Jump to ratings and reviews
Rate this book

Naulakhi Kothi / نولکھی کوٹھی

Rate this book
تقسیم ہند پر لکھے گئے بہت سے ناولوں کے برعکس نولکھی کوٹھی کی کہانی ہندو مسلم دشمنی نہیں، کچھ اور ہے۔ یہ انگریز دور کے پنجاب میں شروع ہوتی ہے اور تقسیم کے فسادات کی جھلک دکھاتی ہوئی ضیا دور تک کھنچتی چلی جاتی ہے۔ اس کا علاقہ غیر منقسم پنجاب کا وسط یعنی فیروز پور کی تحصیل جلال آباد ہے جو اب بھارت کا حصہ ہے۔
ناطق کا کہنا ہے کہ ناول کے آدھے سے زیادہ کردار حقیقی شخصیات پر مبنی ہیں۔ کچھ شخصیات اپنے اصلی نام کے ساتھ ناول میں موجود ہیں۔ ناول کو انجام تک پہنچانے کے لیے آخر میں ناطق خود بھی سامنے آجاتے ہیں۔

432 pages, Hardcover

First published January 1, 2014

62 people are currently reading
731 people want to read

About the author

Ali Akbar Natiq

19 books52 followers
Ali Akbar Natiq began working as a mason, specializing in domes and minarets, to contribute to the family income while he read widely in Urdu and Arabic. Acclaimed as one of the brightest stars in Pakistan's literary firmament, Natiq has published two volumes of poetry and one collection of short stories.

अली अकबर नातिक़ का जन्म 1976 में ओकारा, पाकिस्तान में हुआ था। मैट्रिक करने के बाद उन्होंने अपने परिवार के गुज़ारे के लिए एक राजमिस्त्री के रूप में काम करना शुरू किया और गुंबदों और मीनारों के माहिर मिस्त्री बन गए। उन्होंने उर्दू और अरबी साहित्य खूब पढ़ा और प्राइवेट से बीए की डिग्री हासिल की। उन्होंने उर्दू पत्रिकाओं में अपनी शुरुआती कहानियों और कविताओं के प्रकाशन के साथ ही साहित्य की दुनिया में अपना खास मुकाम बना लिया। उन्हें उर्दू में लिखने वाले बेहतरीन युवा लेखकों में से एक माना जाता है।

Ratings & Reviews

What do you think?
Rate this book

Friends & Following

Create a free account to discover what your friends think of this book!

Community Reviews

5 stars
84 (40%)
4 stars
64 (31%)
3 stars
31 (15%)
2 stars
8 (3%)
1 star
19 (9%)
Displaying 1 - 30 of 51 reviews
Profile Image for Salman Khalid.
106 reviews86 followers
October 13, 2018
خلاف توقع کافی اچھا لکھا ہے ہمارے دیسی پولیمیتھ صاحب نے۔ پڑھتے ہوئے بلونت سنگھ کی یاد تازہ ہوگئی۔
ناول ضلع فیروزپور کے دیہات اور انگریز بیوروکریسی کے پس منظر میں لکھا گیا ہے جو انگریز سول سروس، مقامی وڈیروں کی غنڈہ گردی، تقسیم کے وقت کے فسادات، مہاجرت اور قیام پاکستان کے بعد سول سروس کی بتدریج تنزلی کے گرد گھومتا رہتا ہے۔
بنیادی طور پر کہانی کو انگریز کمشنر ولیم کی سوانح کہہ لیں جو بھلا مانس ہندوستان کو غلام نہیں اپنی مٹی سمجھنے لگتا اور کمشنر بن کر انگریز حکمرانی کے روایتی اصولوں سے روگردانی کرنے لگتا ہے اور جس پر انگریز سرکار کے عتاب کا شکار بھی ہوتا رہتا ہے۔ آزادی کے بعد پاکستان چھوڑ کر جانے سے انکار کردیتا ہے اور پھر اس کا 'سواد' بھی پاتا ہے۔ ولیم کے بڑھاپے اور موت تک کے واقعات ملکی افسر شاہی کا مکروہ مگر سچا چہرہ عیاں کرتے ہیں کہ کس طرح عوام کی بجائے تمام کارِ سرکار محض اپنی ذات، انا اور ذاتی ترقی کے گرد گھومتا رہتا ہے اور بے بس انسان مزید بے بسی کے جال میں پھنستا جاتا ہے۔
ناول کے دیگر کرداروں میں البتہ کوئی خاص جاذبیت محسوس نہیں ہوئی اور شاید پہلا ناول پڑھا ہوگا جس میں بس ہیرو ہی ہیرو ہیں، ہیروئن کوئی نہیں۔ تحریر لکھنے کا انداز رواں اور منظر نگاری بھی کافی پسند آئی۔
اگر ناطق صاحب متنازعہ انٹرویوز اور سستی شہرت کی بجائے ایسا ہی پاپولر فکشن لکھتے رہیں تو ادب میں اچھا نام بنا لیں گے۔
پس نوشت: کتاب عزیزم نوید مسیح کا تحفہ ہے جس پر ان کا ڈھیروں شکریہ۔
Profile Image for MI Abbas.
72 reviews30 followers
August 28, 2021
ناول نولکھی کوٹھی پڑھتے وقت مجھے لگ رہا تھا کہ علی اکبر ناطق کی کردار نگاری حقیقت سے اس قدر قریب تر ہونےکے باوجود اس میں کوئی ایسا کردار نہیں جو میرے اعصاب پر اپنے گہرے نقوش چھوڑ سکے۔ مگر آخری چند ابواب نے میری رائے بدل کر رکھ دی۔

ناطق اپنے کرداروں کی خامیوں اور خوبیوں کو بیان نہیں کرتے بلکہ انکے کردار اپنی پہچان اپنے اٹھائے ہوئے ایک ایک قدم سے، اپنے رہن سہن سے، پہناووں سے اور بات چیت کے انداز سے خود کرواتے ہیں۔ ناول میں مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے بیشمار کردار ابھرتے ہیں۔ کردار ہی کے طور پر اس میں جناح صاحب جیسی قد آور شخصیت کی بھی آمد ہوتی ہے۔ ابواب نہ صرف مختصر اور دلچسپ ہیں بلکہ جہاں دلچسپی کا عنصر ذرا سا ماند پڑنے لگتا ہے کہانی کسی دلکش رخ پر بہنے لگ جاتی ہے۔

منظر نگاری ایسی باکمال ہے کہ قاری ایک صدی قبل کے پنجاب کو اپنی نگاہوں کے سامنے جیتا جاگتا دیکھنے لگتا ہے۔گھر محلے، گاؤں قصبات، بازار مسجد، کھیت کھلیان، نہریں پھول پودے، رسم و رواج اور اس دور کے محکوم مسلمانوں اور سکھوں کی مخصوص نفسیات کا بھی نہایت باریکی سے تجزیہ کیا گیا ہے۔ چونکہ ناطق خود ایک اچھے راج مستری رہ چکے ہیں اس لئے ناول میں فنِّ تعمیر کی اصطلاحات کا جا بجا استعمال کیا گیا ہے۔ہر عمارت، اس کے ہر ہر کمرے ،ایک ایک ستون کی پیمائش،حتی کہ اینٹوں کے رنگ اور ان کی ہئیت تک کا تذکرہ ملتا ہے مگر طرز بیان اس قدر دلچسپ کہ کوفت کا چنداں احساس نہیں ہوتا۔ جہاں موسم کا تذکرہ ہے وہاں پڑھنے والا اس کو اپنے اردگرد محسوس کرنے لگتا ہے۔ ایک جگہ آموں کا تذکرہ اس قدر خوبصورت انداز میں کیا گیا ہے کہ منہ میں لذیذ آموں کا رس گھلنے لگتا ہے۔ انتظار حسین کہتے ہیں کہ ناطق دیہات اور اس کے کرداروں کی بازیافت کا آدمی ہے اور حقیقی طور پر 'سن آف سوائل' ہے۔

ناول میں اگر کوئی کمی محسوس ہوتی ہے تو کسی مضبوط نسوانی کردار کی کیونکہ اس کہانی میں صرف ہیرو ہی ہیرو ہیں کوئی ہیروئن نہیں ہے اور نصف حصے کے بعد ناول کی رفتار اس قدر تیز ہوجاتی ہے جیسے مصنف کو اسے مکمل کرنے کی بہت جلدی ہو۔ تقسیم سے لے کر ضیا دور تک کے سارے واقعات خبروں کی سرخیوں کی مانند تیزی سے گزرتے محسوس ہوتے ہیں۔
یہ ناول صرف کہانی نہیں ہے، بلکہ تقسیمِ ہند سے قبل اور بعد کی نصف صدی کا احوال ہے، جو یقیناً فِکشن ہے مگر دِل اسے محض فکشن ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ اس ناول نے مجھے اُن انگریزوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا جو یہاں دو سو سال حکمران رہے، جن کی تین نسلیں یہیں پیدا ہوئیں اور پلی بڑھیں۔

کیا ان میں سے کسی نے اس زمین کو اپنا تسلیم کرکے اس کو گھر کا درجہ دیا ہوگا؟ کیا وہ اس مٹی میں دفن ہونے کی خواہش رکھتے ہوں گے؟ ایسے کئی سوالات ذہن میں کلبلانے لگے کیونکہ یہ کہانی ایک انگریز افسر ولیم کے گرد گھومتی ہے جس کا پردادا بطور تاجر ایسٹ انڈیا کمپنی کے جلو میں برصغیر میں وارد ہوا تھا۔ اس کے بیٹے اور پوتے کے بعد ولیم کی شکل میں یہ اس کی تیسری نسل تھی جو متحدہ ہندوستان میں جنم لے چکی تھی۔ گو کہ اس خاندان کا رویہ اور رہن سہن حاکمانہ ہی رہا لیکن ولیم کے اندر بہت آہستگی سے مٹی کی محبت رچ بس گئی، وہ اس زمین کو اپنا سمجھ بیٹھا اور اپنی ذات کی جڑیں برطانیہ کی بجائے ہندوستان میں محسوس کرنے لگا۔

آخری ابواب میں ولیم پر جو بیتی اسے پڑھ کر ایک عجیب سی اداسی طاری ہوگئی اور میں سوچنے لگا کہ کیسے ایک انسان تمام عمر لگا کر اپنی پہچان بناتا ہے لیکن قسمت، وقت اور حالات اس سے سب کچھ چھین کر اسے لاوارث چھوڑ دیتے ہیں۔ رات کے تیسرے پہر جب یہ ناول مکمل ہوا تو نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی ،شاید اتنی ہی اداس تھی جتنا کہ میں خود۔ اس اختتامی تاثر نے اگلےکئی دن بےحد اُداس رکھا اور کہانی کے بیشتر کرداروں بالخصوص ولیم کے حوالے سے کئی ’کاش’ زبان پر مچلتے رہے۔
Profile Image for Mian Inam.
23 reviews6 followers
April 3, 2020
ناطق کےاس ناول کو ادارہ انڈیپنڈنٹ نے پچھلے عشرہ میں لکھے گئے دس اچھے ناولز میں شمار کیا. ان کہ دو ناولز پہلے پڑھ چکا تھا مذکورہ ناول کے اچھے ہونے کی خبر انڈیپنڈنٹ نے کردی. سو پڑھا اور پڑھتا چلا گیا. کہانی ضلع فیروز پور کی تحصیل جلال آباد کے کمشنر ولیم جو کہ سول سرونٹ ہے پرگھومتی ہے اور ساتھ ہی مقامی زمینداروں کی غنڈہ گردی، تقسیم کے وقت کے فسادات، نو آبادیاتی سسٹم کی خرابیاں، لوگوں کے بدلتے رویے اور افسر شاہی کے مکروہ چہرہ کو دِکھاتی ہے.
اس ناول کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسے غیرضروری طور پر طویل کیا گیا ہے.
Profile Image for Mujahid Khan.
111 reviews19 followers
May 12, 2019
Seems like I'm getting back into the swing of things. I devoured this novel in almost a week which is very unlikely but here we are. So back to the novel, the story of the book revolves around Assistant Commissioner William and the feud of Ghulam Haider and Sardar Soda Singh. The author takes his time in building the narrative and spin a web of murder and mayhem in the pre-partition Punjab.
It's a saga of a bygone time; of trippy nostalgic memories and being stuck in a place where you don't belong albeit you want to stay there.
Reading this novel was a pleasurable experience. Among the new novelists of Urdu, Ali Akbar Natiq is definitely going up the ladder. More power to him.
Profile Image for Osama Siddique.
Author 10 books346 followers
June 30, 2019
Here is the link to my detailed review of the novel which was published in The Friday Times

https://www.thefridaytimes.com/romanc...

The text is reproduced below.

Set in canal colonies of the Punjab, Ali Akbar Natiq’s much anticipated debut novel ‘Nou-Lakhi Kothi’ is as enticingly rich and multi-faceted as the land that he is so unabashedly in love with.

Natiq has already made his mark as a poet of vibrant images, enigmatic metaphors, a brooding sense of history and metaphysical explorations. His two anthologies of poetry ‘Baiyaqeen Bastioon Mein’ (2010) and ‘Yaqoot Kai Warq’ (2013) provide ample testimony. His haunting series of poems ‘Safeer-e-Laila’ portray the cyclical vagaries of time and civilizational rise and decline that at times remind one of N. M Rashid’s masterpiece ‘Hasan Koozagar’ but are nevertheless enthrallingly original. That he is an immaculate observer and highly gifted capturer of the geographical and cultural topography of Punjab has already come to light in ‘Qaim Din’ (2012) – his wonderful volume of short stories. In Nou-Lakhi Kothi Natiq draws on his poetic prose and deep intimacy with the land and people of Punjab to craft a compelling tale of enmity, revenge, social mobility, opportunism, past glory and lost grandeur.

Under the British Raj Punjab witnessed wide scale technological changes and unique social engineering. The new hydraulic economy of the canal colonies led to displacement of riverine tribes as well as mass migration and resettlement of agricultural people from elsewhere in the province to cultivate the new and rich canal fed tracts in Western Punjab. Colonial perceptions of the diversity and differences of local traits and varying potential for loyalty and its consequent patterns of patronage led to the administrative and legislative consolidation of the highly problematic binaries of agrarian and non-agrarian castes, martial and non-martial races, and criminal and non-criminal tribes.

Meanwhile, colonial systems of administration and instruments of formal justice endeavored to entrench themselves. Rescuing disputants from the at times exploitative dynamics of indigenous dispute resolution systems, the colonial thana, court, and kachehri assumed a central role as arbiters of disputes and symbols of the naya qanoon as well as favorite new arenas for further embroilment and perpetuation of such disputes, frequent coercive use of the law and the reconfigured leveraging of local influence and power. The commodification, titling and consequent facility in the transfer of land, the erosion of multiple conventional and informal communitarian claims on its produce, and the tussle between indigenous money lending and modern state backed credit further impacted village economies, rural power dynamics and social relationships. Punjab also became pivotal, not just as a bread basket, but as the primary breeding ground of fighting troops. This necessitated further carving out of enclaves of privilege for loyal landlords – active and absentee; traditional local notables and the nouveau riche as well as retired military officers – and additional uses of land in service of military imperatives and avarice. Land alienation powers and reward of arable land were thus central to the colonial incentive structures envisioned to build and sustain the Raj in the decades following 1857.

Against the backdrop of these major upheavals and reconfigurations, Natiq’s novel is primarily set in the decades immediately preceding Indian independence. The protagonists face a foreseeable future that could not be in greater contrast. For William who is sailing to India to take up appointment as an officer of the Indian Civil Service, it is the legacy of an illustrious family that has ruled the land for generations. City bred and educated, Ghulam Haider, meanwhile, is returning to his vast village fiefdom in the wake of his father’s sudden death, and finds himself surrounded by armed loyalists and family retainers fearful of an attempt on his life from arch enemies of his father. Maulvi Karamat, on the other hand, is the imam of a tiny and decrepit village mosque, for whom the difference between survival and penury is the largesse of chapatis that his son Fazal Din collects daily from the homesteads – in lieu of frequent free labor and running of chores, apart from his father’s ritualistic services – which are then sold every month in a nearby market to keep the family afloat.

Events overtake them and intertwine their lives in important, inextricable ways over the next several years. William harbors strong and paradoxical emotions for the land – reminiscent of Kipling in certain ways – where he grew up and to which he relates deeply. Of a romantic bent and zealous about introducing various reforms he finds himself posted as an Assistant Commissioner in an arid tehsil in district Firozpur in east Punjab. There he comes face to face with the inertia of the vast clerkdom that thrives in the bureaucratic culture, the revenue extraction monomania of his higher officials, race and class as the great dividers of people, widespread native alienation from colonial forms of governance and justice, the misery of poverty, and the ever-simmering religious communal divides that threaten to develop into larger conflicts. William adores the land, even if he looks upon most of its inhabitants as crude and inferior – though at times he also appears much more amenable to pulling down the walls between the rulers and the ruled than the more pukka sahibs. He wants to see the landscape prosperous and lush with crops and groves, as much to benefit locals and to boost revenues as to assuage his aesthetic sensibilities. Meanwhile, Ghulam Haider finds himself besieged by Sardar Sodha Singh and his clan and allies who want to settle old scores with his father Sher Haider. At the same time, Maulvi Karamat stumbles upon career enhancement possibilities that promise an escape from his life of destitution but also pose ideological difficulties as well as challenges of personal re-invention. Thus embarks a tight and riveting story that explores life in late colonial Punjab from multiple and very different vantage points.

[quote]There have seldom been such vivid rural descriptions since the dream-like short stories of Balwant Singh[/quote]

Natiq skillfully weaves a narrative which is realistic, probing and reflective. At the heart of the novel is the genesis of a quintessential Punjabi village dispute and its deterioration into a bloody conflict with religious overtones as well as complex underpinnings forged by the contradictions between colonial modes of justice and law enforcement and local customary norms and cultural practices. Formal law’s coercive potential, the resilient leverage of social status and communal and governmental networks, and the parallel functioning of colluding as well as conflicting systems of authorities provide fascinating sub-themes. The novel deconstructs the juggernaut of the colonial legal-bureaucratic machine into its individual cogs and wheels and pervading mood, offering delightful vignettes about the pomposity of the gora sahib (and even greater pomposity of the memsahib) as well as the resentful servility of the native cronies and underlings. At the same time, Natiq’s forte is his savory and multi-tiered description – whether of traditional haveli architecture (his reservoir of local construction terms seems inexhaustible) or the contours and features of the landscape of Eastern and Central Punjab (which he paints with the evocativeness of a gifted impressionist). Despite his stark realism, the poet Natiq also makes several appearances, further augmenting the appeal of his prose. This is when his fascination for the romance of the land takes over and he lovingly describes the glorious vistas, trees, crop fields, waterscapes, lights and shades, and the shifting seasons. This reviewer has seldom come across such vivid rural descriptions since the dream-like short stories of Balwant Singh with their nocturnal paintings of chivalrous Punjabi bandits riding in the long, moonlit summer nights, or the thrilling hunting escapades set in the rugged mystery lands of the gorgeous Potohar plateau by Sabir Hussain Rajput.

Yet, while romancing the Punjab – his favorite muse, Natiq does not allow it to distract him from his essential task of storytelling, and of telling a story that is ultimately dark and brutal. The novel’s mood gets progressively bleak, and at times sardonic, as the partition of India approaches – as the culture of pillage and the political economy of evacuee properties take root, while millions languish and die or find themselves bewildered by the sudden loss of past lives and cherished landscapes. In its post-partition sections a deep melancholy and nostalgia imbue the narrative as Natiq’s characters endeavor to come to grips with new boundaries and classifications. William’s character, in particular, adopts a highly memorable pathos and resonance.

Natiq’s earlier works have demonstrated his great agility with words for not just conveying ideas and insights but also for recreating special moods and particular ways of living. Once again his language is a treat to read as he brings forth distinctive Sikh and Muslim rural dialects and often employs a combination of Punjabi and Urdu to promote a hybrid idiom that is better suited to capture the nuances of Punjabi culture and speech. A deep empathy for the insignificant, the ignored, and the disempowered resonates throughout but on the whole Natiq retains literary objectivity and elegance and resists didactic pontification. His resort at times to satire is also effective and piercing.

Like an accomplished dastango he sits in the village chopal under the giant peepal and beckons you with the promise of his tale of a famous carnage, of heroes eaten up by dust, and of the ruins of a past that will never return. It is a tale of Punjab and is as enigmatic and wondrous as the land that it is set in. As the voice in his celebrated poem Safeer-e-Laila implores:

‘Safeer-e-Laila yehi khandar hain jahan sai aghaaz-e-dastaan hai

Zara sa baitho to mein sunaoon …’

(O Laila’s emissary, these are the very ruins where the epic begins

Stay awhile and I shall narrate …)

Osama Siddique is the author of Pakistan’s Experience with Formal Law: An Alien Justice (Cambridge: Cambridge University Press, 2013)
Profile Image for Imran.
122 reviews23 followers
May 10, 2015
Well written considering its the first novel by the writer.

Some interesting observations about the mechanism how British Bureaucracy treated people in sub-continent and how these traditions are still being followed in independent Pakistan (in fact the situation became worst over the period).

Characters wise, all the local characters sounds like from a Punjabi gujjar movie, except for one powerful character, Molvi Karamat. His transformation from a molvi who was against modern education to a teacher at a missionary school and then preaching for modern education based on Prophet's ahadees ordering to go to China for getting knowledge was a well written part of the novel.

The character I liked most is William, an English man who was born and brought up in united India and served as Deputy Commissioner in different areas of united Punjab before partition and denied to leave Pakistan as he couldn't find any attachment with England.
Profile Image for Tarun.
115 reviews60 followers
August 1, 2021
3.5 stars
قصّہ طویل ہے، آئندہ موسم سرما میں یا پھر کبھی فرصت میں اس ناول کو از سر نو پڑھوں گا
1 review
December 4, 2020
ابھی کچھ دیر پہلے علی اکبر ناطق کا ناول نولکھی کوٹھی مکمل کیا ہے۔
ناطق صاحب فیس بک پر تو پکے مسلک پرست ہیں اور بغیر کوئی لگی لپٹی رکھے اکثر دوسرے مسالک کو رگیدتے بھی رہتے ہیں۔ ان کی فیس بک پوسٹس بھی ایسے ترنگ میں ڈوبی ہوتی ہیں کہ لگتا ہے اپنے قد سے اوپر تو کیا، کسی کو برابر کا بھی نہیں سمجھتے۔ ناول شروع کرنے سے پہلے میں گمان کر رہا تھا کہ ناول میں ناطق صاحب نے فیسبک کی طرح شاید سارے ولن ہی مخالف مکتب فکر کے رکھے ہوں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔
نولکھی کوٹھی اردو ناولز میں ایک زبردست اضافہ ہے۔ ناول شروع کرتے ہیں بندہ نوآبادیاتی دور میں پہنچ جاتا ہے جہاں پنجاب کے سادہ، پر امن اور ناخواندہ دیہاتوں کی نہروں، کھیتوں، ذیلداروں کی حویلیوں میں ہونے والی داستان گوئی کی محفلوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے لگتا ہے۔ انگریز راج کی تیز دھار تلوار جیسی سول سروس ہو یا مقامی زمینداروں کی ایک دوسرے کے ساتھ سینگ اڑانے کے واقعات، سب ہی چیزوں کے منظر کشی ایسے ماہرانہ طریقے سے کی گئی ہے کہ جیسے انکھوں کے سامنے کوئی حقیقی فلم چل رہی ہو۔
یہ ناطق کا ہی فن ہے کہ کہانی ایسے منظم انداز میں نوآبادیاتی دور سے ضیاء دور تک اتی ہے کہ بیچ میں ایک مختصر ملاقات قائد اعظم اور مسلم لیگ کے ایک عہدے دار سے بھی ہوتی ہے۔ تقسیم کا درد، بلووں میں پنجاب کے مسلمانوں، سکھوں اور ہندوؤں کے بہنے والے خون کی داستان، خاندانی دشمنیوں کی کہانی، کرداروں کی تین تین نسلوں کا عروج وزوال سب ہی کچھ زبردست طریقے سے بیان ہوا ہے۔
پاکستانی سول سروس جو دراصل سامراجی دور کی بیوروکریسی کا دیمک زدہ عکس ہے اس میں آنے والے بدصورت زوال کو بھی عمدہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ کرداروں کے مکالمے بھی بہت شاندار انداز میں لکھے گئے ہیں۔ سچ پوچھیں تو لگتا ہی نہیں ہے کہ یہ اس علی اکبر ناطق کے قلم سے پھوٹنے والا شاہکار ہے جو ڈانگ لے کر فیسبک پر بیٹھا ملتا ہے۔
لیکن، ایک کمی ناول میں بحرحال محسوس ہوئی کہ آخری حصے میں کہانی کو بہت عجلت میں لپیٹا گیا ہے۔
Profile Image for Masood Sabir.
1 review
Read
February 11, 2019
ادھر ادھر کے تجزیوں سے متاثر ہو کر کتاب لے لی اور پڑھ ڈالی لیکن کتاب متاثر نہ کر سکی۔ بار بار یہ شبہ ہوتا ہے کہ مصنف نے ناول کا پہلا ہی ڈرافٹ چھپنے کو دے دیا ہےاور پہلے ڈرافٹ کو بنانے سنوارنے میں زیادہ محنت نہیں کی۔ جب کہ ناول نگاری بے حد محنت طلب کام ہے اور خصوصا نئے لکھاری کو اپنے مسودے کو بار بار لکھنا چاہئے۔ کردار نگاری پر ذرا بھی محنت نہیں ہوئی۔ کرداروں کو ان کے مخصوص پس منظر میں ان کی گفتگو اور مینر ازم کے اعتبار سے الگ الگے دکھائی دینا چاہئے تھا۔ انگریز ڈپٹی کمشنر کسی بھی پیمانے سے انگریز نہیں لگتا بلکہ بالکل دیسی لگتا ہے۔ اچھی کہانی کی خوبی یہ ہے کہ کہ وہ خود کو بیان کرے نہ کہ مصنف کو بار بار بیچ میں کود کر کرداروں کی کیفیات بیان کرنی پڑیں۔ بہتر ہوتا اگر مصنف تھوڑا صبر سے کام لیتے اور ناول چھپوانے میں کچھ تاخیر کر لیتے۔
Profile Image for Faiqa Mansab.
Author 4 books157 followers
October 14, 2023
A novel of epic proportions and oceanic depths. Natik’s vision and the world he has created is detailed and rich, and Naima Rashid has carefully recreated each stroke of the pen, each subtle shade, and each layer. A book worth reading.
Profile Image for Rizwan Mehmood.
171 reviews10 followers
May 23, 2021
اکثر مصنف ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس ایک کہانی ہوتی ہے اور وہ اپنے الفاظ میں بیان کر دیتے ہیں۔ لیکن کچھ ایسے ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہانی سنانے کی مجھے جلدی نہیں ذرا ماحول کی منظر کشی بھی ہو جائے۔ مختلف کردار کیا سوچ رہے ہیں یہ معلوم کرنا بھی ضروری ہے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ کہانی بھی آگے بڑھتی ہے۔ اگر اس قسم کے ناول آپ کو پسند ہیں تو یہ ناول آپ کے لیے ہے۔ بہترین منظر نگاری، ہر کردار کی گہرائی اور ہر کسی کی ایک اپنی زبان اور سوچ۔ ان سب نے مل کر اس ناول کو بہت عمدہ بنا دیا ہے۔
میرے حساب سے نہ اس میں کوئی ولن ہے نہ کوئی ہیرو ۔ سب کردار اچھائی اور برائی کی لکیر پر بیٹھے ہیں۔ وقت اور حالات کے حساب اچھائی یا برائی کی طرف دھکیلے جاتے ہیں۔ مجھے یہ ماڈرن دور کے مصنفوں کی کردار سازی بہت پسند ہے۔ پہلے ہمیشہ کیوں شہزادے کو اچھا اور جادوگر کو ہمیشہ برا بنا دیا جاتا ہے۔ کوئی کردار کسی طرف کبھی بھی جا سکتا ہے۔ اسی بے یقینی کا ہی مزہ ہے۔ خیر یہ تو میری اپنی رائے ہے اور ہر کسی کے خیالات مختلف ہوتے ہیں۔
ناول کی طرف آتے ہیں۔ یہ ناول تقسیم ہند کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ چند چھوٹے گاؤں میں اس کے اثرات کیا مرتب ہوئے۔ اس کے علاوہ انگریز دور کے افسران اور بعد کے افسران کا مختصر سا جائزہ بھی لیا گیا۔ میرا یہ خیال ہے کہ اگر انگریز وں نے جو مینجمینٹ کا نظام بنایا تھا وہ بہت اچھا تھا لیکن بعد کے افسران ذاتی فائدے کے لیے اس کا استعمال کرتے رہے اور مقامی علاقوں کی ترقی کی طرف توجہ کم رکھی گئی۔
اگر دیکھا جائے تو ریل، ڈاک اور نہری نظام اگر انگریز یہاں بنا کر نہ جاتے تو شاید ہم ابھی بہت پیچھے ہوتے۔ یہ سب وہ بہتر طریقے سے اس لیےکر سکے کیونکہ انہوں نے اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کیا۔ اور نیچے تحصیل سطح کے افسران نے بھی فرض سمجھ کے کام نبھایا۔ اب نہ شاید اختیارات اتنے زیادہ دیے گئے ہیں اور نہ شاید کوئی اتنا کام کرنا چاہتا ہے۔
اس ناول نے یہ سب سوچنے پر مجبور کیا اور کافی دیر اپنے حصار میں رکھا۔
Profile Image for Javaeria Gill.
21 reviews3 followers
October 25, 2023
Akbar Ali Natiq is one of those few persons on social media whom I abhor the most. He's nasty, arrogant, misogynistic, and abusive. He's very short-tempered and blocks anyone who slightly differs from his opinions. He's a bloody youthiya, in short not from a single trait of his personality you can assume that he can write well. That's why I've never thought of even thinking of reading his books in my lifetime. However, I noted that even his opponents acknowledge his efforts for the Urdu literature. One of his opponents commented that if you hate Akbar Ali Natiq, please don't read him because you would become his fan and then you would be ashamed to tell others that here's your favorite contemporary Urdu writer Akbar Ali Natiq 😬 I took it as a challenge and here I'm! That opponent was right, but I'm not ashamed to tell you that I'm his fan now 😩 I've just completed "Naulakhi Kothi" and let me tell you, Urdu Literature has not witnessed such a masterpiece for at least 3 decades. This book would be considered a classic Urdu novel in the future. The story revolves around a British officer William who refused to go to Britain after partition. I love this kind of story line which progresses with the political events in the background. This book also explains the tragic details of riots and the partition of Punjab in 1947. I wanted a more detailed story of post-partition in this novel but it was short and ended in 1989. Now, I'm looking forward to reading other books by Akbar Ali Natiq. 😬♥️
Profile Image for Roha Mumtaz.
62 reviews
December 11, 2025
یہ کہنا غلط نہیں ہو گا اگرمیں کہوں کہ تبصرہ کرنے کا میرا ارادہ بھی کتاب کے آخری چند ابواب میں جا کر پختہ ہوا۔
کہانی کی شروعات میں مُجھے اتنا دم نہیں لگا مگر کرداروں اور کہانی کی منظر عکاسی اور علی صاحب نے جن تفصیلات نے پڑھنے والے کو کہانی میں جکڑ کر رکھا وہ ضرور قابلِ دید تھا ۔

اور یہی وجہ تھی کہ میں نے یہ ناول ایک دن میں مکمل کیا۔ اردو ادب کلاسک کا حق ادا کیا ہے اس کتاب نے اور آج کے دور میں قارئین کے لیے ایسی کتابیں مالِ غنیمت ہیں۔ جس میں تاریخ بھی ہر ایک کے پہلو سے بتائی گئی مسلمُ، سکھ اور انگریز ۔ اور ہر دور ہر کردار نے کہانی کے ساتھ انصاف کیا ہے ۔

آخر میں ولیم کی کہانی نے ضرور اداس کیا اور دل پہ گہرا اثر چھوڑا کہ انسان کتنی ہی محبت لگن سے اپنی زندگی کی پلاننگ کرتا ہے۔ اس کو اپنے مطابق جینے کی بھر پور کوشش بھی کرتا ہے لیکن ایک مقام آتا ہے زندگی میں جب دُنیا آپ کے ساتھ نہیں آپ سے چار گنا رفتار سے چلتی ہے۔ پھر آپکی محنت، پلاننگ سب دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔
کہنے کو اور بھی بہت کچھ ہے، مگر فلحال ایک دورہ نولکھی کوٹھی کا کرنے کا بہت دل ہے !!
Profile Image for Usama Tanoli.
25 reviews
December 14, 2023
نولکھی کوٹھی آہ میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں کیسے بیان کروں کہ یہ کیسی کتاب ہے۔۔ اس کتاب سے مجھے محبت ہو گئی ہے
جس طرح کی کہانی ہے میں سوچنے پہ مجبور ہو گیا کہ کیا اچھا ہوتا اگر تقسیم نہ ہوتی ، ہمارا ذہن اس طرح بنا دیا گیا تھا کہ تقسیم ہو کر بہت اچھا ہوا لیکن اس کے کیا نقصان ہوئے اس کا اندازہ اس کتاب سے ہوتا ہے 😔
جو کچھ ہم نے ولیم کے ساتھ کیا اس کا مجھے بہت دکھ ہے ، اور شرمندگی محسوس ہو رہی ہے 🥺
ہماری بیرو کریسی کی کرپشن اسی دن سے شروع ہو گئی تھی جس دن یہ ملک وجود میں آیا اور آج تک اس سے بڑھ کر جاری ہے🙂
کیا ہی خوب لکھا ہے ناطق صاحب نے کہ "مرنے والے اور لڑنے والوں کے پاس نہ تو اب قائداعظم تھا، نہ نواب افتخار اور نہ ہی گاندھی اور نہرو موجود تھے۔ وہ سب لیڈر اپنے گھروں میں محفوظ، اس بات سے بے خبر تھے کہ ہندوستان کے صوبے پنجاب کے ضلع فیروز پور کی تحصیل جلال آباد کے تھانے مکھسر کے ایک گاؤں جودھا پور میں اس وقت خون اور پانی کی جنگ ہو رہی ہے" 🥲💔
Profile Image for Rehab Razzaq .
2 reviews
October 27, 2023
نولکھی کوٹھی علی اکبر ناطق کا خوبصورت ناول ہے جو تقسیم ہند پر لکھے گے بہت سے ناولوں کے برعکس ہے جس میں ہندو مسلم فسادات کے بجائے کہانی ایک انگریز ولیم نام کے مرکزی کردار کے گرد گھومتی ہے جو اپنی مٹی سے محبت کا حق پوری طرح سے ادا کرتا ہے۔
یہ کہانی انگریزی دور سے شروع ہو کے ضیاء کے دور تک اختتام پذیر ہوتی ہے۔ اس ناول کا علاقہ پنجاب کا وسط ہے(فیروز پور کی تحصیل جلال آباد ہے جو اب بھارت کا حصہ ہے)
اس کہانی کے ذریعہ ہندوستان کی تقسیم کے دوران ہونے والی بہت سی گمنام کہانیاں ہمیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ جو تقسیم کے ملبے تلے آ کے کہیں دب گئیں مگر اپنے نقوش چھوڑ گئیں۔
اس کتاب کی خوبصورتی یہ ہے کہ ہر رائٹر کے برعکس، جو ہندوؤں اور مسلمانوں کی روتی آنکھیں دکھاتے ہیں، ایک انگریز جو اپنی زندگی ہندوستان کے رہنے والوں کے لیے وقف کرتا ہے اور اپنی آخری سانس تک اس سرزمین کو نہیں چھوڑتا، اس کی تکالیف اور وطن سے محبت کا نقشہ بہت خوبصورتی سی کھینچا گیا ۔
مگر تقسیم کے بعد حکومت کے رویے پر بہت افسوس رہا جو صرف اپنی لالچ کی خاطر ولیم کی جوانی میں کی گئی خدمات کو سپردِ خاک کر کے اسے دربدر کر دیتی ۔۔
ناطق کا کہنا ہے کہ ناول کے آدھے سے زیادہ کردار حقیقی شخصیات پر مبنی ہیں۔ کچھ شخصیات اپنے اصلی نام کے ساتھ ناول میں موجود ہیں۔ ناول کو انجام تک پہنچانے کے لیے آخر میں ناطق خود بھی سامنے آجاتے ہیں۔
اگر ولیم ایک حقیقی کردار تھا تو مجھے ہمارے کیے گے سلوک پر بہت افسوس ہے ۔۔
~رہاب رزاق
15 reviews
September 23, 2019
An excellent novel covering era of pre partition days . This novel will connect you to your roots, enriched with country life and cultural values of people. Mustansar hussain tarar and abdullah hussain has written very well about those times but ali akbar natik has also done justice with the subject. This novel emotionally stays with you long time after you have finished it.
Profile Image for Hammad Bajwa.
52 reviews3 followers
December 30, 2020
بہت اعلئ! مخمور کر دینے والی کتاب جو کہ ایک حقیقی کردار پر مبنی ہے اور دیہی پنجاب کی مختلف ادوار کی خوبصورت عکاسی کرتی ہے۔ بعض کتابیں ختم کرنے کے بعد بھی آپ کو ایک خاص مزے میں مبتلا رکھتی ہیں، یہ ان میں سے ہے!
Profile Image for Tameel Fiza.
41 reviews2 followers
May 7, 2022
کوئی آپکی ایسی عادت جو پہلے آپکی پسندیدہ تھی لیکن اب آپ اس سے چڑنے لگے ہوں؟بدلنے کا سوچنے لگے ہوں؟
....
علی اکبر ناطق ایک پاکستانی ناول نگار، افسانہ نگار اور شاعر ہیں، نو لکھی کوٹھی تقسیم ہند پر لکھا گیا انکا ایک ناول ہے اور ایک پاکستانی ناول نگار کے ہاتھوں لکھے گئے تقسیم ہند کے اس ناول کی خاص بات یہ ہے کہ اسے غیر جانبدار ہو کر لکھا گیا ہے یہ نہیں کہ بس مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے پہاڑ بیان کیے گئے ہیں بلکہ سکھ، ہندو اور انگریز لوگ کس طرح کے حالات سے گزر رہے تھے یہ بھی بتایا گیا ہے
کہانی کا بنیادی کردار ویلم ایک انگریز تھا جس کا خاندان پچھلی دو پشتوں سے ہندوستان میں آبسا تھا اور یہ اب اسے ہی اپنا گھر سمجھتا تھا اور اسے کسی بھی قیمت پر چھوڑ کر جانے پر رضامند نہیں تھا(اور یہ قیمت اس کے خاندان اور دوستوں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوجانا تھا)
کہانی کا آغاز تقسیم سے پہلے کے مشرقی پنجاب میں فیروز پور کی تحصیل جلال آباد سے ہوتا ہے جہاں غلام حیدر کے باپ شیر حیدر کے مرنے پر ان کا پرانا دشمن سودھا سنگھ ان کی فصل کو نقصان پہنچاتا ہے اور ایک ملازم کا قتل کر دیتا ہے،ویلم ان ہی دنوں اس علاقے میں اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر فائز ہوا ہوتا ہے
ان دونوں کے یہ دشمنی چلتی رہتی ہے، اور آخر کو غلام حیدر اپنا بدلا لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور روپوش ہوجاتا ہے
اس کے دوران ہی مولوی کرامت جو مرنے والے ملازم کا بہنوئی تھا اس پر ویلم کی نظر کرم ہوجاتی ہے اور وہ اسے ایک سکول میں ماسٹری دلوا دیتا ہے جس سے اس کے دن پھر جاتے ہیں
ویلم کو اپنے کام کے ساتھ مخلص دکھانے کی پوری کوشش کی گئی ہے جس نے اپنے علاقے کو زمین سے اٹھا کر آسمان تک لے جانے کی ہوتی کوشش کی تھی
مصنف اپنی منظر نگاری کی وجہ سے خاصے جانے جاتے ہیں، علی اکبر ناطق کے ساتھ منظر نگاری کا نام کیوں جڑا ہے یہ کتاب پڑھ کر اچھے سے اندازہ ہوگیا، منظر نگاری اس قدر خوبصورت انداز سے کی گئی ہے کہ جزئیات پڑھتے ہوئے آپ خود کو انہی علاقوں میں پھرتا ہوا پائیں گے، پر جو بات تنگ کر رہی تھی وہ یہ تھی کہ کہانی چل رہی ہوتی تھی پھر منظر نگاری آجاتی ہے اب کہانی رک گئی ہے اور منظر نگاری چل رہی ہے اور خاصہ انتظار کرنا پرے گا آگے کہانی پڑھنے کے لیے
تقسیم کے وقت یہی منظر نگاری ایک دفعہ تو ہمارے رونگٹے کھڑے کروانے میں کامیاب رہتی ہے
تقسیم کے بعد ویلم کا خاندان، دوست احباب سب یہاں سے چلے جاتے ہیں لیکن ویلم کو ہندوستان چھوڑنا، اپنی نولکھی کوٹھی(جو کہ اس کے دادا نے بھلے وقتوں میں نو لاکھ روپے خرچ کر کہ بنوائی تھی)کو چھوڑنا ناگوار تھا، نوکری ہاتھ سے جاتی رہی پر ویلم نا ہلا اپنی زندگی کے آخری دن یہاں تن تنہا گزارتے ہوئے ویلم کا تاثر ایک جزباتی سے بچے سا دیا گیا ہے جسے سردی بلکل نہیں پسند اس لیے اور اپنا یہ آرام دہ علاقہ جس میں اس کا خیال رکھنے والا بھی کوئی نہیں چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا، اور آخر کو اس کوٹھی سے بھی نکال دیا جاتا ہے اور ایسے ہی بے سر و ساماں کہی پڑا مر جاتا ہے

#fizkreview
Profile Image for Humaira Ali Khan  Lodhi.
49 reviews2 followers
February 26, 2021
🔸کتاب: نولکھی کوٹھی (ناول)
🔸مصنف: علی اکبر ناطق
🔸صنف: تاریخی افسانہ
🔸صفحات: ۴۴۸

◀مصنف کا تعارف:
علی اکبر ناطق اردو زبان کے موجودہ دور کے شاعر، ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں۔ آپ ۱۹۷۷ میں اکاڑا کے ایک مضافاتی علاقے چک 32-2L میں پیدا ہوۓ۔ آپ نے پندرہ سال تک راج مستری کا کم کیا ور ساتھ ہی ساتھ اردو آداب کا مطالعہ بھی کیا۔ آپ نے ابھی تک کُل ۸ تصنیفات لکھی ہیں جن میں ناول، افسانے اور شاعری کے مجموعات شامل ہیں۔

◀کتاب کا خلاصہ:
تقسیمِ ہند پر یوں تو کئی کہانیاں لکھی گئی ہیں جو آزادی سے قبل پیش آنے والے واقعات کی عکاسی کرتی ہیں۔ نولکھی کوٹھی بھی اس ہی پس منظر میں لکھی گئی ایک شہکار ناول ہے پر جو بات اس ناول کی منفرد ہے وہ یہ ہے کے یہ ناول ایک فرنگی کی داستانِ حیات ہے جو اس سے قبل پڑھنے کو نہیں ملی۔ اس ناول میں مصنف نے آزادی سے پہلے کے متحدہ پنجاب کا ایسا نقشہ کھینچا ہے جو قاری پر ایک سحر طاری کر دے اور پڑھنے والے انگشت بدندان رہ جائے۔ ناول کا داستانی اسلوب اور ڈھانچہ آسان اور سادہ ہے۔

◀کردار سازی:
ولیم:
ولیم اس ناول کا مرکزی کردار ہے جس کا دادا انگلستان سے آکر ہندوستان آباد ہوا تھا۔ ولیم برٹش پنجاب کے ضلع اکاڑہ میں موجود نولکھی کوٹھی میں پیدا ہوتا ہے۔ ولیم ایک فرنگی سول سروس کمیشنر ہے جو ہندوستان کو اپنی زمین سمجھ کر اس کی ترقی اور بہتری کے لئے کام کرتا ہے۔ ولیم کی ہندوستان سے والہانہ محبت پڑھنے والوں کو اشکبار کردے۔

سردار سودھا سنگھ:
سودھا سنگھ صلع فیروزپور کے گاؤں جھنڈو والا کا سردار ہے جس کی قریبی گاؤں کے سردار شیر حیدر سے خاندانی دشمنی ہے۔ یہ ایک دشمنی ایک نیا موڑ لینی ہے اور ایک خونی کھیل شروع ہوجاتا ہے۔

غلام حیدر:
غلام حیدر جودھاپور گاؤں کے سردار شیر حیدر کا بیٹا ہوتا ہے جو لاہور سے پڑھ رہا ہوتا ہے اور باپ کے مرنے کے بعد اس کی زمینوں کا وارث بنتا ہے۔ باپ کے مرتے ہی دشمن اس پر شبِ خون مارتے ہیں اور ایک نئی جنگ شروع ہوجاتی ہے جو کئی لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔

◀تبصرہ/میری رائے:
نولکھی کوٹھی کی کہانی برٹش پنجاب کے ایک فرنگی افسر ولیم کی ہے جو پیداشی ہندوستانی ہوتا ہے اور آخری دم تک اس ہی دھرتی پر رہتا ہے۔ ولیم کے علاوہ سردار سودھا سنگھ ور غلام حیدر کا کردار بھو بہت اہم ہے جن کے بیچ دشمنی ان کی رعایا کو بھگتنی پڑھتی ہے۔ اس کے علاوہ مولوی کرامت کا کرداری بھی ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے جسے ولیم سرکاری اسکول کا منشی بناتا ہے اور اس کے ذمے مسلمان بچوں کے اسکول میں داخلے کا کام لگاتا ہے۔
یوں تو کہانی کے اور بھی بہت سے پہلو قابلِ ذکر ہے مگر ولیم کی ہندوستان کی سرزمین سے عشق قابلِ رشک ہے۔

◀میری ریٹنگ: 4/5⭐⭐⭐⭐
Profile Image for Osamah Shahid.
48 reviews38 followers
June 9, 2021
This was my attempt to get back to the Urdu literature, and I would say that I really enjoyed it. However, there are some things that could have been better.

One of the bad things about Urdu books is that they don't have any synopsis or summary written on their back, neither they are classified into any genre. This makes choosing a book really hard, and you read it without any hint of what exactly it is about.

Therefore, I have written a brief summary of this book:

Nau laukhi Khothi is a story that starts in a pre-partition Punjab of India and ends in the post-partition Punjab of Pakistan. It shows the interactions between Sikhs, Muslims, and British people living in Punjab. It draws a comparison of the characters, habits, and attitudes towards work and life of these three communities.

There are three to four main characters in this book. Out of them, only William's character is worth mentioning, as other characters are quite typical.

William -- Although He is British, his love for India is undying. He considered India his home, as he was born and raised here. He worked as an assistant commissioner in Ferospur (which is now part of The Indian Punjab). His character is quite contradictory in someplace. At one point he considers Indians to be second-class citizens, but at another, he actually works hard for the betterment of the local people.

The writer has shown that although Britishers looted the subcontinent they were also the only ones who actually developed this land. That they were more sincere, hardworking, and honest, in contrast to Muslims, Hindus, and Sikhs who were not only corrupt but also dishonest and selfish.

One of the good things about this book is its easy language and beautiful description of the landscape.

On the other hand, I think there were some continuity errors in this book. although many characters were realistic, characterization of English People as they were quite simply conversing in Urdu makes them unrealistic.

Overall this book doesn't have one solid plot. It meanders here and there. And the naulakhi Kothi which is the title is mentioned only a handful of times.
Profile Image for Shahzina Shafi.
77 reviews5 followers
December 27, 2024
ایک انگریز افسر کی نولکھی کوٹھی سے محبت کی داستاں .....

نولکھی کوٹھی ہندوستان پر انگریز کی حکومت اور تقسیم ہندوستان کے تناظر میں لکھی جانے والی داستان ہے جس کا مرکزی کردار ولیم ہے ۔ ولیم کے آباؤ اجداد پچھلے ڈیڑھ سو سال سے ہندوستان میں آباد تھے اور پچھلی تین پشتوں سے انگریز سرکار میں افسری کر رہے تھے۔ نولکھی کوٹھی ولیم کے پردادا نے وکٹوریہ دور میں اوکاڑہ کے مضافات میں تعمیر کروائی تھی۔جہاں ولیم کا سارا بچپن اور لڑکپن گزرا ہوتا ہے اور اسے اس کوٹھی سے بہت محبت ہوتی ہے۔ اپنی قوم کے دیگر لوگوں کے برعکس ولیم کو برطانیہ جیسے بغیر سورج کے نکلنے والے دنوں والے ملک اور برف پیدا کرنے والی ٹھنڈی زمین کی بجاۓ ہندوستان کی زرخیز سرزمین سے محبت ہوتی ہے۔ اور اسی سرزمین سے محبت کی خاطر وہ بہت بڑی قربانی بھی دیتا ہے۔ دیگر انگریزی افسران کے برعکس ولیم مقامی لوگوں کو غلام کی بجائے رعایا کا درجہ دیتا ہے اور اپنے علاقے اور مقامی لوگوں کی بھلائی کے لیے بہت سے اقدامات کرتا ہے جو آگے چل کر پھر اس کے لیے مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔

انتقام، انتقام کو جنم دیتا ہے اور جنگ، جنگوں کو اور اس سب کا حاصل تباہی ہی ہوتا ہے۔ قبائلی اور جاگیردارانہ نظام میں جنگ شروع تو بڑی آسانی سے ہوجاتی ہے مگر ختم نسلوں کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔ کچھ ایسا ہی غلام حیدر اور سردار سودھا سنگھ کے ساتھ ہوا۔ جن کے خاندانوں میں لڑائی کی شروعات تو ذاتی اور مذہبی تعصب کی وجہ سے ہوئی مگر پھر انتقام کے جذبے اسے ہوا دیتے گئے اور بالآخر تباہی ان کا مقدر ٹھہری۔

اس کتاب کے شروع میں پنجاب کے علاقوں اور وہاں کے مقامی لوگوں کی ثقافت کی منظر نگاری بہت تفصیل کے ساتھ کی گئی ہے جو کہ شاید اکبر علی ناطق صاحب کا خاصہ ہے۔ مگر یہ تفصیلی منظر نگاری شروع میں کہانی کی رفتار بہت سست کر دیتی ہے۔ جو لوگ منظر نگاری کے شائق ہیں ان کے لئے تو بے شک یہ کتاب ایک مکمل ٹریٹ ہے مگر میرے جیسے لوگ جو صرف منظر نگاری کو کہانی کی ضرورت کے مطابق پڑھنے کے عادی ہوں ان کے لئے کہانی کی سست رفتاری تھوڑی جنجھلاہٹ کا باعث بنتی ہے۔ مگر آخر میں جب ناطق صاحب دوڑ لگاتے ہیں تو پھر کہانی کا مزہ بھی آنے لگتا ہے مگر انجام آپ کو ایک عجیب سے دکھ سے دوچار کردیتا ہے۔
Profile Image for Khalil.
56 reviews33 followers
December 21, 2020
نولکھی کوٹھی (ناول)
علی اکبر ناطق

📖📖📖📖📖📖📖📖📖

علی اکبر ناطق کا یہ جاندار ناول نوآبادیاتی ہندوستان میں ایک فرنگی سول سروس آفیسر ولیم کے خاندان کے عروج و زوال کے گرد گھومتی ہے، جو کہ دراصل ہندوستان میں انگریزوں کے ڈیڑھ، دو سوسالہ قیام اور ہندوستانیوں پر حکمرانی کی نفسیات سے بحث کرتا ہے۔ انیسویں صدی کے وسط سے شروع ہونے والی استعماراتی قوتوں کی نوآبادیات بڑھانے کی اس دوڑ میں تقریبا'' سب کے پیش نظر یہی ایک نقطہ تھا کہ ان کے زیر نگیں آنیوالے تمام دیسوں کے لوگ جاہل مطلق، اجڈ اور گنوار ہیں جن کا تہذیب سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔اور یہ استعماری طاقتیں اپنے ساتھ تعلیم و تہذیب کی مشعلیں لے کر ان تاریک براعظموں کے باسیوں کی زندگی کوتعلیم و تربیت اور تہذیب و ثقافت کے جدید پہلوؤں سے روشناس کرنے کیلیے وہاں اپنا کردار ادا کرنے گئیں۔
'نولکھی کوٹھی' کی کہانی بیسویں صدی کی تیسری دہائی سے آٹھویں دہائی کے اختتام تک تقریبا'' 50 سے ساٹھ سال تک زیادہ تر پنجاب کے مختلف علاقوں میں وہاں کے لوگوں کے رہن سہن، ان کے طرز بود و باش، مذہب، معاشیات، جاگیردارانہ نظام، دیسی و بدیسی سرکاروں کی کارستانیوں اور تقسیم کے دوران پیش آنیوالے ہوشربا مظالم کی عکاسی کرتی ہے۔
ناول کا عنوان 'نولکھی کوٹھی' ، اوکاڑہ میں بنائی گئ ایک پرشکوہ کوٹھی ہے جو کہ کہانی کے مرکزی کردار ولیم جو انڈین سول سروس کا اسسٹنٹ کمشنر منتخب ہو کر آتا ہے اور اپنے دادا ہالرائیڈ اورباپ جانسن کی طرح ترقی کرتے کرتے ڈپٹی کمشنر کے عہدے تک پہنچتا ہے۔ یہ کوٹھی ولیم کے دادا صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر جانسن نے تعمیر کی ہوتی ہے جس میں ولیم کا بچپن اپنی بہن لورین اور اپنے دوست ایشلے کے ساتھ گزرتا ہے۔ ولیم اس مٹی کو جو کہ اس کی جنم بھومی ہوتی ہے، اپنا وطن سمجھ لیتا ہے اور تقسیم کے بعد بھی اس سرزمین میں رہنا اور مرنا پسند کرتا ہے۔ اور اپنے گھر والوں اور دوستوں کے بیحد اصرار کے باوجود بھی نولکھی کوٹھی سے دستبردار ہونا پسند نہیں کرتا مگر پھر حالات کی ستم ظریفی کہ جس شخص کے باپ اور دادا کو غربت و افلاس سے نکال کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بناتا ہے اسی ابن الوقت دیسی افسر کے ہاتھوں اسے کوٹھی بدر کیا جاتا ہے۔ اور اسی عالم میں وہ دربدر کی ٹھوکریں کھاتا ہوا اس جہان فانی سے رخصت ہو جاتا ہے۔

ناول کا پلاٹ بہت منظم انداز میں ترتیب دیا گیا ہے جو کہ بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے ہندوستان میں ہندوستانی ثقافت کی عکاسی کرتے ہوئے دوسری جنگ عظیم اور اس کے برطانیہ جسی استعماری قوت پر مہلک اثرات جس کے نتیجے میں انہیں اپنی ہندوستان جیسی قیمتی نوآبادی سے ہاتھ گنوانا پڑتے ہیں، اور پھر قیام پاکستان کے ساتھ، ہجرت کے مظالم اور اپنے لوگوں کے ہاتھوں اس کے استحصال کے واقعات سے لے کر ابتدائی پینتس چالیس سالوں کی حالت کو بیان کیا گیا گیا ہے۔
ناول کا بیانیہ زیادہ تر مرکزی کردار ولیم کے گرد ہی گھومتا ہے جس میں گورے کی نفسیات کو زیادہ بہتر انداز میں پیش کیا گیا ہے جس طرح سے وہ ہندوستانی عوام کو اپنا آبائی غلام سمجھتا ہے اور اسے کالا، جاہل، گنوار، موقع پرست، خونریز اورابن الوقت ظاہر کیا جاتا ہے۔ یہاں پر ناول نگار کے نسلی تعصب کا برملا اظہار نظر آتا ہے، پورے ناول میں کوئی بھی ہندوستانی کردار ایسا نظر نہیں آتا جس کو قابل تعریف سمجھا جائے۔

فیروزپور تحصیل کے باسی غلام حیدر ابن شیر حیدر، سردار سودھا سنگھ اور عبدل گجر ہمارے جاگیردارانہ نظام کے عکاس کردار ہیں۔ جو کہ خاند��نی دشمنیاں اور اپنی مونچھ کے تاؤ کر بڑھاتے بڑھاتے ایک دوجے کی نسلیں برباد کردیتے ہیں۔ غلام حیدر، جو کہ ایک جدید تعلیم یافتہ لڑکا ہوتا ہے، جس پر اس کی جدید تعلیم کا کوئی خاطر خواہ اثر نظر نہیں آتا اور وہ اپنی دشمنی نبھاتے نبھاتے اپنے دشمنوں کو تباہ کر کے خود بھی روپوش ہو جاتا ہے۔ جسے ایک بہت بڑے سیاسی لیڈر کی سفارش پر(حالانکہ اس لیڈر کے حوالے سے ایک پندرہ بندوں کے قاتل کی سفارش ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ، جو کہ مبالغہ آمیزی کا بھرپور تاثر دیتا ہے) جیل سے رہا کر کے 1945 کے انتخابات میں ایک مہرے کی حیثیت سے استعمال کیا جاتا ہے جو کہ تقسیم کے دوران ہجرت کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرما لیتا ہے۔ ہندوستان کے جاگیردانہ نظام کی بہترین عکاسی غلام حیدر اور سودھا سنگھ کے کرداروں کی صورت میں کی گئی ہے۔ جن کی رعیت ان کو اپنا مائی باپ سمجھ کر اپنا تن من دھن ان پر قربان کرتی چلی آتی ہے۔ اور یہ کردار اپنے اپنے متعلقہ حلقوں میں داستانوں کے امر کردار بن کر سامنے آتے ہیں۔

سب سے بہترین عکاسی جو کہ اس ناول میں کی گئ ہے وہ ہمارے ایڈمنسٹریشن سسٹم کی ہے، کیونکہ میں خود کچھ عرصہ اسی نظام میں کام کیا ہے تو اس چیز کو سمجھنا مجھے بہت آسان محسوس ہوا، کہ جس طرح گورے صاحب نے ایک اپنی نوآبادی کو چلانے کیلیے ایڈمنسٹریشن کا نظام متعارف کرایا تھا، جس میں ولیم جیسے فرض شناس افسر بھی موجود تھے جنہوں نے اپنے علاقوں کی تعلیمی، سماجی و معاشی بدحالی کو دور کرنے کیلیے پوری لگن سے کام کر کے ان علاقوں میں خاطر خواہ تبدیلیاں نافذ کیں۔ جو ان کے بقول بعد میں انہی کی ملک بدری کا باعث بھی بنیں۔ اور اس ناول میں صاحب بہادر اور عام آدمی کے مابین کھینچی گئی اس لکشمن ریکھا کا بھی ذکر ہے جس میں جنتا اور صاحب بہادر کے درمیان ایک سات سمندر پار کی خلیج حائل ہوتی ہے وہی خلیج تقسیم کی سات دہائیاں گزرنے کے باوجود ابھی تک بھی صاحب بہادر اور جنتا کے درمیان بدستور موجود ہے۔ صاحب بہادر تب بھی شاہانہ پروٹوکول کا اہل اور دعویدار تھا، جو کہ اب بھی اسی شد و مد کے ساتھ جاری ہے۔ صاحب بہادر کے دروازے جنتا کیلیے تب بھی بند تھے اور اب بھی بند ہی رہتے ہیں ۔ صاحب سے قرب حاصل کرنے کیلیے تحفے تحائف سے محبت بڑھانے والی حدیث پر آج بھی من و عن عمل دیکھنے میں آتا ہے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ پہلا صاحب بہارد گورا تھا اور آج کل کا صاحب بہادر تھوڑا سا 'کالا' صاحب بہادر ہے۔ مگر لچھن کالے صاحب کے گورے صاحب سے بہت گئے گزرے ہیں۔ ناول نگار نے چاپلوس اور ابن الوقت قسم کے کلرک مافیا اور محکمہ مال کے افسران جس میں منشی مولانا کرامت اللہ خاں جو کہ مولوی کرامت کی حیثیت سے کہانی کے شروع میں متعارف ہوتا ہے، جس کا گزر بسر اپنے بیٹے فضل دین کی مانگے تانگے کی روٹیوں ، مسجد میں پیش امامت سے حاصل کردہ آمدنی سے بہت تنگدستی سے ہوتا ہے اور جو انگریزی تعلیم کے خلاف فتاوٰی جاری کرتا ہے مگر جب خود سرکاری سکول میں عربی وفارسی زبان کا منشی مقرر ہوتا ہے تو پھر کس طرح سے گرگٹ کی طرح سے رنگ بدل کر اب تعلیم (انگریزی) کے حق میں احادیث اور آیات سنا سنا کر اپنا رزق حلال کرتا ہے۔ اور اس کا بیٹا فضل جدید تعلیم حاصل کر کے کس طرح سے سیکٹریٹ میں اسسٹنٹ بن کر تقسیم کے دوران اندھے والی ریوڑیاں بانٹ کر اپنے خاندان کو کہاں سے کہاں لے جاتا ہے اور گاؤں میں ہر گھر میں مانگے کی روٹیاں اکٹھا کے والے فضلو سے پہلے مولوی فضل حق اور پھر مولانا فضل حق خاں بنتا ہے۔ یہاں پر چارلس ڈارون کی ارتقا کی کہانی(سوشل ڈاروانزم) تھوڑی تھوڑی سمجھ آتی ہے۔ اور پھر اخیر اس کا بیٹا نواز الحق جو کہ نائب تحصیلدار بھرتی ہو کر اپنے باپ دادا کے خصوصی ہنر کی مدد سے ڈپٹی کمشنر بن کر اپنے دادا کے محسن کواپنی نولکھی کوٹھی سے محروم کرکے حقیقی معنوں میں طوطا چشمی کا ثبوت دیتا ہے۔ ایسے بہت سے کردار ہماری حقیقی زندگی میں بکثرت موجود ہیں جو کہ مولوی کرامت کی طرح خالی ہاتھوں سرکار کی اس نولکھی کوٹھی میں داخل ہوتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ سرکاری ملازم چاہے کلرک ہو، پٹواری ہو، تحصیلدار ہو یا دوسرے صاحب بہادران ہوں، وہ سالوں میں کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں اور 'سالا میں تو صاحب بن گیا' ہو جاتے ہیں۔
بٹوارے سے پہلے اور بعد کے سماجی، معاشی ، سیاسی، مذہبی، تعلیمی اور ثقافتی پہلوؤں کی عکاسی کرتا ہوا یہ ناول پڑھے جانے سے تعلق رکھتا ہے۔

خلیل الرحمان
Profile Image for Saba.
27 reviews
June 13, 2025
نولکھی کوٹھی ایک انگریز ضمیر کی روداد ہے جس کی تین نسلیں پاکستان کے موسموں میں پھلتی پھولتی رہیں اور اس قدر مانوس ہوگئیں کہ ان کھیت کھلیانوں کو چھوڑ کر واپس روح کو جماتی برف میں جا بسنے کا سنتے ہی بلبلا اٹھتیں۔ اس کتاب کا مرکزی کردار "ولیم" انگریز ضمیر کی عکاسی کررہا ہے جو بارہا ہندوستانیوں کی قابلِ رحم حالت پر بے چین ضرور ہوتا ہے مگر اپنے جابرانہ تسلط کو مقامی لوگوں کی ترقی و بہتری کی تھپکیاں دے کر سلا دیتا ہے۔

کہانی شروع ہوتی ہے "ولیم" کی بطور اسسٹنٹ کمشنر برصغیر پاک و ہند میں تعیناتی سے۔ ہر انگریز کی طرح وہ بھی خود کو ان جہالت اور کالے رنگ میں لپٹے مقامی لوگوں پر حکمرانی کرنے میں حق بجانب سمجھتا ہے۔ دوسرا اہم کردار ہے "غلام حیدر" کا۔ جس کے باپ کی موت اسے دوبارہ اپنے شہر کو سنبھالنے کے لیے ایک غیر مقام سے واپس اپنوں میں کھینچ لاتی ہے۔ مکمل کہانی میں خاندانی دشمنیاں نے اسے اپنے گھیرے میں لیے رکھا۔ خاندانی دشمنیاں، غلام حیدر کی غیرت اور انگریز سرکار کی تکونی چپقلش کہانی کو ایک سانچے میں ڈھالتی رہی۔ کہانی کا تیسرا اہم کردار ہے "مولوی کرامت"۔ اس کی چاپلوسی اور خوشامدی چال ڈھال نے اسے فقرا سے امرا کی صف میں کھڑا کرنے کے لیے بہت تگ و دو کی۔

ولیم اس کہانی میں آخر تک کیا کررہا ہے اور انگریز سرکار کا تسلط ہندوستان میں کیسے ٹوٹا ( آپی پڑھو ہن میں سارا دسن دا ٹھیکا تھوڑی لیا)🙊😂 خود پڑھے سب اس کتاب کے پیسے پورے ہونگے۔ (اللہ عزت رکھ لے اب)

جلال آباد(موجودہ انڈیا) سے سرحد کے اس پار سفر کرتی کہانی میں غلام حیدر کا انجام بھی اسے ان کرداروں میں شامل کر واپس گیا جن کے لیے میں روئی( I'm strong girl ::(ok don't make fun اور انھیں کبھی بھول نہیں پاؤں گی۔

کہانی میں اصل چاشنی گھولتی ہے قلم کار سے نکلی محبت جو پنجاب کی خوبصورتی کو بیان کرکے قارئین کے دلوں میں مٹھاس گھول دیتا ہے۔
Profile Image for Riaz Ujjan.
221 reviews4 followers
August 10, 2022
تین خاندانوں کی تقسیم ہند سے پہلے اور بعد کی کہانی. ایک ولیم کا خاندان جو کہ برطانوی تھا مگر اس کی پیدائش ہندوستان میں ہوئی تھی تو ہندوستان کی آزاردی اور دو ملکوں میں تقسیم کے وقت اس نے یہیں پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا، اس کی بیوی بچوں کو لے کر برطانیہ چلی گئی اور وقت گزرنے کے ساتھ اس نے اہنے شوہر سے رابطہ منقطع کر لیا. ولیم پاکستان میں رہ تو گیا مگر آہستہ آہستہ اس کی دولت اور ملکیت جاتی رہی اور کسمپرسی کی حالت میں دنیا سے چل بسا.
ایک غلام حیدر کا خاندان جس کا باپ درمیانے درجے کا ذمیدار تھا اور علاقے کے چھوٹے ذمیدار اس سے جلتے تھے اور خار کھاتے تھے اس کے باپ کی وفات کے بعد اسے چوٹ پہنچانے کی کوشش کی جس کے جواب میں غلام حیدر نے ان کو قتل کردیا اور دس سال روپوش رہا. جب اس کی سزا ختم ہوئی اور واپس آیا تو اس وقت حالات کافی بدل چکے تھے. احسان چکانے کی خاطر اس نے فیروز پور ضلع میں مسلم لیگ کو جتانے میں اہم کردار ادا کیا مگر اس سے ضلع کے اندر مسلمانوں اور سکھوں کے درمیاں نفرت بڑھ گئی. فیروز پور کا ہندوستان کا حصہ بن جانے کے بعد مسلمان وہاں سے ہجرت کو مجبور ہوئے مگر ہیڈ سلیمانکی پر آکر پھنس گئے جن کیلئے راستہ بنانے کی خاطر غلام حیدر کو اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑا. اس کے بعد غلام حیدر کے خاندان کا کچھ پتا نہیں چلا.
تیسرا مولوی کرامت کا خاندان جو تقسیم ہند سے پہلے اور بعد میں چاپلوسی سے ترقی کے زینے چڑہا.
ناول میں کہیں کہیں بہت زیادہ طول دیا گیا ہے. ناول کے آخر میں پاکستان میں ضیاء کے دور میں ہونے والے واقعات و حادثات کا سراری ذکر ہے. ساتھ میں ذکر تو evacuee property کی تقسیم اور اس میں ہونے والی بے ضابطگيون اور اپنا نوازی کا بھی تذکرہ ہے.
Profile Image for Rabia.
233 reviews66 followers
May 21, 2023
علی اکبر ناطق کی کتاب نو لکھی کوٹھی عرصہ دراز سے میری "ٹی بی آر" میں موجود تھی۔ یہ کتاب پڑھنے کے لیے خریدنے کے بعد تحفہ دیدی، پھر ایک کتب میلہ میں سے خریدی مگر کتب الماری کی زینت بنی رہی۔اب جب ایک دوست کا تبصرہ پڑھا تو سوچا پڑھ لیں۔
اس کتاب کو پڑھتے وقت ہر کردار ایسے محسوس کیا جس طرح وہ میرے سامنے ہے اور سب آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں میں۔ جس کردار کو میں نے سب سے اچھا پایا وہ ولیم کا کردار تھا۔ اگرچہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ ان کرداروں میں سے ہے جو حقیقی ہیں یا نہیں، اس کردار نے مجھ پر بہت گہرے نقوش چھوڑے۔ مجھے سودھا سنگھ اور غلام حیدر کی موت کا دکھ ہوا مگر جو میں نے ولیم کے لیے محسوس کیا وہ بہت الگ اور تلخ تھا۔
اگرچہ انگریز سرکار کے ہم غلام تھے مگر انہوں کے کچھ کاموں کو سراہنا ان کا حق ہے۔ اب تو ان کی نسلیں ہندوستانی بننے لگ گئی تھیں۔ ناطق کےاس ناول کو ادارہ انڈیپنڈنٹ نے پچھلے عشرہ میں لکھے گئے دس اچھے ناولز میں شمار کیا.
اگر دیکھا جائے تو ریل، ڈاک اور نہری نظام اگر انگریز یہاں بنا کر نہ جاتے تو شاید ہم ابھی بہت پیچھے ہوتے۔ یہ سب وہ بہتر طریقے سے اس لیےکر سکے کیونکہ انہوں نے اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کیا۔ اور نیچے تحصیل سطح کے افسران نے بھی فرض سمجھ کے کام نبھایا۔ اب نہ شاید اختیارات اتنے زیادہ دیے گئے ہیں اور نہ شاید کوئی اتنا کام کرنا چاہتا ہے۔
لے ناول میں، علی اکبر ناطق سیاسی انتخاب کرتے ہیں جو نئے، کم سیاسی طور پر درست اور اس لیے جرات مندانہ ہیں۔
راج اور تقسیم اردو ادب میں خاص طور پر سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب اور اشفاق احمد سمیت 1950 کی دہائی میں لکھنے والے مختصر افسانہ نگاروں کی اکثریت کے لیے جانا پہچانا موضوعات ہیں۔ احمد بشیر کے خود نوشت " دل بھٹکے گا" اور مستنصر حسین تارڑ کی "راکھ" بھی انہی موضوعات کے گرد نقش ہیں۔ قرۃ العین حیدر کا کام بنیادی طور پر نوآبادیاتی ہندوستان اور راج کے ساتھ ساتھ مسلم متوسط طبقے کی ثقافت کے زوال کے بارے میں بھی ہے، خاص طور پر اردو بولنے والے یوپی میں جہاں برطانوی سلطنت نے ابتدائی قدم جمائے تھے۔ دیہی پنجاب کو عام طور پر عبداللہ حسین نے بہت اچھے طریقے سے مخاطب کیا جسے ایک کلاسک ناول "نادار لوگ" کے طور پر سمجھا جاتا ہے، جس میں تقریباً اسی وقت اور اسی مقام کا احاطہ کیا گیا ہے جس کی کوشش ناطق نے نولکھی کوٹھی میں کی ہے۔
اس ناول نے مجھے مکمل ہونے کے بعد بھی اپنے حصار میں رکھا، ایسی خوبی ہر کتاب میں نہیں ہوتی۔ ہر کردار اپنے آپ میں مکمل تھا،ان میں نہ ہی کوئی ہیرو تھا نہ ہی کوئی ولن۔
Profile Image for Asim Bakhshi.
Author 8 books340 followers
July 2, 2023
ناطق کے اس پہلے ناول پر عموماً بے جا طوالت کا الزام لگایا جاتا ہے جو میری رائے میں اس اہم تخلیقی تجربے سے ناانصافی ہے۔ اس کے برعکس ناول کے نصفِ آخر کے وسط میں یہ احساس ہوتا ہے کہ ناطق ذہنی سطح پر جو کچھ کہنا چاہتے تھے اپنے تئیں کہہ چکے ہیں اور اب اسے جلد از جلد ختم کردینا چاہتے ہیں۔ اس کوشش میں ولیم کا مرکزی کردار جو تاحال اپنی بنت کے عمل سے گزر رہا تھا کسی حد تک دھندلا سا گیا۔ آخری حصے میں یہ کردار اپنے گرد پھیلی ہوئ�� یاسیت کے ساتھ نہایت خوبی سے ابھرا لیکن اپنی نفسیاتی پیچیدگی کی بس ایک جھلک ہی دکھا سکا۔

کہانی کی دلچپسی اپنی جگہ لیکن آخر تک پہنچتے پہنچتے تشنگی کا احساس تسکین کے احساس پر غالب ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ناطق نے اس ایک ناول میں کئی پرتوں کو کریدنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کی آمیزش اتنی گنجلگ ہے کہ وہ کھلنے سے انکاری ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب کی ثقافت، کرداروں کی زبان، منظرنگاری اور جزئیات پر ناطق کی گرفت کی فطری طور پر بہت مضبوط ہے کہ یہ ماحول ان کا اپنا ہے لیکن بیوروکریسی کی نفسیات، نوآبادیاتی تاریخ و سیاست اور سیفد فام کرداروں کی پیچیدگی کو نباہنے کے لیے جس تحقیق اور مطالعے کی ضرورت ہے وہ ناطق کے تخلیقی عمل کا حصہ نہیں۔
4 reviews
February 23, 2025
The book that makes me walk through the mustard fields of Uttarpradesh on a winter morning and you could smell the sweet smell of fresh jaggery and then as the winds shift it brings in the smell of boiling fresh turmeric. And then there are hamlets with merely 100 houses made of mud filled with people who haven't travelled more than 50 kilometres in their life with pledged allegiances to the landlords who own tracts of land and conspire against each other over religion, relationship, money and power. There are heroes, there are villains and there are people whose lives will never be recorded. This is a book that slowly makes you get into the world and then makes you stay and walk along those mud paths as you see the warring factions fighting with each other or burning the crops of one another.
2 reviews
March 6, 2025
ناول کی کہانی تقسیم ہند سے پہلے کے زمانے سے شروع ہوتی ہے اور پاکستان بننے کے لگ بھگ 30 سال بعد تک چلتی ہے۔ ناول کا زیادہ تر حصہ تقسیم سے پہلے کے وقت میں فیروز پور ، جلال آباد کے گاؤں، وہاں کے باسیوں ، آپس کی دشمنیوں اور انگریز سرکار کی کہانی بیان کرتا ہے جبکہ آخری حصہ تقسیم کے بعد پاکستانی سرکار اور لوگوں کے رویوں کی عکاسی کرتا ہے ۔
ناطق صاحب نے جس خوبصورتی سے کرداروں اور دیہی پنجاب کی منظر نگاری کی ہے، آپ پڑھتے ہوئے خود کو اس جگہ محسوس کرتے ہیں۔ کرداروں کے مکالمے ان کرداروں میں اس طرح رنگ بھرتے ہیں کہ آپ کے سامنے ایک مکمل تصویر بن جاتی ہے۔ انگریز سرکار کی ذہنیت اور مقامی آبادیوں پر گرفت کی کمال منظر کشی کی گئی ہے ۔
ناول آپ کو اس طرح سے گرفت میں لیتا ہے کہ آپ نہ صرف اس کو جلد مکمل پڑھنا چاہتے ہیں، بلکہ پڑھ لینے کے بعد بھی کئ روز آپ اس کے ماحول کو محسوس کرتے ہیں۔
ضرور پڑھیں اور لطف اندوز ہوں۔
4 reviews
Read
February 16, 2021
This is an amazing realistic story of the people who were not on the big canvas but played their role in the society for its betterment, protection, and paid the price with their blood.

This is a story which helps understand Punjab's culture, landscape, people's mindset and their firm stand to their cause.

This helps understand mindset of British and local bureaucracy as well and how the system was adopted after partition.

Once you start this novel, you can not resist finishing it. Ali Akbar Natiq beautifully portrayed the scape and details of The land. He maintained the interest of the reader and you actually find yourself within novel characters.

Looking forward to read his next novel "Kamari Wala".
Displaying 1 - 30 of 51 reviews

Can't find what you're looking for?

Get help and learn more about the design.