Fought between India and what was then East and West Pakistan, the war of 1971 led to the creation of Bangladesh, where it is remembered as the War of Liberation. For India, the war represents a triumphant settling of scores with Pakistan. If the war is acknowledged in Pakistan, it is cast as an act of betrayal by the Bengalis. None of these nationalist histories convey the human cost of the war. Pakistani and Indian soldiers and Bengali militiamen raped and tortured women on a mass scale. In Women, War, and the Making of Bangladesh , survivors tell their stories, revealing the power of speaking that deemed unspeakable. They talk of victimization—of rape, loss of status and citizenship, and the “war babies” born after 1971. The women also speak as agents of change, as social workers, caregivers, and wartime fighters. In the conclusion, men who terrorized women during the war recollect their wartime brutality and their postwar efforts to achieve a sense of humanity. Women, War, and the Making of Bangladesh sheds new light on the relationship among nation, history, and gender in postcolonial South Asia.
an archival treasure trove, Saiaki preserves oral histories that are rarely recorded, layered between historical context and anthropological analysis. brilliant.
This is an absolutely well written book and brings out a fresh approach on the war and conflict of 1971. It sheds light on state narratives of India, Pakistan and Bangladesh that only construct history that is relevant to their side. It brings out accounts and testimonies of sexual assault survivors and the experiences of women in general; both Bengali and Bihari. This is the kind of humanistic approach we need when looking at such wars and conflicts that deal with the complexity in such situations.
An important book as a Pakistani covering an unacknowledged and ignored part of history.
The first section/ 100 pages are repetitive with the author covering her research method in a tedious manner. However it's worth preserving and the latter chapters cover perspectives of impacted individuals including victims, social workers, freedom fighters and perpetrators.
Very moving and difficult read. More an anthropological monograph of violent times rather than a sequential history book delineating particular incidents or places.
پاکستان میں 1970 کے انتخابات کے بعد فوجی حکومت نے اقتدار طے شدہ طریقے کے مطابق اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو نہیں دیا۔ اس رویّے کے خلاف مشرقی حصے میں احتجاج شروع ہوا جسے دبانے کے لیے انتخابات میں دوسرے نمبر پر آنے والی سیاسی پارٹی کی ملی بھگت سے، اضافی فوجی قوت بھیج کر آپریشن کیا گیا۔ بالکل اُسی طرح جیسے نوآبادکار نوآبادیات کی بغاوتوں کو کچلنے کے لیے کیا کرتا تھا۔ یہ پس منظر ایک الگ تفصیل اور بحث کا تقاضا کرتا ہے۔ لیکن پوری ایک جنگ تھی جو برائے نام مسلح یا نہتے مقامی لوگوں کے خلاف ایسی غیرمقامی فوج کر رہی تھی جو پوری طرح مسلح تھی اور اس میں اُسے اس سیاسی جماعت اور گروہوں کی حمایت بھی حاصل تھی جنھیں پورے مشرقی حصے کی حمایت حاصل کرنے والی پارٹی سے بہت ہی بری شکست ہوئی تھی۔ اس جنگ کو 1971 کی جنگ کہا جاتا ہے۔ اس جنگ میں آخر مغربی پاکستان کی فوج کو شکست ہوئی۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس جنگ میں ہندستان کی فوجی مداخلت بھی ایک اہم عنصر تھی۔ اسی ہندستانی فوج کے سامنے پاکستان کے لگ بھگ ایک لاکھ فوجیوں اور افسروں نے ہتھیار ڈالے اور جنگی قیدی بنے۔ اس جنگ کے بارے میں طویل عرصے تک صرف ایسی تفصیلات سامنے آتی رہیں جو یک طرفہ ہوتی تھی۔ بنگالی اگر اس جنگ میں، جس کے لیے وہ جد وجہد آزادی کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، اپنی فتح، معربی پاکستانی فوج کی شرمناک شکست اور قربانیاں دینے والے جنگی شہیدوں کے گن گاتے ہیں تو مغربی پاکستانی، جو جنگ کے بعد صرف پاکستانی رہ گئے، اصل اسباب کو چھوڑ کر، ایک ایسی جنگ کی بات کرتے ہیں جس میں ان کی فوج کو مقامی آبادی کی مخالفت کا سامنا تھا اور جس پر انھوں نے کم و بیش قابو پالیا تھا لیکن ہندستان مداخلت کی، جس کا سامنا کرنے کے لیے وہ تیار نہیں تھے، اور انھیں شکست سے دوچار کر دیا۔ ’عورتیں، جنگ اور قیامِ بنگلہ دیش‘ کی مصنفہ یاسمین سائیکیا جنگ کو محض اس طرح نہیں دیکھتیں جیسے اسے ایک قوم کی اجتماعی یادداشت میں محفوظ کیا جاتا ہے۔ وہ اسے ان لوگوں کی نظر سے بھی دیکھتی ہیں جو انفرادی طور پر جنگ میں رونما ہونے والے ہمہ رخی تشدد کا نشانہ بنے، خاص طور پر عورتیں اور اپنا دفاع نہ کر سکنے والے وہ شہری جن کے سیاسی عزائم بھی نہیں ہوتے اور جو قوم پرستی کے نام پر ابھرنے والی اس حیوانیت کا نشانہ بنتے ہیں جس کا کوئی اصول اور ضابطہ نہیں ہوتا۔ یاسمین نے شاید اسی حیوانیت یا یاسمین کے الفاظ میں غیرانسانیت کو دکھانے کے لیے 1971 کی جنگ اور اس کے بعد کے حالات کا انتخاب کیا ہے، جس کے نتیجے میں 1947 کے بعد برصغیر کی دوسری بڑی تقسیم ہوئی اور بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ لیکن یہ کتاب اس تنازع کے چالیس سال آئی ہے اور اس کی تحقیق اور تیاری میں بھی یاسمین کو کئی سال لگے ہیں یعنی اس کی تحقیق انھوں نے اتنے عرصے بعد شروع کی جب بیشتر حقائق کے ثبوت مٹ چکے ہوں گے، بہت سی یادوں کے زخم بھر چکے ہوں گے اور بہت سے لوگ اپنی اذیتوں کو فراموش کرنے میں بھی کامیاب ہو چکے ہوں گے۔ یعنی یہ اس تشدد کے شعلے نہیں ہیں بلکہ اس کی راکھ میں دبی ہوئی اور شاید بجھتی ہوئی چنگاریاں ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یاسمین ایسے لوگوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئیں جن کے بیانات جنگ اور قوم پرستی کے وحشیانہ پن کو بے نقاب کرتے ہیں۔ ان کی اس کتاب سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اس جنگ میں شریک پاکستانی اور ہندستانی ہی نہیں جنگِ آزادی کے بنگالی مجاہد بھی سب سے کمزور، سب سے نہتے اور کسی بھی طرح جنگ کے نتیجے پر اثر انداز نہ ہونے والے گروہ یعنی عورتوں پر ظلم میں دوسروں سے پیچھے نہیں تھے اور انھوں نے بھی ان کمزور شہریوں کی زندگیوں کو جنگ کا میدان ہی سمجھا تھا۔ قومی آزادی یا سماجی و سیاسی برابری یا کچھ اور، جنگ کسی بھی نام پر لڑی جائے، اس میں سب سے زیادہ اذیت یہی گروہ یعنی عورتیں اٹھاتی ہیں اور جنگ کی فتح اور شکستوں کی جتنی تاریخیں لکھی جاتی ہیں ان میں اِس بےبس گروہ کا کہیں کوئی ذکر نہیں آتا۔ جنگوں اور اس طرح کی لڑائیوں کا سب سے بڑا غیر انسانی پہلو یہی ہے کہ ان میں عورتوں کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا۔ یاسمین سائیکیا نے پہلی بار اس سنگین پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے اور مورخوں اور ان کے تصوراتِ تاریخ پر سوال اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جنگ میں اس نوع کے تشدد کی بےشمار سطحیں ہیں اور ہم ان کے بارے بہت ہی کم جانتے ہیں‘۔ اور اس کی وجہ وہ یہ بتاتی ہیں کہ ’بنگلہ دیش اور ہندستان میں صرف آزادی اور فتحمندی کے کامیاب بیانیے بار بار لکھے گئے ہیں اور صرف انھیں ہی جنگ کی تاریخ تصور کیا جاتا ہے‘۔ جب کہ ان کی مطابق ’حقیقت یہ ہے کہ تشدد میں تمام ہی گروپ شریکِ جرم تھے‘۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں مذکورہ تشدد کا نشانہ بننے والی ان عورتوں کے انٹرویو بھی ہیں جو صرف بنگالی نہیں، وہ بھی ہیں، جنھیں بہاری کہا جاتا تھا اور ہے۔ اور یہ انٹرویو یاسمین کے موقف کی بنیاد ہیں۔ یہی بات اس کتاب کو اہم اور مطالعے کے لیے ناگزیر بناتی ہے۔ یاسمین سائیکیا، اریزونا سٹیٹ یونیورسٹی تاریخ کی پروفیسر ہیں۔ وہ اس کے علاوہ بھی کئی کتابوں کی مصنف ہیں۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم ہندستان میں حاصل کی۔
Initially felt a sense of author questioning the importance of liberation for Bangladesh but later in the book was able to gain several different perspectives. The humanist emphasis did throw me off every so often but I can see how it aided the book in terms of neutrality,