What do you think?
Rate this book


1072 pages, Hardcover
دل میں رہ جائیں گے تنہائی کے قدموں کے نشاں
اپنے پیچھے کتنی یادیں چھوڑ کر جاۓ گی رات
شام ہی سے سو گۓ ہیں لوگ آنکھیں موند کر
کس کا دروازہ کھلے گا کس کے گھر جاۓ گی رات
--
کبھی سمجھ میں نہ آیا وہ کون ہے کیا ہے
یہی بہت ہے کہ میں اپنے دل کو سمجھا لوں
--
مسافروں کا سفر ختم ہی نہیں ہوتا
ہوا اڑے ہوئے چہروں پہ خاک ملتی ہے
--
کس کے لئے جاگتے کس کی طرف بھاگتے
اتنے بڑے شہر میں کوئی ہمارا نہ تھا
شوق سفر بے سبب اور سفر بے طلب
اس کی طرف چل دیےجس نے پکارا نہ تھا
--
آنکھ میں چبھنے لگے شام کے گہرے سائے
ہم سے دیکھی نہ گئی ڈوبتے سورج کی جھلک
کہیں سوکھے ہوئے اشجار کا سایہ بھی نہیں
دھوپ میں لیٹی ہے اس گاؤں کی ویران سڑک
--
شعر کے روپ میں لاتے ہوئے گھبراتا ہوں
ہاے وہ غم جسے بچوں کی طرح پالا ہے
--
بند ہیں یوں دلوں کے دروازے
کوئی آیا یہاں نہ تھا جیسے
--
مر جاتی ہیں ننھی منی روحیں
رکتا نہیں زندگی کا دریا
نیندوں کو بہا کے لے گیا
بہتی ہوئی چاندنی کا دریا
--
ہر طرف چھاۓ گی وہ خاموشی
اپنی آواز سے تو چونکے گا
انہی ٹھہرے ہوئے لمحوں کا خیال
دل سے طوفاں کی طرح گزرے گا
مجھ سے کترا کے گزرنے والے
تو میری خاک کو بھی چومے گا
--
بلند ہوں گے تو کبھی پستیاں نہیں دیکھیں گے
خود اپنے ہاتھ سے ہم توڑدیں گے زینے کو
--
آنکھ مچولی کا زمانہ گیا
اب اسے کھونا اسے پانا نہیں
--
جینے والوں سے موند کر آنکھیں
مرنے والوں کے گیت گاتے رہو
--
یہ دل کا شہر مشکل سے بسا تھا
چلو اس شہر میں اب خاک اڑائیں