Sifaalgar is a story about different Human from different regions. Bushra Saeed very beautifully focused on the characterization. The main theme of this novel revolves around one of the elements of life SIFAAL(In urdu) means Soil. Soil is one of the most important element in the human life.It is one of the basic elements present in Human,Life,Earth and everywhere. Sifaalgar is a story of all the ups and downs that are embedded in Human Psychology,Faith and beliefs due to social,cultural or religious pressure. She depicted the society as a Kumhaar(in urdu) means Potter.This potter is present in different forms,different relation in form of a mother,father,teacher,friend,leader... Sifaalgar is a story of characters belonging to 2 different eras. Both eras are entirely different and Bushra Saeed depicted the plot,the characterization,the scene depiction so wonderfully that one can hardly find any flaw in it. Main Protagonists of Sifaalgar includes Ibraheem,Ahmed(Grant),Parniyaan,Alba Marsello,Umar,Sofia and Hakeem Begum all belongs to different eras have got different priorities about life but they are knitted so wonderfully that one cannot leave the book unread. In short Sifaalgar is a book which actually reduced my thirst for reading a fine piece of Literature after a very very long time.
The book should be translated in English in the first place. It’s for everyone to read. Very few Urdu writers can do such wonders with their pen as Bushra Saeed.
Ahmed (Grant), Sofia, Perniyaan, Umer and last but not the least Hakim Begum, every character was written so deeply that one can easily analyse their psychological, emotional and social differences.
The story is not about any particular religion. It comprises of people from different regions of the world, belonging to two different era. Perverted yet sure of itself, Human nature always gets itself in mess. Almost all the characters of the novel, end up doing so much wrong that they cannot change the course of their actions and yet everyone has their own reasons for their mess.
When one not seeks light from the ONE on his path, and let his deceiving-self and society guide him then they both mould him into a shapeless vessel.
Hakim Begum is now one of my all time favorite characters and alas, one other non-existent character. She did not let anyone rule her being but HIM. And she was the only one in novel turns out to be a true conqueror.
This truly unputdownable read deserves not lesser than 5 stars. Thumbs up!!!
سفال گر وہ کتاب ہے جس کو پڑھنے کے بعد میں بہت وقت تک اس کو سوچتی رہی۔ اس کتاب پر تبصرہ کرنا شاید کسی کے لئے بھی آسان نہیں یا کم از کم میرے لیے ایسا ہی ہے کیونکہ اس میں اتنا کچھ ہے اور شاید ہر پڑھنے والا اس کو ایک الگ تناظر میں دیکھتا ہو، لہٰذا میں بھی بس وہی کچھ لکھ رہی ہوں جس طرح میں نے اس کہانی کو سمجھا، کیونکہ اس پہ تبصرہ کرنا میرے بس سے باہر ہے۔
سفال گر کے معنی ہیں مٹی کے برتن بنانے والا... اور اسی عنوان کے گرد یہ کہانی گھومتی ہے۔ جسطرح ایک سفال گر ایک برتن کو بناتے ہوئے خیال رکھتا ہے کہ اسکو کتنی نرمی سے برتنا ہے، کیسے رنگنا ہے، پانی سے یا سخت ہاتھوں سے کسطرح بچانا ہے کیونکہ ایک زرا سی چُوک اس برتن کی ہیئت بدل کر رکھ سکتی ہے بالکل ویسے ہی مثال انسان کی ہے۔ وہ بھی مٹی سے بنے ایک برتن کی مانند ہے جس کو اس کی تخلیق سے لے کر آخری قدم تک سنبھل کے رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ زمانے کا سرد و گرم اس کی ساخت بدل کر رکھ دیتا ہے۔
ایک بچہ کو بچپن سے ہی جس سانچے میں ڈھالا جائے وہ ڈھل جاتا ہے اور پھر زندگی کے اتار چڑھاؤ اس پر ویسے ہی اثر انداز ہوتے ہیں۔ زمانے کی تلخیاں اس کی رگ و پے میں سرایت کر جائیں تو وہ دوسروں کے لئے بھی زہر خند بن جاتا ہے اور یہی سفال گر زمانہ اگر اس کی گُھٹی میں توکل اور اخلاص کا شہد ملا دے تو وہ دوسروں کے لیے بھی امرت کا کام دیتا ہے۔
سفال گر ایسے ہی زمانے کے تھپیڑوں میں الجھے انسانوں کی کہانی ہے۔ اس کے کردار ہمارے ارد گرد بستے ہیں۔ یہ کہانی جہاں ایک طرف محبت کے نام پر زندگی سے جوجتے ہوئے کرداروں کی ہے وہیں دین کے نام پر دوسروں سے جینے کا حق چھیننے والوں کی بھی ہے۔
یہ کہانی ہے شہرت کہ آگ میں سب کچھ تباہ کردینے والو کی اور تہی دامن ہوتے ہوئے بھی رب پر توکل کرنے والوں کی۔ یہ کہانی ہے حالات کی رو میں بہہ کر بھٹک جانے والوں کی اور خطا کر کے سمبھلنے والوں کی۔ الغرض یہ کہیں نہ کہیں میری، آپ کی اور ہمارے گرد بسنے والوں کی زندگی کی داستان ہے۔
اس کا ہر کردار اپنی ذات میں ایک الگ کہانی لئے ہوئے ہے مگر کہیں نہ کہیں دوسروں کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے اور ان کرداروں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر جسطرح پیش کیاگیا ہے وہ قابلِ ستائش ہے۔ دوسری اہم چیز اس کی جملہ سازی ہے جس پر مصنف کو دسترس حاصل ہے جو پڑھنے والے کو جکڑ کے رکھتی ہے۔
یہ کہانی آپ کو ہر کردار کے درد کو خود محسوس کرنے پر مجبور کر دیتی ہے اور آخری صفحہ تک آپ کو متجسس رکھتی ہے۔ یہ آپ کو رلائے گی بھی اور شکر کرنے پر بھی اکسائے گی۔
میری رائے ہے کہ کم از کم ایک مرتبہ اس کتاب کو ضرور پڑھیں کیونکہ یقیناً دوبارہ پڑھنے کو آپ خود مجبور ہو جائیں گے۔
آخر میں پسندیدہ اقتباس شیئر کرنے کا سوچا تھا لیکن یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا کہ زیادہ من پسند کونسا ہے۔
- I got this as part of a book box and while I cannot comprehend how it matches the theme of the box, I still enjoyed reading it. - Urdu novels always confuse in the beginning, there are multiple POVs that switch between each other and you can't make heads or tails of the story, but I like the way Bushra Saeed did it. Her way was less overwhelming and more meaningful. - There are two main couples in the story. The love story of one was weird (the falling-in-love part was all but a whirlwind) but painful, and the love story of the latter (which lasted a couple of pages only) was predictable. - My favorite character in the story was Hakeem Begum. She had such wisdom and kindness in her and reading her lines in Punjabi made it all the more delightful.
This is a heavy book and not something you should pick up if you're in the mood for a bit of light reading.
Safalgar- Story of Mud. We all belong to this. Deep & thought provoking concept. Dialogues, character building, detailed description of each and every scene, explanation of all things including the minor details made it more Wonderful <3 I must say that this novel is a result of great hard work and good research (Y)
The title grab your attention so is the book. "Sifaalgar" is something exceptional. one of the excellent book and great contribution to urdu fiction. 5 stars are not enough for this.
سفال گر!!! اس کتاب کو ادبی حلقوں میں ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے پایا۔۔۔۔ ساتھ ہی یہ بھی سنا کہ یہ دل کو بوجھل کردینے والی کہانی ہے۔ میں ایسی کہانیوں سے کتراتی ہوں سو باوجود خواہش کے پڑھنے کی ہمت نا ہوئی۔ پھر یہ کتاب خود مجھ تک پہنچ گئی، تحفے کی صورت۔ قریبا چار برس تک میرے بک شیلف پہ انتظار کرتی رہی۔۔۔۔ پھر ۲۰۲۵ کے موسم گرما میں کچھ فرصت میسر آئی تو ہمت کر کے اٹھایا۔ چند صفحے۔۔۔ کئی دن کے وقفے اور پھر چند صفحے بات قریباً دو ہفتوں تک چند صفحات سے آگے نا بڑھی۔ بالاخر عید سے ایک دن پہلے سہی طور پہ پڑھنا شروع کیا اور پھر اگلے دن (بقر عید ۲۰۲۵) ختم کر کے ہی دم لیا! لیکن جس خوف نے مجھے اس کتاب سے دور رکھا کیا وہ حق بجانب تھا؟ نہیں! کہانی تلخ تھی ۲۷۰ صفحات تک تو حقیقتاً انتہائی ترش! لیکن آخر کے ۱۰۰ صفحات نے ہر تلخی کو زائل کردیا۔ خدا کا ہونا اور خدا کی بندے سے محبت، اس موضوع کو لکھاری نے انتہائی خوبصورتی سے برتا ہے۔ یہ کہانی پڑھنا ذرا صبر آزما تھا لیکن جو پھل آخری صفحات کی صورت ملا اس نے ابتدائی صفحات کے بوجھل پن کو زائل کر دیا۔ احساس، محبت،ایمان اور توکل کو اس طور ان صفحات میں سانس لیتے پایا کہ حلق نمکین اور آنکھیں نم ہونے کے باوجود لب مسکراتے رہے۔ خدا کا ہونا کتنا پیارا ہے۔ کل حاصل شاید بلکہ یقینا یہی تھا بس۔ حکیم اماں کا کردار ہمیشہ ساتھ رہے گا!
The language was unnecessarily difficult. The book had potential but instead of conveying its message simply it was trying too hard to impress with embellished vocabulary: making the story hard to get into, the narrative incomprehensible and leaving the characters out of the spotlight.
فیروزسنز کی اس چھوٹی سی برانچ میں آ کر مجھے شدید مایوسی ہو رہی تھی جن کتابوں کی لسٹ میں بنا کر لے گئ تھی ان میں سے وہاں ایک بھی نہیں تھی ،آئیندہ مین سٹور جاوں گی مایوسی سے سوچتے ہوئے میری نظر شیلف میں پڑی اس کتاب پر پڑی جس کے سرورق پہ درج تھا سفال گر،بشری سعید میں نے خاموشی سے کتاب کو شیلف سے باہر کھینچا گویا یہاں آنا رائیگاں نہیں گیا تھا۔ میں نے یہ کتاب کیوں اٹھائی شاید اس لیے کہ عمر سعید، بشری سعید کے نام سے لکھتے تھے یا اس لیے کہ عمر سعید سے میرا تعارف ان کی موت کے بعد ہوا یا اس لیے کہ ان کا تعلق اوکاڑہ سے تھا یا پھر اس لیے کہ اس کتاب کے کافی چرچے سن رکھے تھے مگر اس کو پڑھ نہیں سکی تھی سو اب یہ حق ادا کرنا تھا۔ کتاب کے بارے میں کیا رائے دوں۔۔۔ کتاب سے یہ اقتباس شیئر کر رہی ہوں "میرا یقین آدھا ادھورا کیوں ہے؟ وسوسوں سے ڈسا ہوا، راہ بھٹکا ہوا، سوتا جاگتا، میں نظر کے فریب میں کیوں آ جاتا ہوں؟ نظر آسمان تک دیکھ سکتی ہے، لیکن آسمان پر کائنات ختم نہیں ہوتی، کوئی حد ہےتو میری نظر کی ہے۔ کائنات کی کوئی حد نہیں، جو میری آنکھ سے اوجھل ہے وہ غیر موجود نہیں اور جو مجھے نظر آتا ہے وہ کُل نہیں۔ جہاں اوجھل اور ظاہر ملتے ہیں، جہاں وجود اور عدم وجود میں دوئی مٹتی ہے، جہاں کل اور جز ہم آغوش ہوتے ہیں، اس سرحد کو پار کرنے سے ہی بات بنتی ہے، بندھن وہیں ٹوٹتے ہیں، آزادی وہیں ہے۔"
What a great book I am very happy and grateful to get my hands on it. It is a masterpiece. Message of the novel is very well portrayed. It has kept me hooked to it till the end.It has a satisfying ending.
سفال گھر ایک شاندار ناول ہے، یہ کہانی ہے محبت اور پروفیشن میں سے کسی ایک کو انتخاب کرنے کی! احمد ابراہیم کو یا ہالی ووڈ کا ایڈم گرانٹ بننا تھا یا پرنیاں کا گرانٹ، وہ گو مگو میں رہا اور سوچا کے فلحال ہالی ووڈ میں نام بنا لوں پھر پرنیاں کہیں بھاگھی تو نہیں جا رہی نہ،،، بس ایک یہی غلطی تھی جس کا خمیازہ وہ ساری زندگی بھگتا رہا، نہ ہی وہ ہالی ووڈ سٹار بن سکا اور نہ ہی پرنیاں کو پا سکا،،، نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے ناول ایک انتہائی منفرد انداز میں آگے بڑھتا ہے اور ایک لمحے کے لیے بھی قاری کو بور نہیں ہونے دیتا، دو مختلف کہانیاں ایک ہی وقت میں چل رہی ہوتی ہیں، آگے جا کر وہ ایک مرکزی کہانی بن کر ایک دم سے سامنے آ جاتی ہے، یہ اسلوب میں نے جاسوسی ناولوں کے علاوہ خال ہی دیکھا ہے۔ ایک ایک کردار پر ، اسکے حلیے، بود و باش اور الفاظ کے انتخاب پر بہت زیادہ محنت کی گئی ہے۔ایک سے بڑھ کر ایک، پرنیاں ، البا،صوفیہ، ابرائیم، ایڈم گرانٹ،آئزک اور اسکی بیوی اور اسکا گونگا بیٹا، عمر اور۔۔۔۔ حکیم بیگم جو کے ایک اناڑی کمہارنی ہے، سب سے زیادہ دلچسب کردار ہے، سیدھی سادھی، سچی،بے لوث، خوش اخلاق، مہمان نواز اور غمزدہ، رب پر بے پناہ یقین رکھنے والی دیہاتی عورت جس کے پنچابی زبان میں ادا کیے گئے الفاظ سیدھے قاری کے دل میں جاگز یں ہوتے ہیں۔ (4،5)
Safal Gar By Bushra Saeed ” اپنی نظر میں ذلیل ہونے سے بڑھ کر دنیا میں کوئی ذلت نہیں ہے کیونکہ خود سے چھپنے کیلئے کوئی اوٹ نہیں ہوتی ، کوئی پردہ نہیں ہوتا ۔ سب کچھ ایسا صاف ہوتا ہے جیسے کانچ کی شفاف دیوار کے ایک طرف بیٹھ کر دوسری طرف کا منظر دیکھ رہے ہوں “
🌟 اس کتاب کو کئی زاویوں سے پرکھنے کی ضرورت ہے اگر ہم اس کو فقط کچھ کرداروں کی کہانیاں سمجھ کر ہی پڑھیں گے تو میرے نزدیک ہم اسکا حق ادا نہیں کر سکیں گے
🌟 سفال گر ایک ایسی کتاب ہے جس میں ایک لمحے میں ہم گاؤں کی کچے مکانوں میں ہوتے ہیں اور دوسرے ہی لمحے امریکہ کے کسی ریستوران میں ۔
🌟 اس میں ہر کردار کو کسی نا کسی سبق کے تحت نقش کیا گیا ہے ہر کردار اپنے لحاظ سے پڑھنے والے کو کچھ نا کچھ سکھاتا ہے پھر چاہے وہ Europe or America کی زندگی ہو یا اپنے والدین سے بغاوت کرنا
🌟 اس میں مین کردار تو ، ابرہیم ، احمد ، پرنیاں ، عمر ،البا اور صوفیہ کے ہیں لیکن بہت سے ایسے کردار ہیں جو صبر کا اصلی مطلب بتاتے ہیں جیسے " داؤد اور حکیم بیگم "
🌟 کہانی امریکہ کی سڑک سے شروع ہوتی ہیں پھر عمر کے ساتھ گاؤں میں پکڈنڈیوں سے چلتی ہوئی واپس امریکہ میں آ پہنچتی ہے اسی طرح پھر لاہور سے ہوکر امریکہ سے وابستہ ہوجاتی ہے ۔۔۔ شاید اس طویل سفر کی وجہ سے ہی کہانی منفرد بنتی ہے
🌟 میں اگر اس کتاب کو پڑھنے کا مشورہ دوں گا تو وہ اس لیے کہ اس میں West کی زندگی ، Hollywood Industry کی اصلیت ، دعا کی طاقت ، والدین سے بغاوت اور طویل صبر کی ایسی مثال ملتی ہے جو شاید کسی اور کتاب میں نہ ملے
🌟 میرا ماننا ہے کہ Review وہی ہوتا ہے جس میں Spoiler نہ ہو اس لیے شاید اتنا کافی ہے Main Topic , Characters Or Places تو Highlight کردی ہیں یہ ناول آپ کو ضرور پڑھنا چاہیے بس اتنا ہی احسن افتخار
ہم مٹی کے برتن ہیں۔ زمانہ سفال گر ہے۔ یہ ہمیں بناتا ہے، بگاڑتا ہے، پھر درست کرتا ہے۔ کبھی ہمیں سخت ہاتھوں سے پکڑ کر توڑ مروڑ کے رکھ دیتا ہے تو کبھی پھولوں کی طرح ہمارے ناز اٹھاتا ہے۔ لیکن ایک بات ضرور ہے کہ زمانے کے سردوگرم سے گزرنے کے بعد ہر انسان قدرت کا ایک شاہکار بن جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اپنے وجود میں قدرت کی شاہکاری دیکھنے والی آنکھ ہر کسی کے پاس نہیں ہوتی۔ یہ آنکھ صرف اس کو عطا کی جاتی ہے جو زمانے کے توڑنے اور جوڑنے کے عمل سے گزرتے ہوئے اس سفال گر پر ہر حال میں بھروسہ رکھتا ہے۔ ٹوٹنے پر امید کا دامن نہیں چھوڑتا اور جڑ جانے پر اسے بھول نہیں جاتا۔
عرصے کے بعد ایک شاہکار پڑھنے کو ملا ہے، کہانی کی سطروں سے کردار کی بناوٹ سے منظر کی تصویر کشی، سب بے انتہا کمال۔ 'میرا یقین' اس کتاب کو پڑھنے کے بعد رات کو سونے سے پہلے خود سے کیا جانے والا سوال بدل گیا۔ 'میں نے اللہ کی رضا کے لیے آج کچھ کیا یا نہیں؟ ایک بھی کام؟ ایک اچھی سوچ؟ کچھ بھی؟'
سفال گر وہ کتاب ہے جس کو پڑھنے کے بعد میں بہت وقت تک اس کو سوچتی رہی۔ اس کتاب پر تبصرہ کرنا شاید کسی کے لئے بھی آسان نہیں یا کم از کم میرے لیے ایسا ہی ہے کیونکہ اس میں اتنا کچھ ہے اور شاید ہر پڑھنے والا اس کو ایک الگ تناظر میں دیکھتا ہو، لہٰذا میں بھی بس وہی کچھ لکھ رہی ہوں جس طرح میں نے اس کہانی کو سمجھا، کیونکہ اس پہ تبصرہ کرنا میرے بس سے باہر ہے۔
سفال گر کے معنی ہیں مٹی کے برتن بنانے والا... اور اسی عنوان کے گرد یہ کہانی گھومتی ہے۔ جسطرح ایک سفال گر ایک برتن کو بناتے ہوئے خیال رکھتا ہے کہ اسکو کتنی نرمی سے برتنا ہے، کیسے رنگنا ہے، پانی سے یا سخت ہاتھوں سے کسطرح بچانا ہے کیونکہ ایک زرا سی چُوک اس برتن کی ہیئت بدل کر رکھ سکتی ہے بالکل ویسے ہی مثال انسان کی ہے۔ وہ بھی مٹی سے بنے ایک برتن کی مانند ہے جس کو اس کی تخلیق سے لے کر آخری قدم تک سنبھل کے رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ زمانے کا سرد و گرم اس کی ساخت بدل کر رکھ دیتا ہے۔
ایک بچہ کو بچپن سے ہی جس سانچے میں ڈھالا جائے وہ ڈھل جاتا ہے اور پھر زندگی کے اتار چڑھاؤ اس پر ویسے ہی اثر انداز ہوتے ہیں۔ زمانے کی تلخیاں اس کی رگ و پے میں سرایت کر جائیں تو وہ دوسروں کے لئے بھی زہر خند بن جاتا ہے اور یہی سفال گر زمانہ اگر اس کی گُھٹی میں توکل اور اخلاص کا شہد ملا دے تو وہ دوسروں کے لیے بھی امرت کا کام دیتا ہے۔
سفال گر ایسے ہی زمانے کے تھپیڑوں میں الجھے انسانوں کی کہانی ہے۔ اس کے کردار ہمارے ارد گرد بستے ہیں۔ یہ کہانی جہاں ایک طرف محبت کے نام پر زندگی سے جوجتے ہوئے کرداروں کی ہے وہیں دین کے نام پر دوسروں سے جینے کا حق چھیننے والوں کی بھی ہے۔
یہ کہانی ہے شہرت کہ آگ میں سب کچھ تباہ کردینے والو کی اور تہی دامن ہوتے ہوئے بھی رب پر توکل کرنے والوں کی۔ یہ کہانی ہے حالات کی رو میں بہہ کر بھٹک جانے والوں کی اور خطا کر کے سمبھلنے والوں کی۔ الغرض یہ کہیں نہ کہیں میری، آپ کی اور ہمارے گرد بسنے والوں کی زندگی کی داستان ہے۔
اس کا ہر کردار اپنی ذات میں ایک الگ کہانی لئے ہوئے ہے مگر کہیں نہ کہیں دوسروں کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے اور ان کرداروں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر جسطرح پیش کیاگیا ہے وہ قابلِ ستائش ہے۔ دوسری اہم چیز اس کی جملہ سازی ہے جس پر مصنف کو دسترس حاصل ہے جو پڑھنے والے کو جکڑ کے رکھتی ہے۔
یہ کہانی آپ کو ہر کردار کے درد کو خود محسوس کرنے پر مجبور کر دیتی ہے اور آخری صفحہ تک آپ کو متجسس رکھتی ہے۔ یہ آپ کو رلائے گی بھی اور شکر کرنے پر بھی اکسائے گی۔
میری رائے ہے کہ کم از کم ایک مرتبہ اس کتاب کو ضرور پڑھیں کیونکہ یقیناً دوبارہ پڑھنے کو آپ خود مجبور ہو جائیں گے۔
.... بشرئ سعید کے ناول سفال گر کی بات کی جائے تو اس کا نام ہی ناول پڑھنے کی طرف توجہ مبذول کروانے کی وجہ بنتا ہے "سفال" یعنی مٹی اور "گر" یعنی کسی چیز کو گھڑ کر مختلف شکلیں دینے والے کو کہتے ہیں اس ناول میں دکھایا گیا ہے کہ انسان جو بلاشبہ مٹی سے بنا ہے،وہ کس طرح مختلف حالات میں، مختلف لوگوں کی وجہ سے مختلف اوقات میں کس طرح مختلف سانچوں میں ڈھلتا رہتا کہانی کا ہر کردار دوسرے سے الگ ہے مگر ان کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ایک دوسرے کے بغیر مکمل نظر بھی نہیں آتے کہانی ہے پرنیاں، احمد، البا، عمر، صوفیہ اور حکیم بیگم کی پرنیاں ایک خالصتاً مذہبی عیسائی لڑکی ایک مسلمان لڑکے احمد کی محبت میں مبتلا ہوتی ہے، اس مقام پر مجھے لگا آخر میں یہ لڑکی مسلمان ہونے والی ہے پکا، کیونکہ عموماً ایسے ہی دکھایا جاتا ہے، غیر مسلم، مسلم ہوگیا. پر لکھاری نے بات کو اتنے عمدہ انداز میں سمیٹا کہ میرے اندازے غلط ثابت ہوئے اچھا لگا عمر جس کے ماں باپ اسے اسے چھوڑ چکے تھے حکیم بیگم کے ہاتھوں پروان چڑھا جو ساری زندگی کوشش کے باوجود مٹی کا اچھا برتن نا بنا سکی، پر جس نے عمر کو ایک اچھا انسان بنا دیا صوفیہ جسے اپنے ماں باپ سے نفرت تھی، جو اپنے ماں باپ کی وجہ سے اللہ سے متنفر ہوگئی اور ہر وہ کام کرنا چاہتی تھی جو کرنے سے اللہ منع کرتے ہیں، کیوں کیونکہ گرانٹ نامی ایک شخص جو اس کی باپ کی جگہ تھا ساری زندگی اپنی محرمیوں کا بدلا اسے ایذا دے کر نکالتا رہا یہ جتا کر کہ وہ ایک بد کردار ماں کی بیٹی ہے، بدکردار ہی ہوگی اور یہ ہی وی سلوک ہے جو اس کے ساتھ برتا جانا چاہیے، اللہ بھی اس کو اسی کا مستحق جانے گے البا جو بدکردار تھی پر محبت کر بیٹھی،پھر اسے اس دنیا کا کوئی دوسرا انسان نظر نہیں آتا تھا، اپنی اولاد بھی نہیں، کہانی شروع میں بہت سست روی سے چلتی، لگتا ہے اس مکمل نہیں کر سکے گے، مگر قدم بہ قدم آپ اس میں محو ہوتے جاتے ہیں، کبھی آپ خود کو کرداروں کے ساتھ روتا محسوس کرے گے، کبھی غصے سے جھنجھلا جائے گے منفرد موضوع پر لکھی گئی منفرد کتاب ہے، پڑھیں گے تو وقت ضائع نہیں کرے گے
" سفال گر" کے معنی ہیں مٹی سے چیزیں بنانے والا یعنی کمہار۔ مصنفہ معاشرے کو سفال گر سے تشبیہہ دیتی ہیں۔ جیسے ایک سفال گر یا کمہار برتن کو ایک سانچے میں ڈھال کر ایک مخصوص شکل دیتا ہے اسی طرح معاشرے کی بھٹی سے سلگ کر مختلف فطرت و انداز رکھنے والے انسان وجود پاتے ہیں۔ معاشرہ انسان کی شخصیت کو مختلف سانچوں میں ڈھال کر حالات و جذبات سے پروان چڑھاتے ہیں ۔ کچھ سفال گر اپنے کام میں ماہر ہوتے ہیں اور کچھ اناڑی ، بس ہر کوئی اپنی اہلیت کے مطابق ہی جوہر تراشے گا ، چاہے اسے ہیرا بنا دے چاہے کوئلہ۔ یہ کہانی ابتداء میں تو الجھاۓ گی لیکن جیسے جیسے آگے بڑھتے جائیں ہم آہنگ ہو جائیں گے ۔ یہ کہانی ہے مختلف خطوں کی، مختلف حالات میں پروان چڑھنے والوں کی ۔ یہ کہانی ہے خوابوں کی ، محبت اور نفرت کی ، توکل اور جذبات کی ، اور کیسے جذبات میں آکر کیا جانے والا فیصلہ عمر بھر کی پھانس بن گیا ، وہی فیصلہ حیات کے دکھوں کا مرکز بنا ۔کیسے خوابوں کی تعبیر کے لیے ہر حد پھلانگ جانا تباہی کے دہانے پر لے جاتا ہے، جہاں نہ آگے جایا جا سکتا ہے نہ پیچھے۔ خواب تب ایڑھی کا کانٹا بنتے ہیں جب ضد بنا لیے جائیں ۔ اپنے بچوں کو دین سکھائیں نہ کہ زبردستی اُن پر دین تھوپیں۔ جب ہم پیار سے سکھانے سمجھانے کی بجاۓ زبردستی مار پیٹ سے سکھاتے ہیں تو پھر اس کے نتائج باغیانہ ہوتے ہیں۔ ناول کا پلاٹ ، منظر نگاری اور طرزِ تحریر شاندار ہے جو قاری کے ذوقِ مطالعہ کی تسکین کرتے ہیں ۔ ایک بات جو اس ناول کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ناول بشریٰ سعید کا نہیں بلکہ اُن کے بھائی عمر سعید کا ہے لیکن ڈائجسٹ کے اصول کے مطابق اُن کے نام سے شائع نہیں ہوسکتا تھا اس لیے انہوں نے اپنی بہن بشریٰ سعید کے نام سے ڈائجسٹ میں شائع کروایا ۔ بہرحال اگر یہ بات حقیقت پر مبنی ہے تو جب ناول کتابی صورت میں شائع کیا گیا ہے تو اصل مصنف کا نام لکھا جانا چاہئے ۔ قطعاً یوں دوسروں کا حق نہیں مارنا چاہئے ۔ کسی بھی لکھاری کو اِس حق سے محروم نہیں کرنا چاہیے کہ اُس کی تحریر اُس کے نام سے پہچانی جاۓ اور تحریر اپنے تخلیق کار کے نام سے۔ لائبہ احمد
𝗥𝗲𝘃𝗶𝗲𝘄 𝗼𝗳 𝘁𝗵𝗲 𝗻𝗼𝘃𝗲𝗹 "𝗦𝗮𝗳𝗮𝗹 𝗴𝗮𝗿" 𝗯𝘆 "𝗕𝘂𝘀𝗵𝗿𝗮 𝗦𝗮𝗲𝗲𝗱" 𝗥𝗮𝘁𝗶𝗻𝗴: 𝟰.𝟱/𝟱⭐⭐⭐⭐ سفال گر یہ ایک خوبصورت ناول ہے جس میں انسانوں کی داستان ہے، انسانی معاشروں کے بناؤں اور بگاڑ کی کہانی ہے، انسانی زندگیوں کے چڑھاؤں اور اتار کا بیان ہے۔ سفال کا مطلب "مٹی" اور گر کا مطلب "کسی جیز کو اس کی شکل دینا جیسے مٹی کے برتن کو بنانا"۔
اس ناول کی کہانی بہت سے کرداروں کو ملا کر بنی ہے لیکن دو کردار بہت اہم ہے۔ جن کو قسمت نے ملایا ان دو کرداروں کے بغیر یہ کہانی مکمل نہیں ہو سکتی تھی۔ کرداروں کے بارے میں:
یہ کہانی ابرہیم سے شروع ہوئی اس کا بیٹا احمد ابرہیم تھا احمد: اس کہانی کا ضروری حصہ اس کا دوسرا نام (ایڈم گرانٹ) ہے کیونکہ اس کو انگریزی فلموں میں کام کرنے کا بہت شوق تھا شوق تو نہیں کہہ سکتے ایک طرح کا جنون تھا تو وہ ایڈم گرانٹ کو بہت پسند کرتا تھا اس لیے اس نے اپنا یہی نام رکھا تھا۔ احمد تھا بھی بہت خوبصورت اور اس کا مذہب اسلام تھا لیکن اس کے نام کی وجہ سےاس کو سب کرسچن سمجھتے تھے۔ پرنیاں: ایک کرسچن لڑکی تھی اور بہت خوبصورت تھی اس کو احمد یعنی (ایڈم گرانٹ) سے بہت محبت ہوگئی تھی اور وہ اس کے بغیر رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ داؤد: یہ پرنیاں کا چچا زاد بھائی تھا جو پیشے سے ڈاکٹر تھا اور پرنیاں کو بہت پسند کرتا تھا۔
اس ناول میں اور بھی کردار ہے لیکن میں سب کے بارےمیں نہیں بتاؤں گی لیکن وہ سب کردار ایڈم گرانٹ اور پرنیاں سے جڑے ہوئے ہیں ان کے بغیر یہ کہانی نامکمل ہیں لیکن سب سے اچھا کردار جو مجھے لگا وہ حکیم بیگم کا تھا۔ شروع میں سمجھنے میں تھوڑا مسئلہ ہوا لیکن پھر سمجھ آگئی. بشریٰ سعید نے یہ ناول بہت خوبصورتی سے لکھا ہے اور اس کو بہت اچھے سے بیان کیا ہے۔
سفال گر یہ ایک خوبصورت ناول ہے جس میں انسانوں کی داستان ہے، انسانی معاشروں کے بناؤں اور بگاڑ کی کہانی ہے، انسانی زندگیوں کے چڑھاؤں اور اتار کا بیان ہے۔ سفال کا مطلب "مٹی" اور گر کا مطلب "کسی جیز کو اس کی شکل دینا جیسے مٹی کے برتن کو بنانا"۔
اس ناول کی کہانی بہت سے کرداروں کو ملا کر بنی ہے لیکن دو کردار بہت اہم ہے۔ جن کو قسمت نے ملایا ان دو کرداروں کے بغیر یہ کہانی مکمل نہیں ہو سکتی تھی۔ کرداروں کے بارے میں:
یہ کہانی ابرہیم سے شروع ہوئی اس کا بیٹا احمد ابرہیم تھا احمد: اس کہانی کا ضروری حصہ اس کا دوسرا نام (ایڈم گرانٹ) ہے کیونکہ اس کو انگریزی فلموں میں کام کرنے کا بہت شوق تھا شوق تو نہیں کہہ سکتے ایک طرح کا جنون تھا تو وہ ایڈم گرانٹ کو بہت پسند کرتا تھا اس لیے اس نے اپنا یہی نام رکھا تھا۔ احمد تھا بھی بہت خوبصورت اور اس کا مذہب اسلام تھا لیکن اس کے نام کی وجہ سےاس کو سب کرسچن سمجھتے تھے۔ پرنیاں: ایک کرسچن لڑکی تھی اور بہت خوبصورت تھی اس کو احمد یعنی (ایڈم گرانٹ) سے بہت محبت ہوگئی تھی اور وہ اس کے بغیر رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ داؤد: یہ پرنیاں کا چچا زاد بھائی تھا جو پیشے سے ڈاکٹر تھا اور پرنیاں کو بہت پسند کرتا تھا۔
اس ناول میں اور بھی کردار ہے لیکن میں سب کے بارےمیں نہیں بتاؤں گی لیکن وہ سب کردار ایڈم گرانٹ اور پرنیاں سے جڑے ہوئے ہیں ان کے بغیر یہ کہانی نامکمل ہیں لیکن سب سے اچھا کردار جو مجھے لگا وہ حکیم بیگم کا تھا۔ شروع میں سمجھنے میں تھوڑا مسئلہ ہوا لیکن پھر سمجھ آگئی. بشریٰ سعید نے یہ ناول بہت خوبصورتی سے لکھا ہے اور اس کو بہت اچھے سے بیان کیا ہے۔
🏷️یہ ایک Then and now سٹوری ہے جو ماضی اور حال کو ساتھ ساتھ لے کر چلتی ہے."سفال گر" ایک مرکب ہے "سفال" یعنی مٹی اور" گر" یعنی چیز کو گھڑ کر مختلف شکلیں دینے والے کو کہتے ہیں یہ ناول انسان کے بناؤ اور بگاڑ کی داستان ہے جس میں کردار شفافیت سے بگاڑ اور بگاڑ سے شفافیت کا سفر طے کرتے ہیں 🏷️اس ناول میں جس کردار کو سراہا جاتا ہے وہ نہ تو پروٹوگونسٹ ہے اور نہ ہی انٹاگونسٹ وہ معاشرے کے انتہائی پست طبقے کی ایک کمہارن ہیں جس نے ایک ایسی عورت کو اپنے گھر میں پناہ دی جو اس کی برسوں سے کمائی ہوئی عزت کو ذلت میں سمیٹنے کا باعث بنتی ہے۔ 🏷️وہ ایک ایسی کمہارن تھی جس کے ہاتھوں میں ہنر نہیں تھا لیکن نہ کبھی مایوسی ہوی اور نہ ہی اس نے کوشش ترک کی اور نہ ہی اللہ سے کبھی شکوہ کیا۔ 🏷️کوئی الفاظ اتنی دیر تک کسی کے ذہن میں محو نہیں رہ سکتے جتنے سفال گر کے لکھاری کے۔ میں جذباتی ہو رہی ہوں حالانکہ آج کل ہم پڑھ رہے ہیں کہ ہمیں کسی بھی ٹیکسٹ کو ایموشنلی، فزیکلی، ہسٹوریکلی ہٹ کیے بغیر پڑھنا چاہیے لیکن شاید یہ سرا سر جھوٹ پر مبنی ہے ایک سچا قاری اپنے جذبات سے روح گردانی نہیں کر سکتا وہ پورے انہماک سے اس کتاب کو پڑتا ہے تو یہ ایک نا ممکن سی بات ہے کی اس سے انسیت محسوس ہو۔ 🏷️عام ناولوں کی بانسبت اس ناول میں بہت سے ایسے موضوعات کو قلم بند کیا گیا ہے جو کسی دوسری کتاب میں پڑھنے کو نہیں ملتے جیسے کہ Necrophilia,Existentialism۔اس کے علاؤہ اور بھی بہت سے سنگین موضوعات ہیں
Keeping this one in your bookshelf for 4 years as an “unread” book is definitely an unfair treatment.
Sifalgar- ek bohut munfarid kitaab hai. Munfarid sai zyada zaalim. 90% of the book is based in USA revolving around non muslim characters. I have not read something like this until now. It has something which is rare to find in Urdu language. I left this is in between and read Rapunzel and Siyah hashia. But then I picked this up once again. Adam grant aur perniya ki muhabat ki anokhi kahani mein Alba ka kirdar.
Hakeem begum ka chittaanou jesa mazboot tawakul. Sofia ka dardnaak bachpan aur phr umer ka uski zindagi mein aana- my personal favourite.
Aur sabse khoobsurat baat yai kai ye novel ek eham pehlou par roshni daalta hai jesay humaray barray bhi aksar humay bachpan mein khuda sai mutarif saza ka hawala de kar karatay hai. Mujhy khud hamesha shikwa raha apnay barrou sai jab mein nai khud Allah sai rujoo kiya kai humay bachpan mein Allah sai muhabat kyun nhi sikhayi gayi? Ye kyu nhi bataya gaya humaray rab ki rehmat uskay gussah pr ghalib hai.
I won’t say that its comforting to read, but I would say that it’s a must read. However sometimes the vocabulary used to describe scenes was difficult to comprehend.
سفال گر وہ کتاب ہے جو میں نے دو سال پہلے دو تین ماہ کے وقفے سے تین دفعہ شروع کی۔ لیکن دو سین پڑھ کر بند کر دی۔ اب میں نے یہ ناول مکمل کیا ہے تو وجہ سمجھ آئی کہ دو سال پہلےنہ پڑھنے میں کیا مصلحت تھی۔سفال گر کا مطلب ہی ہے کہ مٹی کے برتن بنانے والا۔ بناتے ہوئے ذرا سی بھی غلطی اسے کسی اور شکل میں ڈھال دے گی ۔ اور یہی تو ہم ہیں۔ مٹی ۔ذرا سی غلطی یا چوک ہمیں کسی دوسری شکل میں ڈھال دیتی ہے۔ دوسری چیز جو کسی نہ کسی شکل میں میرے اوپر بھی اثر انداز ہوئی ہے وہ دعا کا پختہ یقین ہے ۔جب حکیم بیگم نے اپنی بیٹی کیلئے دعا مانگی ۔وہ ہر شک سے پاک تھی۔ عمر نے جب صوفیہ کیلئے دعا مانگی وہ ہر شک سے پاک تھی۔ ہماری دعا وقت پر قبول ہو نہ ہو اس میں یقین ہو نا چاہیے ۔ سفال گر جیسی عمدہ انداز میں لکھی گئی کتاب شاید ہی میں نے پڑھی ہو۔ اور سچ میں مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے کہ دو سال پہلے تھوڑی سی پڑھ کر چھوڑ دی۔ یہ کتاب شاید مجھے ابھی پڑھنی تھی۔ لکھے گئے الفاظ نے اس طرح متاثر کیا مجھے شاید دو سال پہلے اس طرح نہ کرتے۔ This one is actually most underrated novel.
Revisiting this as an adult and it still holds up. This book with all its wonders and flaws has made me feel so deeply. I have read better things in my life but no other Urdu novel has come close to making me feel such a wide variety of emotions. The Character work of this novel; Bushra Saeed has done a spectacular job. Most of them have grey morality which is very rare in Urdu novels. And the author's voice although always clear in its message never feels too preachy. Ahmed/Grant was such a complex character I hated him at times but he really was the one who made this story what it is . Hakeem bibi was everyone's favorite. And Umer and Shophia (although a little predictable) I enjoyed a lot. Couldn't stand Pernia for the most part but she has been through enough by the end of it. The writing was a bit too flowery at times for my liking but for the most part dialogue was very natural.
Overall a very heavy and at times devastatingly beautiful read that would leave you emotional.
First of all the name is so different that it attracted me very much. . The things I don't liked in the book: - Unnecessary descriptions like the story of Ibrahim. Bushra saeed covered 3 generations in the book and in my opinion telling the whole story of Ibrahim was just to increase the number of pages. Except for the death of Ibrahim, nothing else was related to the next story. - The urdu used was somewhat tough, may be I'm not too good at hard urdu words. There were many words I could not understand. - Ahmed ne Parniyan ko dhundny ki koshish kyun nahin ki jitni usy krni chahiye thi. He was a weak man, he chose career over his family. I hate him for this😭
Things I liked in the book: - No conversion from one religion to other. In most of the books we read of such kind, almost every writer tries to ends the novel by converting a non Muslim to Islam. The writer's objective was not to convert someone but was quite deeper. -The character building was great, every character was unique in it's own. - It was perfectly paced, nothing was dragged too much - The suspense was built from the start. - even though the vocabulary was hard, the plus point was I learnt many new words from it. . Apart from these, a reader need to read almost 100 of 400 pages to get what the story is. It's hard to start but as you read it becomes so much interesting. Overall I loved the book.
واہ ! مصنف نے تو یہاں لگی لپٹی رکھے بغیر جو ہے جیسا ہے کی بنیاد پر معاشروں کے کچے چٹھے ہی کھول دیئے ۔ زبان و بیان کو ثقیل رکھنے کی کوشش کی گئی ہے پر کہانی آسانی سے سمجھ آجانے والی ہے ـ مرکزی کردار احمد ابراہیم / ایڈم گرانٹ جسکی پیدائش کے دن سے ہی اس کی نحوست کا کھلا اعلان ہوگیا تھا۔ کہانی زیادہ تر اسی ایک شخص کے گرد گھومتی ہے اور باقی سبھی کردار اسکے مقابلے میں ثانوی سے لگے۔ مجھے عموماً فینٹسی اور غیر حقیقی کہانیاں زیادہ پسند آتی ہیں بجائے ان کے جو زندگی کے اصل حقیقی رنگوں کو اجاگر کریں کیونکہ اصل زندگی تو اکثر کڑواہٹ سے بھری ہوتی ہے ... لیکن یہاں اصل زندگی کے رنگوں کو میں نے انجوائے کرتے ہوئے پڑھا . حکیماں بیگم کا کردار ، جو سب کی تعریف و توصیف کا مرکز ہے ، مجھے بھی اچھا لگا کیونکہ یہ کافی غیر حقیقی اور فینٹاسٹک سا ہے یعنی too good to be true ہم سب چاہتے ہیں کہ ایسے لوگ ہمیں ملیں یعنی ایسے لوگوں سے ہی ہمارا وا( پالا) پڑے لیکن خود ایسا بننا ہمیں مشکل لگتا ہے۔
سفال گر مٹی کے برتن گھڑنے والا اس کہانی کا مرکزی کردار ایک ان پڑھ غریب عاجز کمہارن ہے جو مٹی کے برتن بنانے کا ہنر تو نہیں رکھتی لیکن اس کا صبر اور اللہ پر توکل کبھی نہیں ٹوٹتا وہ کبھی کوشش ترک نہیں کرتی۔دوسری طرف ایک والدین کی محبت سے محروم بچے عمر کو اپنی سفال گری کا شاہکار ضرور بنا دیتی ہے ہےاسکے برعکس ابرہیم اپنی محرومیاں اپنے بیٹے میں منتقل کر دیتا ہے اور اسکا بیٹا احمد اپنی محرومیوں کا بدلہ اپنی بیٹی صوفیہ سے لیتا ہے 2 کسی بھی چیز کا جنون اچھا نہیں ہوتا نفس کی پیروی کرنے والوں کو نہ اس دنیا میں سکون ملتا ہے نہ اللہ کے ہاں۔ پرنیاں اور احمد کو بہت لمبی سزا کاٹنی پڑی