An old city forlornly gazes at what once made it a place to love. And a place to love in. It shall linger on in that anguished, twilight moment. All but lost. Like shadows & voices left behind in emptied houses. Osama Siddique paints its lament.
ایک پُرانا تاریخی شہر، اپنی عظمتوں کی شام سے دوچار، اپنی ثقافت، اپنی محبوبی، رہن سہن، تعلیم، عدل و انصاف اور وسیع المشربی پر اُچٹتی، اُداس نظر ڈالتا ہوا، جو آخرکار غروب کی دل دوز ساعت میں موجود تو رہے گا مگر تقریباً گُم شدہ، جیسے خالی ہوتے گھروں میں سائے اور صدائیں رہ جائیں۔ اُسامہ صدیق کے ناول میں اسی منہ چُھپاتے شہر کی داستان ہے۔ اس میں اگر جا بجا طنز و مزاح کے چھینٹے نہ ہوں تو بالکل دل خراش معلوم ہونے لگے۔ تاریکی کے انھیں پھیلتے دھبوں میں کہیں کہیں روشنی کی بندکیاں بھی ہیں جو خود کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ لاہور کے بارے میں ایک ناول جس کا در و بست روایتی ناولوں سے بالکل الگ تھلگ ہے۔ آوازوں کے ان تانوں بانوں میں ایک ہوائی مخلوق کی آواز بھی شامل ہے جو اس بگاڑ سے اتنی ہی ناخوش ہے جتنے بعض دوسرے حسّاس انسان۔ یہاں عدل و انصاف کا نام نہیں، قبضہ گروپوں کے حریص مسخروں کے کرتبوں سے مسخر ہونے والوں کا ہجوم ہے۔ ایک شہر جو رونقِ خیال و احوال تھا ٹوٹ پھوٹ کر حقیقی ملبوں میں تبدیل ہوتا نظر آتا ہے۔ اُسامہ صدیق نے اپنے زورِ قلم سے اس کی افسردگی اور زوال کو گویا مصوّر کر دیا ہے۔ ناول نگار دُنیا کو بدل تو نہیں سکتے لیکن ہمارے سُود و زِیاں کا حساب ضرور رکھتے ہیں۔
(محمد سلیم الرحمٰن)
ہر تخلیق کار پر اگر وہ خوش بخت ہو تو ایک ایسا لمحہ اترتا ہے جس کی اُسے خبر نہیں ہوتی، اور اُس لمحے وہ جو کچھ تخلیق کرتا ہے وہ خود نہیں کرتا، اُس سے سرزد ہو جاتا ہے.. اور جب وہ لمحہ گزر جانے کے بعد وہ اپنی تخلیق کو پرکھتا ہے تو وہ خود اُسے پہچان نہیں سکتا اور ایک عالمِ تحیّر میں چلا جاتا ہے اور خود سے سوال کرتا ہے، کیا واقعی یہ میری تخلیق ہے اور جواب آتا ہے کہ یہ وہ ہے جس کی تمھیں خبر نہیں، جو رہی سو بے خبری رہی، تم پر ایک نزول کا لمحہ اترا اور گزر گیا۔ اُسامہ صدیق کے ناول ’’غروبِ شہر کا وقت‘‘ کے کچھ حصّے ایسے ہیں جو ایسے ہی لمحوں کی خود فراموش وارفتگی میں تحریر ہو گئے۔ بےخودی کے لمحے میں لکھے گئے۔ اور یاد رہے کہ وارفتگی اور بےخودی میں ترتیب نہیں ہوتی۔ اُس کا ظاہری انتشار ہی اُس کی ترتیب ہوتی ہے.. بقول غالبؔ اگر زندگی عناصر کا ظہورِ ترتیب ہے تو ایک بڑا ناول عناصر کے ظہورِ ترتیب کی بے ترتیبی ہے۔ اُسامہ بھی جوناتھن لِونگ سٹن سِیگل (Jonathan Livingston Seagull) کی مانند پرواز کی طے شدہ حدّوں سے پار جانا چاہتا ہے۔ ناول کی جو مقیّد حدود ہیں اُن کو بھی عبور کرنا چاہتا ہے۔ اگر بڑی نثر بے یقینی کو عارضی طور پر معطّل کر دیتی ہے تو اس کی ایک منفرد مثال اُسامہ صدیق کا ناول ’’غروبِ شہر کا وقت‘‘ ہے۔
He has written historical fiction that encompasses multiple eras ranging from ancient history to the near future as well as the diverse themes of time, religion, philosophy, ideas, architecture, archaeology, arts, iconic figures, progress, political systems, apartheids, evil and dissent.
In non-fiction he has written about history of evolution of laws in colonial and post-colonial settings, the elites that capture and control such laws, and their impact on ordinary citizens. He has also written about laws and politics as well as the politics of laws; about laws and society and the sociology of laws; and about rights and their violation as well as enforcement.
Dr. Osama Siddique is a Pakistani novelist, legal scholar, teacher and policy reform consultant. He was a Rhodes Scholar at Oxford and holds Masters and Doctoral degrees from Harvard Law School. He has also taught at Harvard Law as the Inaugural Henry J. Steiner Visiting Professor in Human Rights. Osama is also a graduate of Government College University and LUMS and has taught at the latter for many years where he also led the establishment of and headed its Law and Policy School.
Osama works in the areas of sociology of law, legal history, human rights, constitutional law, access to justice, and law and development. He also serves on the Senior Faculty of Institute for Global Law & Policy (IGLP) at Harvard. He is also deeply interested in the areas of archeology, ancient and medieval history, literary fiction, science fiction, the natural world, mythology and fantasy.
Snuffing Out the Moon is his first novel and set in six distinct historical eras in South Asia. Ghuroob e Shehr Ka Waqt is his first Urdu novel and laments the decline and looming death of a city.
His book 'Pakistan's Experience with Formal Law: An Alien Justice' was declared the best non-fiction book of the year at the Karachi Literature Festival (KLF), 2014. It also won the American Institute of Pakistan Studies (AIPS) Annual Book Prize 2014-15.
A novel about how the sun permanently sets on cities that forget how to cherish knowledge, conserve boons of nature, ensure justice, extend empathy, and to love. Cities that are both hard to love any longer and in which it is hard to love any longer. A lament of civilizational, intellectual, artistic and environmental decline that is also an exploration of what an individual can do when faced with all this - an individual torn by questions metaphysical as well as those of a particular time and place.
ایک پُرانا تاریخی شہر، اپنی عظمتوں کی شام سے دوچار، اپنی ثقافت، اپنی محبوبی، رہن سہن، تعلیم، عدل و انصاف اور وسیع المشربی پر اُچٹتی، اُداس نظر ڈالتا ہوا، جو آخرکار غروب کی دل دوز ساعت میں موجود تو رہے گا مگر تقریباً گُم شدہ، جیسے خالی ہوتے گھروں میں سائے اور صدائیں رہ جائیں۔ اُسامہ صدیق کے ناول میں اسی منہ چُھپاتے شہر کی داستان ہے۔ اس میں اگر جا بجا طنز و مزاح کے چھینٹے نہ ہوں تو بالکل دل خراش معلوم ہونے لگے۔ تاریکی کے انھیں پھیلتے دھبوں میں کہیں کہیں روشنی کی بندکیاں بھی ہیں جو خود کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ لاہور کے بارے میں ایک ناول جس کا در و بست روایتی ناولوں سے بالکل الگ تھلگ ہے۔ آوازوں کے ان تانوں بانوں میں ایک ہوائی مخلوق کی آواز بھی شامل ہے جو اس بگاڑ سے اتنی ہی ناخوش ہے جتنے بعض دوسرے حسّاس انسان۔ یہاں عدل و انصاف کا نام نہیں، قبضہ گروپوں کے حریص مسخروں کے کرتبوں سے مسخر ہونے والوں کا ہجوم ہے۔ ایک شہر جو رونقِ خیال و احوال تھا ٹوٹ پھوٹ کر حقیقی ملبوں میں تبدیل ہوتا نظر آتا ہے۔ اُسامہ صدیق نے اپنے زورِ قلم سے اس کی افسردگی اور زوال کو گویا مصوّر کر دیا ہے۔ ناول نگار دُنیا کو بدل تو نہیں سکتے لیکن ہمارے سُود و زِیاں کا حساب ضرور رکھتے ہیں۔ (محمد سلیم الرحمٰن)
ہر تخلیق کار پر اگر وہ خوش بخت ہو تو ایک ایسا لمحہ اترتا ہے جس کی اُسے خبر نہیں ہوتی، اور اُس لمحے وہ جو کچھ تخلیق کرتا ہے وہ خود نہیں کرتا، اُس سے سرزد ہو جاتا ہے.. اور جب وہ لمحہ گزر جانے کے بعد وہ اپنی تخلیق کو پرکھتا ہے تو وہ خود اُسے پہچان نہیں سکتا اور ایک عالمِ تحیّر میں چلا جاتا ہے اور خود سے سوال کرتا ہے، کیا واقعی یہ میری تخلیق ہے اور جواب آتا ہے کہ یہ وہ ہے جس کی تمھیں خبر نہیں، جو رہی سو بے خبری رہی، تم پر ایک نزول کا لمحہ اترا اور گزر گیا۔ اُسامہ صدیق کے ناول ’’غروبِ شہر کا وقت‘‘ کے کچھ حصّے ایسے ہیں جو ایسے ہی لمحوں کی خود فراموش وارفتگی میں تحریر ہو گئے۔ بےخودی کے لمحے میں لکھے گئے۔ اور یاد رہے کہ وارفتگی اور بےخودی میں ترتیب نہیں ہوتی۔ اُس کا ظاہری انتشار ہی اُس کی ترتیب ہوتی ہے.. بقول غالبؔ اگر زندگی عناصر کا ظہورِ ترتیب ہے تو ایک بڑا ناول عناصر کے ظہورِ ترتیب کی بے ترتیبی ہے۔ اُسامہ بھی جوناتھن لِونگ سٹن سِیگل (Jonathan Livingston Seagull) کی مانند پرواز کی طے شدہ حدّوں سے پار جانا چاہتا ہے۔ ناول کی جو مقیّد حدود ہیں اُن کو بھی عبور کرنا چاہتا ہے۔ اگر بڑی نثر بے یقینی کو عارضی طور پر معطّل کر دیتی ہے تو اس کی ایک منفرد مثال اُسامہ صدیق کا ناول ’’غروبِ شہر کا وقت‘‘ ہے۔ (مستنصر حسین تارڑ)
غروب شہر کا وقت ایک شہر کی داستان ہے جو وقت کے ساتھ اپنی آب و تاب کھو رہا ہے۔ رونق مانند پڑ رہی ہے۔ اس ناول میں ایک ناسٹیلجیا ہے اور اداسی بھی۔ الفاظ سے کیا خوبصورت منظر کشی کی گئی ہے۔ سردی کا ذکر کچھ یوں کیا۔۔۔ “سردی کی چادر دبیز تھی۔ نیلے، سلیٹی اور سرمئی رنگ کی دبیز چادر میں جہاں ٹھنڈے نیلگوں کہر کے ٹکڑے تھے وہاں ساتھ ہی ساتھ پیلی سرسوں کے رنگ اور سنہری دھوپ کی پر لطف تمازت کے پارسی بھی۔ اس کے آتے ہی ہر جانب لیموؤں، سنگتروں اور نارنجیوں کی خوشبو پھیل جاتی۔” اور پھر سردی کے منظر کو اسموگ سے کمپیئر کیا۔ کیسے وقت کے ساتھ موسم بھی تبدیل ہوتے جارہے۔
اور صرف موسم ہی نہیں رسم و رواج، رہن سہن، طور طریقے سب کچھ ہی بدلتے جارہے ہیں۔ شاید شہر بدل رہا ہے یا اجھڑ رہا ہے یا پھر سچ پوچھیں تو یوں لگتا ہے شہر مر رہا ہے۔۔۔ لکھتے ہیں “شہروں کی موت افراد کی اموات سے مختلف ہے۔ ان کا سانس یکدم نہیں ٹوٹ جاتا۔ ہم کسی ایک واضح لمحے کی نشاندہی نہیں کر سکتے کہ اس لمحے کسی شہر کی موت واقع ہوئی۔”
اسی کی دہائی سے موجودہ وقت تک ایک جائزہ لیا ہے یا یوں کہ لیں کہ ایک خونوشت تخلیق کی ہے۔ مختلف اہم واقعات پر مکالمہ شاندار رہا۔ نظام تعلیم اور نظام عدل پر طنزیہ لیکن گہری چوٹ کی۔ پڑھ کر بے اختیار مسکراہٹ دوڑ گی لیکن ساتھ ہی مایوسی نے بھی گھیرے میں لے لیا کہ کوئی اچھائی یا بہتری کی گنجائش نظر نہیں آرہی۔۔۔
ایسا نہیں کہ اس ناول میں صرف افسردگی یا مایوسی ہے۔ شہر کے کچھ شاندار کردار بھی ہیں۔ چھوٹے شاہ کا کردار بہت پسند آیا۔ لہجے میں ہکلاہٹ اور زبان میں لکنت ہے لیکن جذبے کی کوئی کمی نہیں۔ جب اس کے بنائے ہوئے مصنوعی مکڑے کی تعریف کی تو کچھ ہکلائے اور تھتھلائے ہوئے بولا “میلے پاس اواواول بھی بہت سے مکلے ہیں” تب بے اختیار خیال آیا کہ یہ جب اتنی دشواری اور محرومی والے زندگی کے باوجود ہمت نہیں ہار رہا تو ہمارے پاس کیا وجہ ہے؟؟؟ بہت عمدہ کتاب ہے۔ کئی پیراگراف کو بار بار پڑھا۔ تین چار دن اس کتاب کے حصار میں رہا۔ ضرور پڑھیے۔
"شہر کی موت افراد کی موت سے مختلف ہوتی ہے ان کا سانس یا یکدم نہیں ٹوٹ جاتا " . شہر یک دم نہیں مرتے جیسے کسی بھی تہذیب اور معاشرے پر یکدم زوال نہیں اتا دھیرے دھیرے کئی وجوہات اور اسباب کی بنیاد پر وہ تہذیب وہ معاشرہ زوال کی جانب بڑھتا چلا جاتا ہے اور بالاخر اس نہج پر پہنچ جاتا جہاں سے اپنی گزشتہ رفعت کی طرف لوٹنا ناممکن سا ہو جاتا ہے۔ اسامہ صدیق کا یہ ناول روایتی ناولز کی طرح نہیں کہ جس میں کہانی کا آغاز واقعات کی ایک ترتیب اور اختتام ہوتا ہے۔قبرستان سے شروع ہونے والی یہ کہانی جب آہستہ آہستہ اگے بڑھنے لگتی ہے تو اپ کو ایک عجیب طرح کا تلخ احساس اور اداسی اپنی گرفت میں لے لیتی ہے جو ہر اگلے باب کے ساتھ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔بظاہر یہ ایک خاص شہر کی سماجیات معاشرت معاشیات ماحولیات نظام تعلیم اور نظام انصاف کی بتدری زوال اور انحطاط کی کہانی ہے لیکن حقیقت میں مجموعی طور پر یہ اس ملک کے سارے نظام کی زوال کی ایک داستان ہے۔ زوال کی اخری حدوں کو چھوتا نظام تعلیم جہاں اساتذہ کی اکثریتی تعداد جاوید ساقی جیسے اساتذہ پر مشتمل ہے جہاں ہر ادارے میں ڈاکٹر نوریز احسن جیسے پیر تسمہ پانجے گاڑے بیٹھے اور جس میں طیبہ خالہ جیسے ذہین اور روشن دماغ معاشرتی حالات اور رویوں کی وجہ سے اذیت اور کرب کا شکار رہتے ہیں۔جہاں قاضی الاول جیسے نوٹنگ کی روزانہ ایوان عدل میں سرکس لگا کے بیٹھتے ہیں ۔جہاں اج بھی ماحولیات درختوں صاف ہوا پرندوں اور جانوروں کی فلاح کی بات کرنے والا بیوقوف گردانہ جاتا ہے کہ جب زمین کا ایک ٹکڑا پلاٹ کی صورت میں اپ کی جیب بھر سکتا ہے تو پودوں پرندوں جانوروں اور ماحولیات کی کسی پڑی جہاں بجائے کوئی قانون بنانے اور عمل کروانے جیسے اقدام کرنے کے بجائے بسنت جیسے خوبصورت تہوار کا ہی خاتمہ کر دیا جاتا ہے جہاں پرانے درخت اور قدیم مکانات گرا کر بے ڈبی اور انکھوں کو چبنے والے مکانات کی تعمیر اب بھی عام سی بات ہے جہاں ڈنڈے والے اب بھی ہر قانون سے بالاتر ہیں افکار کموڈوی جیسے انسان ہر غلیظ حرکت اور ہر قسم کی کرپشن کرنے کے باوجود نظام کے چلتے پرزے بنے پھرتے ہیں ۔ اگر اپ بھی نو سٹائل جیا کی ماری روح ہیں درخت پرندے جانور خوبصورت پرانی عمارتیں انسان ایک دار پرانی تہذیب اور معاشرت کے دلدادہ انسانی عزت پکار اور عالی دماغی کے معترف ہیں تو یہ کتاب پڑھیں۔اگرچہ بقول مصنف یہ کوئی ہما وقت منطقی کڑیوں سے کڑیاں ملاتی باقاعدہ اغاز اور اختتام کی حامل کہانی تو نہیں لیکن یہ خوبصورت نصر میں گندا ایک نوحہ ضرور ہے ۔یہ ناول پڑھ کے اپ کو سوچنے اور کڑھنے کو بہت کچھ مل جائے گا اس ناول کا ادبی مقام تو کوئی مہان نقاد ہی طےکریں گے لیکن بحیثیت قاری میرے لیے اس کا مطالعہ کئی ادبی شہ پاروں کی نسبت زیادہ دلچسپ اور سود مند اور ریوارڈنگ رہا
I finished readingOsama Siddique's novel “Gharoob e shehar ka waqt” and it took me quite some time despite being compelling reading. This is because the novel had so much to say, had such resonance with what I felt about so many things, was so stimulating and thought-provoking and there was so much to experience that I read and re-read passages and chapters, took them in slowly, sat with the writing, formed a relationship with the novel, lived it for many days, and now feel like talking about it, though of course that would be just a limited response to an expansive, deep and rich work of fiction resounding with a world of meaning and associations. Gharoob e Shehar ka Waqt is about a dying Lahore, a great city going down like the setting sun after having shone brilliantly for centuries, a city that flourished and grew from ancient times, along the bed of a legendary river, Ravi, ‘Budhaa Ravi’-old Ravi, wise Ravi-a river that had nourished the city, and which had countless tales to tell. However, now the city was nearing its death, not due to old age but due to disease and violence, it had been poisoned, had been mutilated, ravaged by greed, by the pursuit of blind power, ripped and ransacked, leaving it gasping for breath, literally, as deadly smog had enveloped the city, where one felt scared to breathe, and what is life if not breathing! Osama’s novel has a particular immediacy for me as he and I are near contemporaries in age and have experienced many same or similar events in our country at around the same age, and so what he describes has a personal and experiential resonance for me. Osama, with a sharp eye and a deep sense of history and appreciation of literature, has interspersed his novel with extracts from various old Urdu dastaans or tales and legends, connecting the past with the present through those, and using their wisdom, concerns and lessons to throw light on what is happening in the present; often as juxtaposition of the wealth and depth of old cultural wisdom with the depletion of that historical legacy in present times, the past commenting on, as it were, through waves of time, warning future generations, which, looking back, engenders remorse and regret at having severed our ties with what was ours. The novel begins, aptly in a graveyard, where the protagonist, Khalid, finds himself one afternoon, and the graves he is surrounded by stir different thoughts and feelings within him, as if that sleeping city within the city is a silent elegy to dying Lahore, a foil to the death- in- life that the city has become. The novel is a series of chapters recounting different aspects and events of life of the city and of Khalid, narrated in first person, starting from his youth during the 1980s. As I read through the pages, chapter after chapter, I felt I was, in a way, reading the book of my own life, chapters opening into various experiences and memoires I share with most of my compatriots from my generation. It was a poignant and sad journey, making me acutely aware of the wounds we suffered growing up in the deadliest of times during martial law, when, as a friend once said, our youth was robbed from us. During martial law, a fascist and militant mind set thrived on uniformity, exclusionism, fear, and where all those who became powerful were tools of that policy, be it lawyers, judges, principals, vice chancellors or any other and the atmosphere this bred had complete disregard for merit, a war against all perceived to be a challenge to the system. Diversity, difference of opinion, creativity, freedom of expression, all became crimes. And we grew up in that world, our dreams and aspirations, snatched from us, we are a generation that lost itself, and a nation that is left in the dark. This and the saga of subsequent as well as preceding years is told through different characters, however, without heaviness, with wit, humour and satire. In some ways it is a brooding, dark novel, and it is also expressive of the anguish of someone who has loved the city with a passion, and is now suffering from seeing his beloved city hijacked and imprisoned by those bent upon destroying it. The novel takes us through various facets of the city and the times as they unfold, from physical infrastructure to institutions, from education to the judicial system, the old buildings and neighbourhoods, narrow streets and wide-spread housing societies, trees, flowers, parks, woods, and within these themes, the story of Khalid. The novel has a very interesting structure, in which Khalid’s story is not linear; it is set within time that goes back and forth; here, there, somewhere; now and then; like memory, like stream of consciousness, set within time, however, following a subjective, personal rhythm. Different characters emerge in the novel, from various walks of life, all converging on the city. Many of these characters, while being fleshed out as individuals, also become a means through which the institutions or professions they represent and the prevailing conditions, atmosphere, culture of these is revealed. Many of these characters are recognisable as individuals and also as a type that was promoted and placed at high positions by the kind of culture and thinking that the martial law of the 1980s established and which still continues to haunt us today, having been reinforced over the years. Such characters include the Qazi al awal (the chief justice), Dr. Nouraiz Ahsan, the lawyer, and the principal of the college. And then there are characters who dream of a different life, who are cut from a different fabric, and who, while living a life true to themselves, remain persons who do not find resonance within the larger social set-up imposed from above, which presides over whose voices are to be heard, and which paths are going to shape the direction of the country. These individuals like Tayyaba khala, Asim, Tayyaba the scientist, Sitara Bano advocate, Khalid himself, find themselves not being able to influence the larger reality around them, and while being impacted by the destruction wrought by the system at every level, continue to shape a life for themselves where they can hear their own voice. Characters include teachers, students, lawyers, judges, political prisoners, spies, property dealers, land grabbers, child labourers, shopkeepers, ordinary people living extraordinary lives and even a ghost. And then there is another set of characters, interspersed throughout the novel, like the blind cleric or the old immigrant from across the border, or the silent and shadowy person who receives help from Khalid’s grandmother soundlessly,” when one hand gives, the other is unaware of the deed. ”There are figures we recognize, who in reality would have a full life of their own, however, who in the course of our lives might feel shadowy to us, side characters, even fillers because they inhabit a world which intersects with ours only incidentally. And yet a sensitive soul like the writer, or the protagonist, gives them space in their mind, their heart and in the pages of the novel, knowing that we can only know very little in our lives, and that if we let go of our egos, we see that we are a drop in a vast ocean. The large number of characters which appear within the warp and weft of the novel, are created with deft strokes of the pen, bringing the scene to life, characters that are studies in themselves, and those who create a scene, move the plot. So we meet different teachers who came into the life of Khalid at college, satirical portrayals, that amuse and alarm at the same time. Then there are the students, coming from diverse backgrounds, which taken together could form the script of a film, bringing the campus to life. Suppression of freedom during the martial law and active imposition of criminal-minded people with the aim to suppress all dissent and ensure domination of a militant politico-religious ideology with violence featured starkly during the period. This led to lasting and continuing damage to campus life-quality of education, research, open mindedness, critical thinking, inclusivity, merit. The novel is written in a realistic manner, the descriptions of people, places, situations are done realistically with a sharp eye and insight and at the same time the novel heaves with poetic passages and narration, and also moves into the realm of the supernatural, magical, fantasy. The writer has such a vast canvas and is exploring themes that span the inner world, the out world, the march of time, larger socio-economic, cultural and political context, and local reality, lives, characters, nature, literature and so much else. Layer upon layer is penetrated, and this requires the pen to move in different realms, enter different regions of the mind in order to fetch the vocabulary that expresses the appearance and the reality, the strata of meaning, the expanse of the human mind, and the mystery of the world. There is a sharp sense of place, be it old buildings, shrines, streets, neighbourhoods, parks, forests, the Ravi; one encounters their soul, a burning desire to hold this diminishing world, and not let go, and at the same time a grudging, angry and anguished surrender to forces too powerful to influence, a sense of helplessness and foreboding, witnessing the march of dark forces, ushering in dystopia. This speaks to Osama’s earlier novel “Snuffing out the Moon”, which had stories placed in different epochs of history coming down to the present times, and then a dystopic future. What could testify this more than the dry, shriveled, sunken, stinking bed of the Ravi. The writer, the protagonist, and the reader are witness to this relentless invasion of a psychotic mind, bent upon a life-draining control, and the struggle of so many to remain out of its grip. The buildings of the city, its parks, its heritage, the richness and beauty, what used to be the throbbing heart of the city, its culture, literary world, manners and traditions, food and festivals and the rich array of diverse people who enriched and enlivened the city live in the pages of the novel, nostalgically; as the dominant mood is of the city losing its character, becoming increasingly uniform, in its character, and its mood. The suffocating social and political environment is mirrored by the suffocating, entrapping infrastructure of the city, and the ubiquitous smog-the ultimate turning of meaning and experience inside out-a city where one is afraid to breathe, literally and metaphorically. The novel dwells on time and space, on the scientific, poetic and philosophic understanding of these, and where these intersect. In the vast fabric of space and time, a dying city and a dying star both do not matter, they are the same. However, for those whose lives depend upon their planet, who derive their sustenance and identity from their city, where they are rooted, whose graveyards are populated by their dear ones, whose tastes and smells and sights are part of who they are, for them the death of the city, smouldering and falling off gradually but surely like being placed on a funeral pyre, means everything. It is the meaning of who they are, and what are we without meaning, empty shells, bellies permanently hungry, a bottomless pit. The novel is also an exploration, a search for who we are. In a context where voices are silenced, thought is imprisoned, where freedom for creativity is denied, and one finds oneself in a socio-political system that stands for everything one is not, and it takes on a life that dominates every sphere of existence, then the relationship with the self starts becoming amorphous, there is confusion; and then there is the larger existential question of who we are. The novel touches on religion, philosophy, science, poetry for this exploration. Khalid, the main character feels fragmented, compartmentalized, his search is a search for wholeness in a world he acutely feels is falling apart. The novel weaves its engaging and compelling narrative and stories through people, places, feelings, musings, reflection. Many people in its pages are not aware of the death throes of the city, and those who are, still bravely follow the thread of all the beauty and goodness they can find, from breathing in the fragrance of motia and raat kee rani to lending their ear to the breathing and voices in old houses, to working relentlessly to save a forest from land grabbers, to not giving up on love. We find people dotted in this vast and meandering tale of Lahore, like the once flowing Ravi, who carry the flame of the city in what they do, and we see that women are prominent among them; it is as if the salvation of Lahore lies primarily in women’s hands, as leaders bearing the torch whose time has come. And this is where the novel brings us to after its long journey, life does not give up, it draws sustenance even from the jaws of death, the flame of life and love and connection and care keeps burning even as the night and the shadows draw in. The city is going down, like the setting sun, however, all that Lahore is cannot disappear. Is it fading here, however, beyond the horizon, waiting to rise again, in another time?
سیانے کہتے ہیں کہ کسی بھی تخلیقی کام کو سمجھنے اس کے مقام کو جانچنے اس کی تعریف و تنقید کرنے کے واسطے آپ کو اس فن کی بنیادی سوجھ بوجھ ہونا لازمی ہے میں ٹھہرا ایک نیم خواندہ سدا کا لا ابالی متلون مزاج جو کسی بھی فن میں یکتا نا ہو سکا اور ادب کی باقاعدہ تعلیم سے محروم "بے ادب" مگر پچھلی صدی کی آخری دہائیوں میں پیدا ہونے والی نسل کے سواد اعظم کی طرح کتاب سے آشنائی بچپن سے رہی اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ آشنائی ایک زندگی بھر کے معاشقہ و رفاقت میں ڈھل گئی کسی بھی فن پارہ چاہے شاعری افسانہ ناول نما خودنوشت یا خودنوشت نما ناول کا ادبی مقام کا تعین تو نقاد کرتے رہیں گے کہ انہی کو زیب دیتا ہے مجھے تو صرف اتنا معلوم ہے کہ اگر کتاب کا پہلا صفحہ پہلی سطر آپ کو باقی دنیا سے بے نیاز نہی کر دیتی شطرنج کے کھیل کی مانند تو پھر وہ کتاب آپ کی بک شیلف کی زینت بننے کے لائق تو ہے مگر پڑھنے کے نہی 😊 اپنے کمرے کے نسبتا کم آرام دہ صوفہ پر نیم دراز جب اس کتاب کی سیر شروع کی تو پھر واپسی پورے 569 صفحات کے بعد ہی اس دفعہ میں بھی "راستے سے پلٹ نہی پایا" 🥰🥰🥰
سر اٹھا کر دیکھا تو ناجانے کتنا وقت گزر چکا تھا مجھے احساس نہی ہوا مگر کتاب کے صفحات پر لگے نشانات بتا رہے تھے کے ظہرانہ شام کی چائے اور عشائیہ بھی مجھے اس کتاب کے طلسم سے باہر نا لا سکے تھے
اس کتاب کا مرکزی کردار خالد ہر اس انسان کا ہم عصر ہے جس نے بچپن میں اپنے آبائی گھر کے "تور کوٹھے " پر چڑھ کر گڈیاں اڑایں تپتی دوپہر میں گھر والوں سے چوری گلی میں کالے پھیری والے کی رھیڑی سے نانی یا دادی کے دئے گئے پیسوں سے بھرپور عیاشی کی اور سرد راتوں کو گلی سے بیل آنڈے (بوائل انڈے ) کی صداؤں پر لبیک کہا ہم عصر ہونے کے ناطے بہت سے واقعات تجربات مشاہدات احساسات میں غیر معمولی مماثلت حتکہ بہت سے مقامات پر آپ بیتی محسوس ہونے لگتی ہے خالد کے اندر ایک صفت بھیڑیا کی بھی موجود تھی۔ بھیڑیا وہ واحد جانور ہے جسے آپ سدھا نہی سکتے مگر اسامہ نے کمال مہارت سے بھیڑیا کی خونخواری اس کی چیڑ پھاڑ کو ایک ماہر سرجن کی سرجری میں ڈھال کر اس سڑتے گلتے بدبو چھوڑتے نظام کا تفصیلی پوسٹ یا پری مارٹم کر کے کینسر کی ایک ایک جڑ الگ الگ کر کے بڑے قرینے سے میز پر سجا دی ہیں کسی انسان کو موت کے حوالے کرنا فنا ہوتے دیکھنا بہت تکلیف دی امر ہے اور کسی عہد کو کسی تہزیب کو اور اس تہزیب کے حامل کسی شہر کو غروب ہوتے دیکھنا اس بھی زیادہ تکلیف دہ اس دکھ کے احساس کو آپ جابجا بے تحاشہ محسوس کریں گے اگر آپ کتاب میں زکر شدہ (تمثیلی ) شیخ برادران نہی😊
بلا شبہہ غروب کے ہمراہ ظلمت ہی ہے مگر اس اندھیرے میں چھوٹے شاہ عمران حمید اور میاں شریف سے بے شمار چراغ بھی ٹمٹاتے اور امید دلاتے نظر آتے ہیں اور رب ء کائنات کی انسان پر سب سے بڑی مہربانی کرم امید ہی ہے🙏🏻🥰🤲🏼
"غروب شہر کا وقت" اسامہ صدیق کا دوسرا ناول ہے اسامہ صدیق کی شخصیت سے ایک خوشگواریت کا احساس ہوتا ہے۔ وکالت کی تعلیم و پیشے اور گورنمنٹ کالج، لاہور میں نے انکی شخصیت سازی میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ سونے پہ سہاگہ گھر کا علمی ماحول اور مالی آسودگی بھی ہے۔ فطرت سے قدرتی پیار، سیاحت، کثیر المطالعہ و وسیع المشرب ہونے سے انکی شخصیت میں رواداری اور توازن ہے۔ لیکن ادب کا معاملہ اس سے ہٹ کر ہے۔ اس ناول کا مرکزی موضوع شہر لاہور کا ثقافتی اور سماجی طور پر آہستہ آہس��ہ مرنا ہے۔ ماضی اور حال کا موازنہ ہے۔ سو بار چمن مہکتا ہے اور سو بار بہار آتی ہے۔ لیکن فناء کا قانون نہیں بدلتا۔ اور ارتقا کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ اس عمل کے نتائج کو کے کیسے دیکھتے ہیں یہ آپ کا حسن نظر ہے۔ شہر کی جب بھی بات ہوگی تو اتالوکلوینو کے "نادیدہ شہر" کا ذہن میں خیال آئے گا۔ اس ناول کی تفہیم کے لئے لازمی ہے کہ مصنف کا نظریہ فن کو سمجھا جائے۔ ادب کو سماجی تنقید بھی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ادیب اس سماجی تنقید کو فکشنائز کرتا ہے۔ یہاں پر آکر مصنف کو نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ناول میں پلاٹ نہ ہونے کے برابر اور کردار گہرائی سے محروم ہیں۔ (عام قاری کو کہانی اور کردار میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے)۔ زبان پر عبور قابل رشک ہے۔ ہر باب ایک اچھا نثر پارہ ہے۔ لیکن دو ابواب کے درمیان باہمی ربط ڈھونڈنا بعض جگہ مشکل ہے۔ ہر باب کا آغاز کلاسک اردو نثر پارے سے ہے۔ مرکزی کردار میں س��انحی عناصر ہیں۔ زمان ضیاءالحق کے دور سے شروع ہوتا ہے اور اختتام تک آتے آتے دور حاضر ہو جاتا ہے۔ کورونا اور انٹرنیٹ انقلاب نے معاشرے کا جو رنگ کیا ہے اس کا اجمالی ذکر ہے۔ شہر کے مرنے کی وجہ مارشل لاء ہے۔ مشرف دور کو عدالتی زبانی استعارے میں بیان کیا ہے۔ (اشرف شاد کا ناول "جج صاحب" یاد آتا ہے۔) زیادہ خوبصورتی بھی اس مقام پر ہے کیونکہ مصنف کا زندگی کا تجربہ اور دلچسپی عدالتی نظام پر ہے۔ ہر کتاب ہر کسی کے لئے نہیں ہوتی۔ اس کتاب کی تفہیم کے لئے ذہانت اور زبان پر مہارت درکار ہے۔ اس ناول کا براہ راست موازنہ خوشونت سنگھ کی دلی کے ساتھ بنتا ہے۔ دلی بقول خوشونت سنگھ باہر سے مررہی تھی اور بقول اسامہ صدیق لاہور اندر سے مررہا ہے۔ (جسکی طرف سیلم الرحمٰن نے ابتدائیہ میں اشارہ کیا ہے)۔ ضمنی طور پر وارث علوی یاد آتے ہیں جنھوں نے لکھا تھا غالب جانتا تھا کہ دلی کا اجاڑنے میں گورے بھی شامل تھے اور کالے بھی۔ دلی مسٹر سنگھ کا ماسٹر پیس ہے اور یہ انکا دوسرا ناول۔ ابھی تو ابتدائے عشق ہے۔ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ یقیناً مستقبل خوش آئند ہے۔ بک کارنر، جہلم نے اچھے انداز سے شائع کیا۔ تقریباً چھ سو صفحات کی قیمت پچیس سو روپے ہے۔ یہ کتاب آپکی لائیبریری کی زینت بننے کی مستحق ہے۔
ڈاکٹر اسامہ صدیق صاحب اپنا پہلا اردو ناول، "غروبِ شہر کا وقت"، خالد کی کہانی کو ایک بہترین داستان کی طرح پیش کرتا ہے۔ یہ ناول ہمارے معاصر دور کی عکاسی کرتا ہے جہاں خالد کا سفر ہماری حقیقت کا عکس ہے۔
اس کہانی کا مرکزی تصور ہے موجودہ سیاسی اور معاشی ہلچل کا جائزہ۔ یہ تنظیمیں کی زوال، اور سماج میں تعلیمی اور فکری بحران کو جانچتا ہے۔ ڈاکٹر اسامہ صدیق صاحب نے اس موسمِ غم میں انسانی رویے کا وسیع طیف پیش کیا ہے۔ مہربانی کو ظلم کے ساتھ جوڑتے ہوئے، طمع کو ہمدردی میں بدلتے ہوئے، اور خودیاری کو انسان دوستی کا روپ دیتے ہوئے۔
کردار اس میں مختلف ہیں، جیسے ایک کارپوریٹ وکیل جو ماتحتوں کو استحصال کرتا ہے لیکن خود کو ایک ماحولیاتی مدافع بناتا ہے، اور ایک قاضی جو عدل کو اپنی شخصی فضیلت کے لیے قربان کرتا ہے۔ یہ شخصیات، حقیقت میں موجود شخصیات کی تصویر ہیں، جن کے ساتھ خالد کی کھال ٹوٹتی ہے جو عدل کے حامی ہیں اور اپنے محلے میں مثبت تبدیلی لاتے ہیں۔
ناول میں طاقت کے دباؤ کے خلاف جدوجہد کو بہترین طریقے سے پیش کیا گیا ہے، جہاں لاکھوں افراد اختیاری غرور کے نتیجے برتے ہیں۔ اردو شاعری، معاشرتی زبان، اور ادبی حوالے کا استعمال کرکے ڈاکٹر اسامہ صدیق صاحب نے عمق میں اضافہ کیا ہے، مزید ہنسی کبھی کبھار طنزئی کے ذریعے معاشرتی پیچیدگیوں کا عمیق مطالعہ فراہم کیا ہے۔
ناول کے ناشر، بک کارنر، تیاری کی تفصیلات میں بے لوث توجہ ظاہر کرتے ہیں، جو معاصر اشاعت کے منظر نامہ میں ایک دلچسپ تجربہ فراہم کرتے ہیں۔ کوالٹی پیپر، بائنڈنگ، کور آرٹ، اور ہر سیکشن کی شروعات میں دلچسپ تصاویر جمع کرکے ایک منفرد کتاب پڑھنے کا تجربہ فراہم کرتے ہیں۔ جو آج کے اشاعتی منظر نامے میں اکثر دیکھا نہیں جاتا۔
بالکل! یہ ناول ہمیں ایک انوکھی دنیا میں لے جاتا ہے، جہاں تصورات کا پردہ ہوا، مخلوقی اور غیر مخلوقی چیزوں کا تعلق، اور مختلف حقائق کا ایک جادوئی مجموعہ بنایا گیا ہے۔ یہاں تصور اور حقیقت کا فرق بہت الگ ہے، جو پڑھنے والوں کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔
بک کارنر اور ڈاکٹر اسامہ صدیق صاحب نے اس ناول کو ایک خوبصورت طریقے سے پیش کیا ہے، جہاں ان کی ہر ایک تفصیل کو دھیان سے تیار کیا گیا ہے۔ یہ چیزیں مختلفیت پیدا کرتی ہیں جو پڑھنے کے تجربے کو ایک نوازشی یادگار بناتی ہیں۔
"غروبِ شہر کا وقت" ایک ایسی دنیا کو دیکھاتا ہے، جہاں حقیقت اور خیال میں تمام لکیریں مٹ جاتی ہیں۔ یہ کہانی اور اس کی جگہ، بک کارنر کی محنت اور ڈاکٹر اسامہ صدیق صاحب کی قوتِ فہم نے اسے ایک انوکھا ادبی مقام دیا ہے۔
تبصرہ: منظر عباس #Ghuroobesheharlawaqat #غروبِ_شہر_کا_وقت
السلام علیکم ناول : غروبِ شہر کا وقت مصنف : اسامہ صدیق
انیسویں صدی کے آغاز میں جنم لینے والے ایک فرانسیسی ادیب جراڈ ڈی نروال کا کہنا ہے کہ “فکشن ہم پر ہماری زندگی کے رنگوں اور الجھاؤ کو آشکار کرتا ہے۔ویسے بھی فکشن حقیقت کا نعم البدل ہے”۔ یہ تحریر اگر میری ہوتی تو میں کبھی اسے لفظ “ناول“ پکار کر اس کی وسعت کو کم نہ کرتا۔میرے نزدیک یہ تحریر ناول نہیں بلکہ اسامہ صدیق صاحب کا داغستان ہے۔ ایک داغستان جو رسول حمزہ توف صاحب کا ہے جو آوار زبان کی سربلندی کی ضمانت ہے۔یہ دوسرا داغستان “اسامہ صدیق کا داغستان “ہے۔یہ اردو زبان کی وسیع القلبی کا بیانیہ ہے۔اس ایک کتاب میں آپکو اسامہ صدیق صاحب تکرار کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ شاعر ، ناول نگار ، افسانہ نگار ، ناقدین سبھی سے اسامہ صاحب تکرار کرتے پائے جاتے ہیں۔کبھی آپ اس تحریر کو ناول سمجھنے لگتے ہیں ،کبھی افسانوں کا مجموعہ اور کبھی تو یہ تحریر خودنوشت کی شکل میں ڈھل جاتی ہے۔ انتہا تو اس وقت ہوتی ہے جب بعض مقامات پر زماں کا سفر نامہ بھی دیکھائی دیتی ہے۔اس کتاب پر بہت گفتگو ہو سکتی ہے۔اس کی نثر پر گفتگو ہو سکتی ہے ، اس کے بیانیے پر بات کی جاسکتی ہے، پلاٹ اور متن وغیرہ کو بھی کسی ادبی مجلس میں بیٹھ کر زیر گفتگو لایا جا سکتا ہے۔
مجھے یہ تحریر ایک حقیقت پسندانہ فکشن محسوس ہوئی۔ایسا فکشن جس میں بیان کردہ واقعات کو حقیقت پسندانہ بنانا ہے۔اس میں ایسے کردار بنے گئے ہیں جو ماحول میں حقیقی معاشرتی پریشانیوں کے ساتھ ترقی کرتے دیکھائے گئے ہیں۔جیسے ایک انسان وقت کے بہاؤ کے ساتھ اپنی تمام تر پریشانیوں کے ہوتے ہوئے بھی بس بہتا چلا جاتا ہے ٹھیک ویسے ہی اس کتاب میں موجود تمام کردار تمام پریشانیوں اور رکاوٹوں کو سر کرتے وقت کے بہاؤ میں بہتے چلے جاتے ہیں۔طیبہ خالہ کا کردار ان تمام باتوں کی عین ترجمانی کرتا دیکھائی دیتا ہے۔
اس کہانی کا مرکزی کردار خالد ہے۔ جو برائے راست کہانی کو بیان کرتا ہے۔ یہ واحد کردار ہے جو قاری سے مخاطب ہے۔مخاطب اپنی ساری داستان حیات سنا دینے کے بعد بھی مکمل دیکھائی نہیں پڑتا۔قاری کی تشنگی ، اس کا تجسس کتاب مکمل ہونے کے بعد بھی برقرار رہتا ہے۔عموماً ایسا دیکھنے میں نہیں آتا۔میرے نزدیک خالد کو مزید کھل کر سامنے آنا چاہیے تھا۔کتاب میں کہیں کہیں پلاٹ بکھرتا دیکھائی دیتا ہے جو شاید اسی پردے کی وجہ سے ہو۔اس پردے نے مصنف کو دوسری اطراف دیکھنے پر مجبور کیے رکھا ہے۔خالد کی وجودی ہئیت محدود آزادی کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔حالانکہ مجھے لگتا ہے کہ کم سے کم مرکزی کردار کی وجودی ہئیت کو لامحدود آزادی دینی چاہیے۔ (میرا ذاتی خیال ہے)۔ عاصم کی زندگی کو بھی بہت کریدا نہیں گیا۔طیبہ خالہ کا کردار اپنے موضوع کے اعتبار سے تمام کرداروں پر بھاری تھا۔ مجھےا س ناول میں دوسری کمی یہ لگی کہ اس میں کرداروں کی موضوعاتی اور تصریفاتی صحت میں یکسانیت نہیں تھی۔اسی وجہ سے مجھے لگتا ہے کہ اکثر قارئین کو طیبہ خالہ کے کردار کی پسندیدگی باقی کرداروں سے زیادہ متاثر کرے گی۔ جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ایک کردار قاری کی ساری توجہ خود میں سمیٹ لیتا ہے اور دوسرے کرداروں کی حیثیت ضمنی رہ جاتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ کتاب میں موجود کہانی ، متن اور پلاٹ پر بھی گفتگو کروں لیکن انسٹا والے بہت ظالم اور کنجوس ثابت ہوئے ہیں۔ اس لیے اجازت چاہوں گا۔(چونکہ یہ تبصرہ انسٹا گرام کے لیے لکھا گیا تھا)آخر میں بتانا چاہوں گا کہ اس کتاب کو ضرور خریدیں اور لطف اندوز ہوں۔مجھے اسے پڑھتے ہوئے بہت لطف آیا۔ سلامتی اور شکریہ 😇
I really enjoyed this novel. Lyrical and poetic as it is, and summons the spirit of a city I recognise, admire and love, mourn too. Beautifully written, intelligent and hilarious! I loved the tongue in cheek humour, the sly and cunning digs and sarcasm. It was all so very entertaining. Bravo!
Ghurobe Shehar ka Waqt is a unique story written in more of a scientific manner while exploring the factors responsible for the decay of a city, which of course corresponds to the overall decadence in social and political lives of the people in the land of pure. From the very first page the reader embarks on a multi-layered journey of discoveries and explorations, which culminates into a new journey at the end when the protagonist of the novel makes a resolve not to rescind no matter what. While reading the novel, like many other classic novels, it initiates an inner dialogue to question the genealogical, psychological, sociological and to some extent the biological scripting to make oneself more aware of his/her own thoughts. The author challenges the ways his readers tend to look at things and helps to build a world view that is built without discarding the older ones quite constructively. The genre of the novel is very hard to determine. It is an exquisite interplay of fiction and aesthetics interspersed with poetry and prose extracts from some renowned litterateurs, and of course one can see some splashes of the uncanny humour. Language of the novel is common and figurative connecting the rhetoric with the audience by bringing the author and the reader to the same ground by aligning their experiences. And why do I call the tone more scientific, because factors and variables that were leading towards the sad demise of the culture of the city were enumerated, analyzed and meticulously narrated with appropriate allusions in the anecdotes, bringing their decadence to surface in political, judicial, educational and social arenas. A strong narrative is built not only by the expositions of the human situations but expressing them from a myriad of perspectives (first, second and third person perspectives) to bring some more depths of the situation to the fore. From contempt of the donor countries to flawed policy making, from a complete debacle of the judicial system to hypocrisy and growing nepotism, there is an all-out effort to create rifts and misperceptions in society which leads to crumbling of the values which were once very dear to the protagonist of the novel and is deeply touched by the mere veneer that is left in the name of culture and values. He narrates the stories from his childhood and adolescence years quite longingly as he gets more and more aware of the poignant passing of time. While narrating the times of his adulthood, he grows more indifferent to the norms as the underlying moral decay leaves only a façade which he does not find desirable and prefers to become a recluse. He visualizes the dismal state of affairs in future which he perceivesin the light of the past. That appeals to the inner imperative of the reader to not only become conscious of them but commit to the preservation of the values. He nostalgically recalls the nuances of a bygone era which has been trampled over by the blatant use of technology. This technology promises its preservation but on the contrary hell bent on destroying it on the other hand. One expects to make life more meaningful as one grows old, but at the hands of “institutions” in a society which ensure the development of human thought, the world is falling apart all around due to their adhocism and become more coercive. This aspect of the novel compels me to compare it with 1984 by George Orwell, though I am not in favour of it. It seems as the novel is a prequel to the Orwellian dystopia in the post-apocalyptic future, the trends that are identified by the author would end up there. The novel grows on the reader's mind gradually and before one knows, the reader is in full grip of the script. It evolves with the reader or the reader evolves with it, the distinction is hard to make. That makes the script more lively and dynamic, one would never put it down unless it finishes.
بک فیئر سے یہ کتاب خریدی تو اپنی ماضی کی عادت سے مجبور ایک ہی دن میں پڑھ ڈالی ۔ میرا پہلا مشورہ تو یہ ہے کہ یہ ناول ایک دن میں پڑھنے کا بالکل نہیں ۔ یہ ناول اس بات کا متقاضی ہے اور مستحق بھی کہ کافی کی میز پر دھرا ہو اور ہر روز شام کو کافی یا چائے پیتے وقت غروب آفتاب کے ساتھ غروب شہر کے وقت کو بھی پڑھا جائے ۔ بھلے ترتیب سے نہیں ۔ میں نے اس ناول پر بہت سے لوگوں کا تبصرہ پڑھا کہ یہ ایک شہر کی کہانی ہے خدا جانے یہ میری کم عقلی ہے یا کم نصیبی کہ مجھے یہ شہر کی کہانی بالکل محسوس نہیں ہوئی۔ اسامہ کو جتنا میں نے پڑھا ہے اس کی ہر کہانی انسانوں کی کہانی ہے ۔ شہر ، پرانے مکان اور درخت سب معتبر ہیں لیکن انسانوں سے ان کے تعلق کے حوالے سے، اگر یہاں لاہور اس ناول میں جگہ جگہ بکھرا ہوا ہے تو اس وجہ سے کہ وہ خالد، طیبہ اور عاصم کا شہر ہے اور انہی کے تعلق کے حوالے سے معتبر ہے ۔ اس ناول میں جگہ جگہ کتابیں بکھری پڑی ہیں ۔ کلاسیکی کتابوں کے اقتباس جس میں طلسم ہوشربا اور بیتال پچیسی کے ٹکڑے بہت برجستہ لگے لیکن نثر کے بہاو میں ہر جگہ کسی کردار یا کسی مصنف کا فن ہمارے سامنے آجاتا ہے ۔ یہ ناول ایک کتابوں سے عشق کرنے والے انسان کی تحریر ہے اور یہ عشق اردو سے لے کر انگریزی و فرانسیسی زبان تک پھیلا ہوا ہے روسی زبان کے کلاسیکی ادب کے حوالے بھی ہیں لیکن کم ۔ "تب" اور "اب" کے درمیان صرف ایک بار "وقت" کا وقفہ آتا ہے ۔ "تب" کا حوالہ ماضی کی یادیں ہیں حسین بہت سے کردار گمنام ہیں لیکن سبھی خوبصورت۔ یہاں کردار سازی کی تکنیک فلم سے زیادہ متاثر ہے کہ ہر کردار تھوڑی دیر کو پردے پر آتا ہے اور پھر غائب۔ اس لمحے میں مصنف کے کیمرے کا ارتکاز اس پر ہے لیکن بعد میں نہیں ۔ "اب" میں کردار نہیں caricature بکھرے پڑے ہیں چاہے وہ مرزا نوریز احسن ہوں، قاضی الاول ہوں، یا مرزا کموڈوی ، قاضی نجم اور قمر۔ ایسے خاکے جن کو پڑھنے والے حقیقی کرداروں سے جوڑ سکیں لیکن طنز کو حقیقت سے اتنا دور رکھا گیا کہ کل کو توہین کا پہلو نمایاں نہ ہو۔ اس ناول میں چار پوائنٹ آف ویو کردار ہیں خالد، طیبہ ، عاصم اور عمران سعید ۔ اس میں خالد سب سے نمایاں کردار ہے ۔ خالد ایک عجیب کردار ہے اس کتاب میں آپ اس کے بارے میں سب جانتے ہیں لیکن کچھ بھی نہیں جان پاتے۔ وہ مشنری سکول میں پڑھا، گورنمنٹ کالج میں اور پھر وکیل بن گیا۔ وہ اپنی ننھیال میں پڑھتا رہا۔ ہم سب کچھ اس کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں لیکن وہ کہیں کھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے نہیں آتا۔ کھل کر نہیں بتاتا ۔ ہم اس کی نو ناکام محبتیں دیکھتے ہیں لیکن اس کی رومانوی زندگی کو پوری طرح جان نہیں پاتے۔ اس ناول میں ہر جگہ ایک دکھ ہے۔ رائگانی کا دکھ لیکن وہ مزاح کی ایک لطیف تہہ میں لپٹا ہوا ہے ۔ چاہے وہ ریٹائرڈ جنرل کے ناول کے پلاٹ کی کہانی ہو یا قاضی اول کی گاڑیوں پر بتیاں لگانے کا معاملہ ہو ۔ ہر جگہ ہمارے نظام پر ایک طنر ہے لیکن یہ کسی باہر والے (outsider) کا نہیں بلکہ اس معاشرے کا حصہ ایک شخص کا طنز ہے جو اس دکھ سے متاثر ہے اور اس کا حصہ بھی۔ دو چیزیں جن کو شاید اس کتاب کے کمزور پہلو کہا جا سکے ۔ اس میں ایک تو یہ کہ خالد کا بیان " first person narrative " ہے اور ایک اور کردار جس کا عنوان "کبھی کہیں کبھی کہیں " ہے وہ بھی ایسا ہی ہے لیکن باقی تینوں کردار third person narrative میں کہانی بیان کرتے ہیں ۔ یہ تکنیکی اعتبار سے ایک مشکل تکنیک ہے۔ اسی طرح کتابوں کے حوالوں کی بہتات کا مطلب یہ ہے کہ یہ تحریر ایک وسیع المطالعہ شخص کے لئے ہی مکمل طور پر بامعنی ہے۔ شاید مصنف کی منشا بھی یہی ہو ۔ ایک جگہ کتابت کی غلطی سے مرزا افکار الاحسن کو مرزا اعجاز الاحسن لکھا گیا ہے۔ ویسے تو یہ معمولی غلطی ہے لیکن موجودہ حالات میں تھوڑی سی حساس بھی ہے ۔ اس ناول کا سب سے خوبصورت کردار طیبہ خالہ کا ہے۔ خالد کی ان سے عقیدت کی سطح کی محبت ہر حساس دل والے انسان کو متاثر کرتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ایک دن اس کردار کا حوالہ اسی طرح ہمیں بہت سے ناولوں میں نظر آئے گا جیسے اسامہ نے بہت سے ادب کے کلاسیکی کرداروں کے حوالے دیئے ہیں ۔ وحیدہ واحد کی نظمیں اس ناول کی پوشیدہ خوبصورتی ہیں ۔ مجھے خوشی ہو گی اگر ان کا کلام مطبوعہ شکل میں سامنے آئے ۔ پس تحریر ۔۔۔ خوبصورت طباعت اور کاغذ کے باوجود یہ ناول اپنی موجودہ قیمت میں کچھ مہنگا ہے۔ کاش اس کا پیپر بیک بھی سامنے آسکے۔
روسی فلم ساز آندرے تارکووسکی کی کوئی فلم دیکھی ہے آپ نے؟ ایوانز چائلڈہُڈ، ناسٹیلجیا یا سوالارس یا کوئی اور؟ تارکووسکی کی فلمی دنیا ایک منفرد حیرت کدہ ہے، ایک نشہ، ایک بار آپ تارکووسکی کے سحر میں جکڑے جائیں تو پھر اس کا ہر ایک جملہ اور ہر ایک منظر آپ پر حیرت کا ایک نیا باب وا کرتا جائے گا۔ اس کا بنائی ہوئی فلمیں پردہ سکرین پر وژول شاعری ہیں۔ اس سب کا اسامہ صدیق کے ناول “غروبِ شہر کا وقت” سے کیا تعلق؟ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ناول کا مطالعہ مکمل ہوا ہے، کتاب میز پر رکھی ہے اور ایک گہری سانس لی، خود کو یقین دلایا کہ ابھی میں زندہ ہوں۔۔۔ ایک نوحہ مرتے ہوئے شہر کا، جسے پنجاب کا دل کہتے ہیں، اپنی آخری سانسیں گن رہا ہے، دھڑکنوں کی بے ترتیبی ہے، جیسے آئی سی یو وارڈ میں موت کا منتظر کوئی لاوارث مریض، جس کے ایک ایک اعضا دھیرے دھیرے کام کرنا چھوڑ رہے ہیں۔ یا پھر ایک عالیشان عمارت، جس کی بنیادیں اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہیں، دیواریں اور چھتیں دیمک زدہ ہیں، سیلن زدہ چوبارے دھڑام سے کسی لمحے زمیں بوس ہوسکتے ہیں، فرش خوں آلود اتنا کہ سیاہ، لیکن بیرونی حالت یوں کہ دیکھنے والے فن تعمیر اس پر دنگ رہ جائیں، انہیں کیا معلوم کہ ماضی کا یہ عالیشان محل اندر سے مر چکا ہے اور محض ایک دکھاوا ہے یا نظر کا دلکش دھوکہ جو ہم دیکھ سکتے ہیں لیکن محسوس کرنے سے عاری۔ “غروبِ شہر کا وقت” یہی داستان سناتا ہے۔ مصنف ہمیں اپنے بچپن میں لے جاتا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ ہم اس شہر کو بنتے بگڑتے محسوس کرسکتے ہیں، گلی، محلوں، سڑکوں، باغوں سے گھومتے ہوئے ہم ایوان عدل کی راہداریوں سے گزرتے ہوئے یہاں تک پہنچتے ہیں جہاں اب یہ شہر اپنی آخری سانسیں گن رہا ہے۔ دھیرے دھیرے، مختصر مکالمے، خوبصورت بیانیہ، منظر نگاری، شاعرانہ انداز، جیسے کیمرے سے بنائے گئے سلوموش، لانگ پین شاٹس! جیسے الفاظ آپ کے اندر اتر رہے ہوں۔ ایک جیتا جاگتا شہر ہمارے سامنے موت کی جانب بڑھ رہا ہے، یہاں کی سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی تاریخ کیسے تخت و تاراج ہوئی، تہذیب اور ثقافت کا گلا کیسے گھونٹا گیا، تاریخ کی کتابوں میں تو آپ کو ساری معلومات مل جائیں گی لیکن ایک جیتے جاگتے شہر نے اس دوران کیسا محسوس کیا، وہ اسامہ صدیق کے کرداروں نے ہمیں بتایا ہے۔ اس ناول کے تقریباً 570 صفحات ہیں۔ تارکووسکی کی فلموں کی طرح اس میں کہانی کہیں پیچھے رہ جاتی ہے اور ناول نگار آپ کو اپنی دنیا میں لے جاتا ہے، وہ دنیا جو یہیں ہمارے اردگرد موجود ہے لیکن جس سے ہم روزانہ نظریں چراتے ہیں یا اس کو دیکھ کر ان دیکھا کر دیتے ہیں، یہی اس ناول کی خوبصورتی ہے کہ یہ قاری کو بوریت کے عنصر سے دور رکھتی ہے، کردار متعارف ہوتے ہیں اور مرکزی کردار کے ساتھ چلتے جاتے ہیں۔ وہ مرکزی کردار کوئی بھی ہو سکتا ہے، آپ، میں یا کوئی بھی باشعور شہری جس نے اس شہر میں کچھ زندگی گزاری ہو، باقی سبھی کردار بھی ہمارے اردگرد موجود ہیں۔ یہ ناول موجودہ دور میں شائع ہونے والے اردو ناولوں میں ایک بہترین ناول ہے جو آپ کو خود پڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔
اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ پرانے مکان سانس نہیں لیتے۔ لیکن یہ وہی لوگ ہیں جنکا یہ بھی خیال ہے کہ بارش صرف گرتا ہوا پانی ہے۔ سائے فقط روشنی کی راہ میں رکاوٹ کا نتیجہ۔ اور پرندے آپس میں باتیں نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں سے اجتناب کیجیے۔ ان کے لیے زندگی ایک آجر کا بہی کھاتہ ہے۔ جس میں موسموں، محسوسات اور خوابوں کے لیے کوئی متعین کالم نہیں ہیں۔ چنانچہ وہ انکے ہاں کوئی بھی وقعت نہیں رکھتے۔
اسامہ صدیق صاحب نے ہاتھ پکڑا اور کہا اؤ تمہیں پرانا لاہور دکھاؤں جو آج کے لاہور جیسا بلکل بھی نہیں اُس لاہور کی فضاء بھی سانس لیتی تھی اور آج کا لاہور تو خود ہی مر رہا ہے. اسامہ صاحب پے مجھے پورا یقین اس لیے بھی تھا کہہ انہوں نے اپنے پچھلے ناول "چاند کو گُل کرو تو جانیں" کے توسل سے کتنے ادوار کی بڑی ہی خوبصورتی سے یاترا کروائی تھی. اب کی بار بھی انہوں نے مایوس نہیں کیا. اس ناول کا سب سے بڑا المیہ یہ ہی ہے کہہ جس شہر سے ہم محبت کرتے ہیں وہ شہر اب مر رہا ہے انساں مرتا دیکھا جا سکتا ہے مگر شہر مرتا دیکھنا بڑے دل گردے کا کام ہے. جو کوئی بھی سردی کی راتوں میں اچھی کہانیوں کی لذت سے واقف ہے تو یہ ناول "غروبِ شہر کا وقت "لازم ہے باقی آپ کی مرضی. #Osama Siddique Gagan Shahid
کتاب: غروبِ شہر کا وقت مصنف: اسامہ صدیق تبصرہ نگار: محمد سدیس ربانی
" غروبِ شہر کا وقت" موجودہ عہد کے نامور ناول نگار " ڈاکٹر اسامہ صدیق" کا دوسرا ناول ہے جو ستمبر 2023 میں شائع ہوا ہے. ناول کو ادبی حلقوں میں بہت پذیرائی ملی اور جلد ہی جنوری 2024 میں اس کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہو گیا. ایک اچھی ادبی تخلیق کیا ہوتی ہے ؟ ایک ایسی کتاب جس میں آپ خود مصنف کے ساتھ ساتھ سفر کریں ؟۔۔۔ تو " غروبِ شہر کا وقت" ایک ایسی ہی شاندار کتاب ہے جس میں قاری مکمل طور پر گم ہو جاتا ہے.اگر آپ سہل پسند ہیں اور جلد باز ہیں تو ناول کا مطالعہ نا کریں. بطورِ قاری اگر کوئی ناول آپکو بےقرار کر دے اور اداس کر دے تو میرے خیال میں ایک عمدہ فکشن ہے. " غروبِ شہر کا وقت" آیک ایسا منفرد ناول ہے جس میں " اسامہ صدیق" نے لاہور شہر کا نوحہ لکھا ہے. وقت کی ناؤ میں مختلف حالات و واقعات سے گزرتا ہوا شہر جس کی صدیو پرانی روایات اور اقدار کو وقت کے ساتھ ساتھ مفاد پرستوں نے مفاد کی خاطر ثقافتی ، اخلاقی اور تہذیبی حوالے سے نقصان پہنچایا.ناول میں مصنف آپکو " خالد" کے روپ میں دکھائی دیتا ہے جو ایک حساس اور مادی دنیا کے سے ذرا مختلف مزاج آدمی ہے جو شہر اور شہر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کے اجڑنے پر نوحہ کناں ہے. ناول کے کردار انتہائی شاندار اور خوبصورت طریقے سے پیدا کئے گئے ہیں جن میں طرح طرح کے خیالات ، سوچ اور نظریات کے لوگ سامنے اتے ہیں. مصنف نے کرداروں کو علامتی طور پر استعمال کر کے معاشرے کے اچھے برے لوگوں کی نفسیات کو بیان کیا ہے " طیبہ خالہ" کا کردار ایک ہمت اور جرات کا استعارہ ہے. معاشرے کا ایک ایسا فرد جو اپنے آپ میں ایک بے قرار روح اور انسانیت کی ہمدرد ہے. جس کو معاشرے کے نام نہاد کبھی مذہب کے نام پر تو کبھی اقتدار کی ہوس میں ہمیشہ پیچھے دھکیل دیتے ہیں. "ڈاکٹر نوریز احسن " " قاضی اول " اور اس طرح کے مفاد پرست اور نام نہاد محبان وطن کے کرتوتوں اور ان لوگوں کی ذہنی اور علمی ترجیحات کو بیان کیا ہے. " عمران حمید" اور " چھوٹا شاہ" جیسے لوگ جو جانے کہاں سے آئے اور کہاں جائیں گے ان لوگوں کی علامت ہیں جو زندگی کے دکھ درد اٹھاتے اپنے حصے کا کام کرتے رہتے ہیں. " ایڈوکیٹ ستارہ بانو" جیسے حقیقت پسندانہ کردار کے ذریعے معاشرے کی عورت کی کوشش اور ان کی علمی و عملی ترجیحات کو پیش کیا گیا ہے. مصنف نے اس طریقے اور انہماک سے شہر کے لوگوں کے حالات و واقعات اور مقامات کی نشاندہی کی ہے کہ کئ مقامات پر آپکو یہ ناول مصنف کی آپ بیتی یا سرگزشت نظر آئے گا. اس کے ساتھ ساتھ ناول میں مختلف مقامات پر اشعار اور نظموں کے ذریعے کہانی کا حسن مزید بڑھایا گیا ہے. مختصراً ۔۔۔ " غروبِ شہر کا وقت" ایک شاندار ادبی تخلیق ہے. چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
1: " اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ پرانے مکان سانس نہیں لیتے. لیکن یہ وہی لوگ ہیں جن کا خیال یہ بھی ہے کہ بارش صرف گرتا ہوا پانی ہے. سائے فقط روشنی کی راہ میں رکاوٹ کا نتیجہ اور پرندے آپس میں باتیں نہیں کرتے. ایسے لوگوں سے اجتناب کیجئے. ان کے لئے زندگی ایک اجر کا بہی کھاتا ہے"
2: " وقت سیدھی لکیر نہیں ہے. وقت گنجلک ہے. ماضی حال سے پیوستہ ہے. ایک حد تک اس کا تعین بھی کرتا ہے. ماضی حال کے لئے ایک مشعل بھی ہے. اس کی تشریح بھی. اور حال کے ذریعے ماضی کا تانا بانا مستقبل سے جا ملتا ہے۔ لا تعداد واقعات کے لا تعداد امکانات ، لا تعداد مستقبل پیدا کر سکتے ہیں۔ حالانکہ یہ درست ہے کہ وقت ایک جیسا نہیں رہتا. لیکن بالکل بدل بھی تو نہیں جاتا. تاریخ اکثر اپنے آپ کو دہراتی ہے. کیا یہ درست ہے ؟ یا محض ہمارا گمان ؟"
3: " کوئی کبھی بھی کسی کی بھی زندگی کا پوری طرح سے احاطہ کیسے کر سکتا ہے؟ کیا کوئی اپنی زندگی کی پوری طرح سے احاطہ کر سکتا ہے؟ زندگی میں بیتا ہوا کتنا بہت کچھ تو ویسے ہی بھول جاتا ہے. اور پھر ایسا بھی بہت کچھ ہوتا ہے جسے ہم جان بوجھ کر خود ہی نسیان کی مٹی میں دفن کر دیتے ہیں. فراموش کر دیتے ہیں ایسا سب کچھ جو ہمیں دکھ دیتا ہو.شرمندہ کرتا ہو. یا پھر خوفزدہ۔ اور ہم اپنے اپ پر اکثر اتنا بہت کچھ طاری بھی تو کر لیتے ہیں. خواب۔ تصورات۔ خواہشیں۔ حسرتیں۔ اور گمان۔ حقیقت اور خود ساختہ فسانوں میں کئی دفعہ کم ہی فرق رہ جاتا ہے. فسانہ حقیقت سے زیادہ اصلی معلوم ہوتا ہے اور حقیقت ایک فسانہ"
احباب" یہ کتاب " بک کارنر جہلم" سے شائع ہوئی ہے. آپ بھی پڑھیں اور لطف اندوز ہوں.
جسطرح ایک زیرک قانون دان کے ہاتھوں قانون کی گرہیں کھلتی ہیں اسی طرح ایک بڑے لکھاری کے قلم کی نوک سے الفاظ معانی کے گوناگون پیراہن سے آراستہ ہوتے ہیں۔ اسامہ صدیق کا ناول غروبِ شہر کا وقت پڑھنے سے پہلے میرے نزدیک غروب صرف سورج ہی ہوا کرتا تھا اور سورج کا یہ غروب روشنی کے ایک سفر کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ایک نئی صبح کا پیغامبر بھی ہوتا تھا۔ لیکن ان کے ناول غروبِ شہر کا وقت کی ورق گردانی نے غروب کے نئے معانی کھولے کہ صرف سورج ہی نہیں بلکہ انسانی بستیاں بھی غروب ہوتی ہیں اور ہنستی بستی بستیوں کا یہ غروب غروبِ آفتاب کیطرح کسی سفر کی تکمیل نہیں بلکہ ان بستیوں کے باسیوں کے اپنے ہاتھوں بستیوں کے زوال کی علامت ہوتا ہے۔
اور کمال یہ ہے کہ اسامہ صدیق نے زوال کے اس سفر کی تمام جہتوں کو اپنے قلم کی نوک سے آشکار کیا ہے اور اپنے قاری کے گوش گزار کرنے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح سرمایہ دارانہ نظام کی دھن “زیادہ سے زیادہ پیدا کرو” پہ دیوانہ وار ناچتے ہوئے نہ صرف انسانوں نے اپنی روح کو گھائل کر لیا ہے بلکہ اپنی دھرتی ماتا کے حیات افروز چشمے پھوٹتے ہوئے سینے پہ بھی وہ ضربیں لگائی ہیں کہ ایک طرف دھرتی کو فطرت کی طرف سے بخشی گئی تمام رعنائیوں سے محروم کر دیا گیا ہے اور دوسری طرف حیات کے سارے چشمے مسدود کر کے انسان زر و سیم کے ڈھیر پر بیٹھ کر ایسی گھٹن کا شکار ہوا ہے کہ چند حیات بخش ہوا کے جھونکوں سے بھی محروم ہو گیا ہے۔
ایک منفرد کتاب، خود نوشت کی سی چاشنی لئے ہوئے، ایک محبوب شہر لاہور کے حوالوں سے بھرپور ۔۔۔۔۔
چار، پانچ مہینے ہوگئے ہیں شروع کئے ہوئے ۔۔۔۔۔ جستہ جستہ پڑھ رہا، کھڑک چائے کی چسکیوں کی طرح کہ مبادا کہیں ختم نہ ہو جائے ۔۔۔۔۔۔
اگر آپ کو شہروں کی زندگی اور اس زندگی کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات سے شغف ہے تو یہ ناول ضرور پڑھیں۔
لاہور کے چاہنے والے تو ضرور بالضرور پڑھیں۔ بسنت اب اگرچہ لاہور کی فضاؤں سے بزور غائب کروائی گئ لیکن بہار اور رنگوں کے اس موسم میں آپ تخیل میں اسی لاہور ہیں جا پہنچیں گے اور اپنے آپ کو ڈھونڈتے پاۓ جائیں گے۔ گم ہو جائیں گے ایک ایسے لاہور میں جو کہ اب صرف یادوں میں زندہ ہے۔
یہ ناول نہیں بلکہ ایک ایسے مرتےہوۓشہر کا نوحہ ہے جو شہروں میں اپنی مثال آپ تھاجس کو اجاڑنے میں اس کے باشندے،حکومت اور انتظامیہ سب نے حصہ ڈالا۔ناول کاہرکرداراپنی جگہ منفرداور دلچسپ ہےہر ایک مختلف کہانی بیان کرتاہےیہ ہمارے معاشرے کی تمام براٸیوں کا آٸینہ دار ہے ۔یہ ایک وسیع المطالعہ شخص کی بہت ہی دل گداز اور پراثر تحریر ہے جو ہمیں اس بات سے آگاہ کرتی ہے کہ اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو ہم اپنا یہ مسکن تباہ کربیٹھیں گے