"کیپٹل کی اجرت" ہنرخ والکوف | شاہ محمد مری کی کتاب "کارل مارکس: زندگی اور افکار جا جائزہ
نور جونیجو
کتاب لکھنے کے کئی مقاصد ہوسکتے ہیں جو مصنف کے مقصد، موضوع، اور قارئین کی ضروریات پر منحصر ہوتے ہیں۔ چاہے وہ علم کا فروغ ہو، فکری مباحث، ثقافتی ورثے کی حفاظت، یا معاشرتی تبدیلی، کتابیں ہمیشہ سے انسانی ترقی اور تہذیب کا اہم حصہ رہی ہیں. اور یے تمام عناصر ایک لکھاری اور کتاب کہ لافانی مقصدیت کو ابھارتا ہے. وہ ہے سماجییاتی تشکیل اور یے کتاب انہی بیشتر کتابوں کی طرز نوع کی ہے جو انسانی قلب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے.. اور یہی کتاب ِ حق کا اولین فرض ہوتا ہے. جس کو والکوف نے بخوبی اور نہایت نازکی سے انجام دیا ہے.
ہنرخ والکوف کی کتاب "Birth of a genius" "کارل مارکس: زندگی اور افکار" کا ترجمہ محترم شاہ محمد مری نے کیا خوب کیا ہے کہ ترجمہ کا حق ہی ادا ہوگیا ے۔ ترجمہ بہی ایسا کہ اصل کا گمان ہونے لگے. یہ کتاب نہ صرف مارکس کی ذاتی زندگی پر روشنی ڈالتی ہے، بلکہ ان کے فلسفے، معاشی نظریات، اور سماجی تبدیلی کے تصورات کو سمجھنے کے لیے ایک جامع رہنما کا کام بھی کرتی ہے۔
والکوف نے مارکس کی شخصیت، خیالات کی نشوونما اور عالمی اثرات کو انتہائی مدلل اور تحقیقی انداز میں پیش کیا ہے۔ مارکس کی زندگی اور شخصیت کو بچپن سے لے کر جوانی اور فکری عروج کو جس خوابیدہ، جمالیاتی اور فکرمندی سے بیان کیا ہے کہ آپ اشک فشانی سے بچ ہی نہیں سکتے.
کتاب کا اسلوب نہایت سلیس ہے جس کی وجہ سے قارئین کو مارکس کے پیچیدہ نظریات کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے. گرچہ اس کے تخم میں پیچیدگی اور سنگینی کا امتزاج شامل ہے. درحقيقت اس دائم مزاجی و فکر مندی کے تعاقب کا سہرا والکوف اور شاہ محمد مری کو تو جاتا ہی ہے پر وہ "نیست پیغمبر" جو کہ خود اس مادہ دنیا کی وسعت سے بہت بڑا ہے، جس کے عرض و سما میں تمام تر دنیا سمائی جاتی ہے اس کی زندگی سے جہد اور ہارنے کے تصور کو بیشتر وقعت میں رد کرنے کی قوت بہی گراں ہے. ہنرخ والکوف خود ایک سوویت مارکسی اسکالر اور مصنف تھے جو کہ کارل مارکس پر اپنے کام و تحقیق کے لیے مشہور تھے۔"والکوف" نے نہایت ہی حساسیت، فکر اور تفکر کے ساتھ پیش بند کیا ہے جو کہ صاحب ارض پر بیشتر لکھی گئی کتابوں سے منفرد کیئے دیتا ہے. اس کی وجہ مارکس کی داستان حیات کو فکری اور نظریاتی طرز سے ہٹ کر (جو کہ علیحدہ کیا ہی نہیں جاسکتا) ذاتی، وجودی، شخصی اور احساستی تناظرے سے لکھی گئی ہے.
کتاب کے ابتدائی حصے میں مارکس کے بچپن، ان کے خاندان کے اثرات، اور ان کی تعلیمی زندگی کو بیان کیا گیا ہے۔ وولکوف نے واضح کیا ہے کہ کیسے مارکس کے والد اور اساتذہ نے ان کی فکری بنیادوں کو تشکیل دیا۔ ہنرخ مارکس خود ایک روشن خیال، بلند اخلاق اور تعلیم یافتہ شخص تھا، جو قانون اور فلسفے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ انہوں نے کارل مارکس کو بچپن سے ہی علم اور تعلیم کی اہمیت سے روشناس کرایا۔ مارکس نے جس گھر میں آنکھ کھولی تھی وہ جذ اینٹوں، ملبے اور لاحاصل اصولوں اور فریضوں کا ڈھیر ہی نہیں تھا پر اس کی شعوری اور روحانی آبیاری کا ایک مکمل جزیرہ تھا. والٹیر، شیلر، ریسائن، روسو، لیسنگ، سپونزا اور کانٹ کی تعریف، تعزیم و فکر نے مارکس کی حسی و صوتی شعور کی پرورش میں بنیادی کردار ادا کیا.
ہنرخ مارکس نے اپنے بیٹے کو انسانی حقوق، آزادی، اور سماجی انصاف جیسے موضوعات پر غور و فکر کرنے کی ترغیب دی۔ یہی وہ بنیادی اصول تھے جو بعد میں مارکس کے انقلابی نظریات کی بنیاد بنے۔ لیکن کارل مارکس کی حساسیت اور وجودی انفرادیت اس کے والد کو ھمیشہ فکرمند رکھتی تھی. جس کا تذکرہ اس کتاب کے باب "کون سا پیشہ اختیار کیا جائے" میں دیا گیا ہے.
وہ بچپن سے ہی مارکس کے ذہنیت، رجحانات اور مہارتوں کو سمجھ چکا تھا پہر بہی اسے یہی امید ہوا کرتی کہ مارکس اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے لیے نوبل پیشہ اختیار کرے گا. جس کو مارکس نے اپنے مضموں "ایک پیشہ کے انتخاب میں نوجوان کہ تصورات" میں ظاہر کیا، " ہم ہمیشہ وہ پوزیشن نہیں حاصل کرسکتے جس سے ہمارے خیال میں ہمیں پکارا جاتا ہے، سماج کے ساتھ ہمارے رشتے اس وقت سے پہلے ہی قائم ہونے شروع ہوتے ہیں قبل اس کہ کے ہم انہیں متعین کرنے کی پوزیشن میں ہوں." مارکس نے طالبی والے دور میں اس بات کو بہت ہی باریکی سے ٹٹولا ہے..
"ایک ایسی غلطی جو ہماری ہاتھوں ہم سے بدلہ لیتی ہے، اور اگر یہ بیرونی دنیا کی ملامتوں کا مقابلہ نہ کر سکے، تب بھی یہ ہمارے دلوں میں ندامت کے پیدا کر دا درد سے وحشت ناک درد پیدا کرتی ہے ایسی غلطی جو خود کو اپنی ہی نگاہوں میں گراتی ہے جو کہ سینے میں ہمیشہ کاٹتی رہتی ہے دل سے خون ہاتھ چوستی ہے اور اسے مردم بیزاری اور مایوسی کے زہر سے ملا دیتی ہے،. "
کارل مارکس نے اپنی ابتدائی تعلیم ٹرائر کے ایک مقامی اسکول میں حاصل کی۔ جہاں مارکس نے بنیادی مضامین جیسے ریاضی، تاریخ، لاطینی، اور یونانی زبانوں میں مہارت حاصل کی. پر وہان کا تعلیم و تدریسی نظام جو کے روایت پسندی اور پرانی روایات پر مبنی تھا، بحث و دلائل و تنقید سے کوسوں دور رٹا لگوانے اور مشینری دماغ کی آبیاری پر منحصر تھا. مارکس اس سے سخت خائف رہنے لگا اور ہر وقت بیزارگی کا اظہار کرتا رہتا تھا. مارکس کو استاد ذہیں اور حاضر دماغ نہیں سمجھتے تھے اور نه وہی وہ شخصیت اور علمیت کو پرکھنے کے عناصر مارکس کہ لیے مناسبت رکھتے تھے .
اس کتاب کی دوسری خوبی "جینی" کی بابت تفصیل بہت نفیس اور حساس کن انداز میں پیش کیا گیا ہے.. اور جو کہ میرے گفتار، فکر و احساس کا مرکز بہی ہے۔
فطرت نے چیزوں کہ معمار و معیار بنانے کہ لیے مثالی کردار ترکیب دیے ہیں.. جیسے فیض احمد فیض کہ پیچھے ایلس کھڑی رہیں، جہاں سعادت حسن منٹو کے ہم راہ صفیا بیگم ڈٹی رہیں. ویسے ہی مارکس کا تذکرہ ہوگا وہاں جینی کا ذکر ہونا لازم و ملزوم ہے. لوگ ان کو "ہنسوں کا جوڑا" کہا کرتے.. "جینی" مارکس کی جز بیوی نہ تھی پہ شریک حیات تھی، شریک حیات کا رتبہ بیوی کی رواجی تصور سے بالاتر ہوتا ہے. اس رشتے کہ تعاقب میں شعوری ہم آہنگی و فکری عناصر کا ظہورِ ہونا ہوتا ہے. اور آپ دیکھیے کہ "جینی" نے جو تاریخی کردار نبھایا ہے وہ اس میں فنا ہوکہ بہی سفل رہی.
لیکن ہنرخ مارکس کو "جینی" کی بہت فکر تھی جس کا اظہار اس نے خط کے ذریعے اس وقت کیا جب مارکس بون یونیورسٹی میں تھا.
“اس خط میں مارکس کو اس بات کا احساس دلایا کہ جینی نے اس کی خاطر بڑی قربانی دی ہے, اس نے تمہارے لیے شادی کے کئی بہترین امیدوار مسترد کر دیے اب جب کہ کارل نے ناقابل فہم انداز میں جینی کا دل مکمل طور پر جیتا تھا تو کارل کو احساس کرنا چاہیے کہ اس غیر معمولی حسین عورت کی تقدیر اس کے ہاتھوں میں ہے لہذا اس دنیا کی عزت جتنی چاہیے وہ خود کو اپنے ائندہ خاندان کے لیے مادی چیزوں کی فراہمی کا ذمہ دار بھی سمجھنا چاہیے.”
کارل مارکس کا والد ہی وہ پہلا شخص تھا جس نے مارکس کی بے تحاشہ صلاحیتوں کو پرکھا ٹٹولا، اس بات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے اپنے ایک خط میں مارکس کو لکھا ہے کہ "خدا نے چاہا تو تم خود اپنی اور اپنے خاندان کی بہتری کے لیے اور اگر میرا اندازہ غلط نہ ہو تو پوری انسانیت کی بہتری کے لیے لمبی عمر جیو گے"، لیکن اس کے والد کا من کبھی خوف سے باہر نہیں آیا کیونکہ وہ مارکس کی صلاحیتوں کو منفی طور پر بھی دیکھتا تھا، وہ سمجھتا تھا کہ یہ تمام عناصر مارکس کو دنیاوی کامیابی کی راہ سے ہٹا سکتے ہیں. دوسرے خط میں اس بات کا انہوں نے ایسے اظہار کیا ہے "کبھی کبھی میرا دل تمہارے اور تمہارے مستقبل کے بارے میں سوچ کر خوش ہوتا ہے مگر کبھی کبھی میں ان خیالات سے خود کو نجات نہیں دلاسکتا جو مجھ میں غمگین بد شگونی اور خوف پیدا کرتے ہیں کیا تمہارا دل تمہارے دماغ اور تمہارے ٹیلنٹ کے مطابق ہے؟ کیا اس میں دنیاوی لطیف جذبات کے لیے جگہ ہے جو کہ دکھوں کی اس وادی میں حساس آدمی کے لیے ڈھارس ہوتے ہیں؟ یہ میرے دل کا دردناک شبہ ہے کہ کیا تم کبھی واقعی انسانی یعنی گھریلو مسرت کے لائق ہو سکو گے؟ کیا تم کبھی بھی ان لوگوں کو خوشی دینے کے قابل ہو سکو گے جو تمہارے بہت ہی قریب ہوں؟
لیکن مارکس کی کیفیت تو غالب کہ کلام پر اتری ہوئی تھی۔۔
جز نام ،نہیں صورتِ عالم مجھے منظور جز وہم نہیں، ہستئِ اشیا مرے آگے
"ہنرک مارکس اپنے بیٹے کی طرز زندگی کو دیکھ کر ہیجان میں مبتلا ہوا، غیر منظم علم کے تمام شعبوں میں بدمزہ مٹرگشت ایک مدھم تیل کی چراغ کے نیچے فضول خیالوں میں مرغی کا انڈون پہ بیٹھنے کی طرز پہ غرق رہنا، بیئر کے گلاس کے پیچھے سرپٹ بھاگنے کے بجائے ایک اسکالر کی ڈریسنگ گاؤں میں اور غیر کنگھی شدہ بالوں کے ساتھ سرپٹ بھاگنا، سارے احساسات نظر انداز کرنا. دنیا کے ساتھ تعلق کے آرٹ کو کام کے ایک گندے کمرے تک محدود کرنا جس کی مستند بدنظمی میں شاید کسی جینی کے عشقیہ خطوط اور ایک باپ کے باب مقصد نیک مشوروں کے آنسووں سے لکھے گئے خطوط کو اتش دان کے ایندھن کے لیے استعمال کیا جاتا ہو"
حال یہی ہے، مگر مستقبل کیا ہے؟ کیا ایک خستہ حال بالا خانے میں ایک وحشی بنے ہوئے سکالر کے ساتھ جینی جیسی ایک لڑکی کا مستقبل شاندار ہو سکتا ہے؟ ہنرخ مارکس کا دل خون کے انسو روتا تھا جب وہ سوچتا تھا کہ جب رہنمائی کے لیے پدرانہ ہاتھ موجود نہ رہے گا تو اس کی اس قدر سرکش بیٹے کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس نے اسے بری روحوں کو جھاڑ پھینکنے اور چیزوں کا ایک سنجیدہ اور عملی نقطہ نگاہ سے جائزہ لینے کی التجا کی. اس نے کارل کو والدین اور محبوبہ کے لیے اس کے فرائض اور ذمہ داریوں کی فہرست بتائی، اس نے امید ظاہر کی کہ ان ذمہ داریوں کی بجااوری سے اس کا بیٹا سچ کے راستے پر واپس ہوگا. ایک غیر مہذب لابالی لڑکا ایک ذمہ دار انسان میں بدل جائے گا، ایک منفی جینیس مثبت کے روپ میں بدل جائے گا اور اس پہ یہ راز منکشف ہوگا کہ اخلاق رکھنے والوں سے میل جول رکھنے سے وہ مسرور اور مفید ترین شخص بن سکتا ہے. جلد سے جلد عزت محبت اور کامیابی کا آرٹ سیکھ سکتا ہے اور اپنی ان صلاحیتوں کے عملی اطلاق کوما ہنر سیکھ سکتا ہے.
لیکن مارکس کا خیال و افکار اسی بات پر اٹل تھا کہ "فلسفے کے بغیر کوئی پیش رفت ممکن ہی نہیں" جو کے اس کتاب کا باب بہی ہے. بقول غالب..
کوئی دن گر زندگانی اور ہے، اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے
اس باب میں فلسفہ کی اہمیت و افادیت پہ بہت ہی باریکی، فکری اور دلائل کے ساتھ بحب کی گئی ہے. فلسفہ کا عملی فائدہ کیا ہے؟ مارکس کی جوانی میں ہیگل کے فلسفے سے متاثر ہونے کا ذکر بہی اہم حصہ ہے۔ مارکس کہتاہے، "انسان کی عقل سلیم یہ سوچتی ہے کہ اسے یہ حق ہے کہ اپنی احمقانہ گفت گو کہ ساتھ فلاسفروں کی مخالفت کرے. وہ اس وقت خود کو کولمبس امجھتے ہیں جب وہ انڈے کو ار کے بل کھڑا کر سکے"
والکوف نے بتایا ہے کہ کیسے ہیگل کے جدلیاتی طریقہ کار نے مارکس کی فکر کو نئی جہتیں دیں۔ لینن نے لکھا ہے کہ ہیگل کے منطق کو مکمل طور پر سمجھے بغیر مارکس کے" کیپیٹل" کو سمجھنا ناممکن ہے." اس باب میں ہیگل، ارسطو اور ڈیمو کرائی ٹس، پلوٹارخ کے فکر و فلسفہ پر بہی بات کی گئی ہے.
"حقیقت کی بے رحم تنقید" اس باب میں مارکس پر اس کے خاندان، والدہ اور عزیزوں کہ درمیان تنازع کا ذکر ملتا ہے. مارکس کی والدہ اس کو روحانی مشقت کی سمجھ نہ آتی تھی. وہ مارکس کو ایک بری طرح ناکام اور ہارا ہوا انسان سمجھتی تھی. وہ تلجی سے کہتی، "سرمایہ پر کتاب لکھنے کے بجائے سرمایہ کے حصول کی تگ و دو میں لگتا تو زیادہ کامیاب ہوتا. کیپٹل کی رائلٹی مارکس کہ بقول اس تمباکو کی قیمت بھی نہ چکا سکی جو اس کے لکھنے کے دوران وہ پی چکا تھا.
مارکس نے بون یونیورسٹی میں رجعت پرست کمیون کی دباو پر پروفیسری نہ ملنے ہر افسردہ ہوا اور آزادانہ طور پر ایک ریڈیکل اخبار نکالی جو بہی کچھ حیات کی فراغ کا سامان ہو نہ سکی.
اس باب میں تنقید کا دائرہ صرف مارکس کی طرف نہیں مڑا ہوا پہ مارکس نے بادشاہی حکومت، شاہی نظام، سیاست دانوں پر سخت تنقید کی ہے اور پریس سینسرشپ، پریس کی آزادی، پروشیائی بادشاہت پہ بھرپور بحث کی ہے.
مارکس نے پریس کی آزادی کے حوالے سے ایک مضمون میں اپنے خیالوں کا اس طریقے سے اظہار کیا ہے کہ "علم و فضیلت ایک کاروبار نہیں ہے. اسے ایک کاروبار کی سطح تک نہیں ڈوبنا چاہیے، رائٹر کو بلا شبہ زندہ رہنے اور لکھتے رہنے کے لیے کمائی کرنی چاہیے مگر اسے کسی صورت کمائی کے لیے زندہ رہنا اور لکھتے رہنا نہیں چاہیے"
یہاں پر مارکس لکھاری، ادیب اور دانشور کے سماجی ادراک اور کردار پر اہم نقاط پیش کرتے ہوئے اک مصنف اور تصنیف کے باہمی نسبت اور رشتہ پر بخوبی روشنی ڈالتا ہے. اس باب میں مارکس ہر طرف سے نظریات و افکار کے تنقیدی مراحل سے گذرتا ہوا اپنی ذات اور وجود سے بہی بچ نہیں پاتا.. نجی ملکیت اور نجییت کاری پر عالمانہ گفتگو اور تنقید کرتے ہوئے ریاست کی ساخت کو جھنجھوڑتا ہوا "ایک سچے جنگی نعرے کی تلاش" میں سرگردان ہو جاتا ہے.
مارکس کے انقلابی نظریات اور سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے خاندان کو شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مارکس کو اکثر ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑتا تھا. جینی نے ان مشکلات کا بہادری سے مقابلہ کیا، لیکن غربت اور قرضوں کا بوجھ ان پر بہت بھاری تھا۔ وہ اکثر اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے مالی مدد مانگتی تھیں، جو ان کے لیے ایک ذلت آمیز کیفیت سے گزرنے جیسا المیہ تھا. مارکس کے نظریات و فکر کی وجہ سے کئی بار جلاوطنی اور نقل مکانی کے اظطراب سے بھی گزرے. وہ لنڊن میں اپنے دیس، عزیزوں سے دور ہوکر مزید ٹوٹتی گئی اور اس کی صحت پر شدید اثر پڑا پہ اس کی محبت و تکویت میں کمی نہیں آئی. جینی کی وفات نے مارکس کو اندرونی اذیت سے دوچار کردیا تھا. اس کی زندگی بے معنویت کے گرد گھومنے لگی تھی. مارکس کی زندگی مصیبتوں ،سختیوں اور تکلیفوں کا مجموعہ تھی جس میں جینی نے بہادری، بےخوف ، ہمدردی، مستقل مزاجی اور سچے رفیق کے ناتے ساتھ نبھایا.
"جینی وان ویسٹفالن" نہ صرف کارل مارکس کی بیوی تھی بلکہ وہ ان کی فکری ساتھی، حمایت کنندہ بھی تھیں۔ ان کی وفاداری، قربانیوں، اور مضبوط شخصیت نے مارکس کی زندگی اور کام کو گہرائی اور معنی بخشی۔ جینی کی محبت اور حمایت کے بغیر مارکس کے نظریات اور کام کی تکمیل ممکن نہیں تھی۔ ان کی زندگی محبت، وفاداری، اور قربانی کی ایک عظیم مثال ہے.
جینی نے مارکس کے ساتھ ایک مشکل اور غیر مستحکم زندگی گزاری۔ مارکس کے انقلابی نظریات اور سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے خاندان کو مالی مشکلات، جلاوطنی، اور سماجی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔جینی نے ان تمام مشکلات کا بہادری سے مقابلہ کیا اور مارکس کی ہر ممکن حمایت کی۔ انہوں نے اپنے چھ بچوں کی پرورش کی، حالانکہ ان میں سے تین بچے کم عمری میں ہی انتقال کر گئے۔ نہ جانے کیوں کم عمری بچوں کے انتقال کی خبر سنتے ہی مجھے استاد محترم "اسد اللہ خان غالب" کی یاد آجاتی ہے جنہوں نے اپنے کمسن عارف کی موت پر خدا کو مخاطب ہو کہا تھا.
اے پیر فلک، ہان جوان تھا ابھی عارف، کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور. تم ناہ شب چار دہم تھے میرے گھر کے، پہر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشہ کوئی دن اور."
کیا بگڑتا صاحب گرچہ" جینی" اس قلبی و ذہنی غذیت سے نہ گذری ہوتی.. لیکن اس بڑے درد کے رشتے کے ناتے دونوں ہی کھچ رہے تھے اور اک دوسرے سے نظریں نہ ملا پاتے..
"جینی" کا تعلق ایک اعلیٰ طبقے کے جرمن خاندان سے تھا۔ اس نے اعلیٰ تعلیم یافتہ ماحول میں پرورش پائی اور ادب، فلسفہ، اور تاریخ میں گہری دسترس و دلچسپی رکھتی تھی جس کا خود مارکس بھی پرستار تھا. اور وہ ہی عناصر تھے جس نے مارکس کے ساتھ ان کے رشتے کو مضبوط بنیاد فراہم کی. اس تنقیدی و اصلاحی فکرے سے جینی کی شعوری و فکری رقابت اور ٹھوس مطالعہ کا بہی دلیل ملتا ہے.
"اس قدر جھنجلاہٹ اور نفرت سے نہ لکھو. تم جانتے ہو کہ تمہارے دوسرے مضامین نے کس قدر زیادہ اثر ڈالا ہے یہ تو حقیقت حال مزید زیرک انداز میں لکھو یا مزاح میں اور ہلکے پھلکے انداز میں. پلیز میری جان.. اپنا قلم کاغذ پر دوڑنے کے لیے چھوڑ دو. خواہ وہ کبھی اپنے فقرے کے ساتھ ہی لڑکھڑائے اور گر جائے تمہارے تصورات ہمیشہ سپاہی کی طرح تن کے سیدھے کھڑے ہیں. اس قدر باعزت طور پر مستحکم اور جرات مند اور وہ قدیم گارڈ کی طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہ مر جائے گا مگر ہتھیار نہیں ڈالے گا. اس سے کیا فرق پڑے گا کہ اگر کبھی کبھار یونیفارم ذرا سا کھلا ڈھلا رہے اور بٹن اس قدر مضبوطی سے بند نہ ہوں؟ فرانسی سپاہیوں میں سب سے عمدہ چیز ان کا آزادانہ اور سہل انداز ہے جب تم ہمارے بیساکی والی پروشیائوں کے بارے میں سوچتے ہو تو کیا تم پہ کپکپی طاری نہیں ہوتی؟ بس ذرا سا تسمے بس ذرا سا تسمے کو ڈھیلا کرو اور گلو بند اور ہیلمٹ کو ہٹا دو لفظ کو اپنا راستہ بنانے دو اور الفاظ کو اسی طرح سیٹ کرو جس طرح کہ وہ خود بخود اتر جاتے ہیں"
مارکس اپنی قدیم و عمیق شخصیت سے ہٹ کر ایک نفیس باپ بھی تھا. اور وہ بات اس کو اندر سے کاٹے جارہی تھی کے غربت اس کی بیٹیوں کی پرورش کو اس حد تک متاثر کر رہی تھی کہ ان کے پاس اسکول یونیفارم تک نہیں ہوتا. مارکس نے اینگلز کو خط میں لکھا "میری بیوی ہر روز مجھے بتاتی ہے کی بہتر ہوتا اگر وہ بچوں کہ ساتھ قبر میں ہوتی اور میں واقعی اس کو اس بات پر قصور وار نہیں سمجھتا، اس لیے کہ اس صورتحال میں جو بے عزتیاں، جو اذیتیں اور جو دہشتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں وہ واقعی ناقابل بیان ہیں"
"کیپٹل" سے حاصل کردہ پیسے جسے اجرت کہیے کہ رائلٹی جو کہ نہ جینی اور نہ ہی مارکس کو موصول ہوسکی. گھر میں پھوٹی کوڑی نہ ہونے کی وجہ سے بیٹی کی تدفین نہ کرسکیں تو بسی اور دکھ کی وجہ سے مارکس کی آنکھ بھر آتی ہے، تو جینی اسے یے کہتی مجھے دکھ ہوا کہ صرف بیٹی کی تدفین نہ ہونے کی وجہ سے آپکی آنکھوں میں آنسو آگئے، ہمیں تو پوری دنیا کے غریبوں کے بارے میں مایوس ہوۓ بغیر انکی فلاح کیلۓ سوچنا ہے..
کیپیٹل کی گرچہ کوئی اجرت تھی بہی تو وہ یے کہ اس نے جینی اور مارکس کا کاٹ کلیجا کھایا” میرے جیسے حساس انسان کیلئے یہ نا ممکن تھا کہ انسانیت کی چیخ سنتا رہوں اور خاموش بیٹھا رہوں۔ اگر میں " سرمایہ" کو مرتب کیۓ بغیر مر جاتا تو اپنے آپ کو " بے عمل" انسانوں کے زمرہ میں شریک کرتا”
"جینی" 1881 میں فوت ہو گئی تو اینگلز نے ایک جملہ کہا جس نے بہت سے لوگوں کو چوکنا اور حیران کر دیا، "مور بھی مر گئی"
ویلہلم لب نخت نے لکھا "مسز مارکس ہم پہ شاید خود مارکس سے بھی زیادہ مضبوطی سے حکمرانی کرتی تھی، ان کے اندر افتخار تھا، خود اپنے وقار کا ایک ادراک.. میرے لیے وہ ایک ماں تھی، ایک دوست ایک رازداں اور ایک اصلاح دینے والی. میرے لیے وہ آئیڈیل عورت تھی اور ہے اور میں دہراتا ہوں اگر میں لندن میں اخلاقی اور جسمانی طور پر منہمند نہیں ہوا تو یہ زیادہ تر ان کی وجہ سے ہوا"
اینگلز نے لکھا،" جب مین نے جیںنی کی موت کی خبر سنی تو میں جان گیا تھا کہ مارکس کہ دن گنے جا چکے ہیں" اور اس کی بات درست نکلی. مارکس جینی کو تلاش کرتے اگلے ہی سال رخصت ہوا.
مارکس نے جینی کی نظر کردہ اپنی نظم "دیکھا" میں لکھا..
میں اٹھا سب کچھ توڑ ڈالا جس نے مجھے باندھے رکھا تھا، تم کہاں جاؤ گے؟ "کوئی نئی دنیا تلاش کروں گا" خوش مزاج، چنچل چراگاہیں نہیں ہیں؟ نیچے سمندر نہیں ہیں، اور اور جھلملاتے ستارے نہیں ہیں؟ دنیا خود مجھ سے اوپر جانا چاہیے میری زندگی کے خون سے اس کے فوارے اتے ہیں، میری روح کی سانسوں سے اس کی بلندیاں، جتنی دور تک کر سکتا تھا آوارہ گردی میں نے کر دی واپس ہوا، دنیائیں تہہ و بالا کر دیں، وہیں سے سورج اور تاروں نے جس لگائی ایک بجلی کوندی اور وہ ڈوب گئے وہ ڈوب گئے"
"کیپیٹل" مارکس کا یقینن عظیم انسانی اور سائنسی کارنامہ تھا اور اس کی جمالیات مزید گراں ہوئی جاتی ہے گرچہ ان حالات، قربانیوں اور دیمک نے جو دل پہ تحریر کیں، ان کا جائزہ لیا جائے. کیپیٹل نے مارکس سے صحت، مسرت، خاندان، دوستیاں، بچے یہان تک کہ جینی تک کو چھین لیا. لیکن وہ ایام کی مستی کو ہنس کے پی جاتا تھا، مسکراہٹ اور مزاح اس کا ہتھیار تھا جسے وہ بخوبی استعمال کرتا تھا. لیکن اس کو کوئی آفت توڑ نہ سکی.
یے کتاب مارکس کی زندگی اور نظریات کو سمجھنے کے لیے نہایت اہم ہے، لیکن کچھ قارئین کو لگ سکتا ہے کہ کتاب میں مارکس کے نظریات کے تنقیدی جائزے کی کمی ہے۔ والکوف نے زیادہ تر مارکس کی تعریف اور ان کے نظریات کی تشریح پر توجہ مرکوز کی ہے، جب کہ ان نظریات پر تنقیدی نقطہ نظر کم ہی پیش کیا گیا ہے۔ اگر آپ مارکسزم، تاریخِ فلسفہ، یا انقلابی نظریات میں دلچسپی رکھتے ہیں، تو یہ کتاب آپ کے مطالعے کا لازمی حصہ ہونی چاہیے. . اس کتاب کی خوبی کہیے یا خاصیت وہ مارکس کی ذاتی زندگی، وجودی کیفیات اور اسلوب کی تخلیقیت کا ہنر ہے جو کہ فلسفے سے افکار تک، جہد سے لے کر تھکاوٹ تک، مسافت سے لے کر گمنامی تک اور حال سے لے کر ماضی تک اس طرح پھاٹک کو غوطے دیتا ہوا آگے نکلتا ہے کہ پیاس کا احساس بہی نہیں رہتا.