چونکہ ڈاکٹر صاحب کی ساری زندگی اعلائے کلمۃ اللہ اور اسکی اہمیت پر زور دیتے گزری ہے تو کتاب بھی بھی آپ بجا طور پر شکوہ کناں نظر آتے ہیں کہ کس طرح ہم نے بعثت نبوی کے مقصد کو بھلا دیا اور محض چند محافل کے انعقاد، محبت کے بلند و بانگ دعووں اور گنی چنی سنتوں پر عمل کرنے کو ہی عشق رسول کی معراج سمجھ لیا۔ گویا نفس کو مارے بغیر، دین کو نافذ کیے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا کما حقہ اکرام ممکن ہی نہیں ہے۔
یہ کتاب آپکو شرمندہ کرتی ہے، کتھارسس پر آمادہ کرتی ہے، جھنجھوڑتی ہے۔ یہ محض سیرت کے واقعات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ عمل ہر اکسانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔
چونکہ یہ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے لیکچرز اور خطبات کا مجموعہ لہذا انداز تقریری ہے۔ لیکن اگر آپ نے ڈاکٹر صاحب کو سن رکھا ہے تو یقین جانیے کہ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے انکی آواز آپکے کانوں میں گونجے گی اور آپ کو بالکل دقت نہیں ہوگی۔
ضرور پڑھیے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نئے انداز میں تعارف حاصل کیجیے۔