حماقتیں، کرنل شفیق الرحمان کے مزاح اور ظرافت سے بھرپور مختلف مضامین کا مجموعہ ہے۔ شفیق الرحمان کا مزاح ہلکا پھلکا، شگفتہ اور شائستہ ہے۔ کتاب میں درج ذیل مضامین شامل ہیں۔ نیلی جھیل بے بی تعویذ نناوے ناٹ آؤٹ بلڈ پریشر کلب تمنا حماقتیں قصہ پروفیسر علی بابا کا
This one is a good example of Shafiq ur Rehman's humour.It is about love,cricket,nature and observations on life.The beloved character,Shaitan livens things up.
The best part of the book for me was the elegant,lyrical prose in some passages.Those passages are worth reading again and again.However,at times the book just meanders along.
But it's not really a novel,but a series of humorous essays.
شفیق الرحمان کی کتاب "حماقتیں" انھیں دورِ حاضر کا بہترین مزاح نگار ثابت کرتی ہے۔ شفیق الرحمان کے طرزِ تحریر اور اندازِ بیان میں سلاست و روانی اور شگفتگی پائی جاتی ہے۔ قاری کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیرنے کے لیے وہ تصنع اور بناوٹ کا سہارا نہیں لیتے۔ درحقیقت ان کے مضامین کے کئی مکالمے ایسے ہیں جنھوں نے بعد میں لطیفوں کا روپ دھارا۔ کتاب کے مضامین صرف مزاحیہ پہلو نہیں لیے ہوئے بلکہ ان میں کہیں نہ کہیں کوئی مقصد چھپا ہے۔ شفیق الرحمان بڑے سادہ انداز میں پتے کی بات کہہ جاتے ہیں۔
A collection of witty stories with some great characters among which Roofi (nicknamed as 'shaitaan') is my favourite. There is cheesy romance, wit, humour and elegant-refined prose, something very uncommon in modern urdu literature. But I can't say that it was at par with Patras or Yousafi, but certainly has its place among the finest works of humour in Urdu.
Perfect for a cosy afternoon reading, recommended with a cup of chai/tea and a warm blanket. Happy December!
شفیق الرحمان صاحب کی کتاب حماقتیں کے پہلے پیرے نے ہی مجھے اپنے سحر میں جکڑ لیا اور چند نشستوں میں ہی پڑھ ڈالی۔ اس انداز تحریر کا میں شروع سے ہی گرویدہ ہوں، یہی وجہ ہے کہ پطرس بخاری میرے پسندیدہ ترین لکھاری ہیں اور اب شفیق الرحمان بھی۔ شفیق الرحمان صاحب کا شگفتہ انداز تحریر، الفاظ اور سچویؑشنز پر انکی مکمل گرفت، اور اس کتاب میں بیان کیا گیا پاکستان کم از کم میرے لیے اچھوتا اور بہت خوشگوار تجربہ تھا۔
Great book for light and humorous reading.. Few parts were a little boring for me but overall it is a good book.I enjoyed reading it. My favourite chapters are بےبی تعویذ In chapter کلب the speech part was so funny😂 And I really enjoyed مقفّہ نثر style of قِصّہ پروفیسر علی بابا کا While reading this chapter I was reminded of the writing style of باغ و بہار
“تمہیں تو آج مسرور ہونا چاہئیے۔ جب خدا کسی سے خوش ہوتا ہے تو اُس کو محبت عطا کرتا ہے۔ تمہیں وہ عطیہ ملا ہے، جو بہت کم انسانوں کو ملتا ہے۔ ایسے حالات میں جب تمہیں اس کی بالکل توقع نہیں تھی، تمہیں محبت ملی۔ اور پھر کیسی پیاری لڑکی کی معصوم محبت۔ حالات پر تمہارا قابو نہیں۔ وقت کے سیل کو تم نہیں روک سکتے۔ تم دونوں کو جدا ہونا تھا۔ ایسے دلآویز لمحے لافانی ہوتے ہیں اور مٹ جاتے ہیں،لیکن ان کی یاد رہ جاتی ہے، اور یہ یاد زندگی کے اداس لمحوں کو جگمگاتی ہے۔ کیسا کیف آور خیال ہے، کہ کبھی تمہیں ایک بھولی بھالی مخلص لڑکی نے چاہا تھا، اور شاید اب بھی دنیا کے کسی گوشے میں وہ تمہیں یاد کر لیتی ہے — کتنی حسین یاد ہے — سب کچھ فنا ہو جاتا ہے، لیکن یادیں فنا نہیں ہوتیں، یادیں زندگی بنتی ہیں۔”
شفیق الرحمن اردو ادب کے ان چند نایاب لوگوں میں شامل ہیں، جنہوں نے اس ادب کو ہنسی اور ظرافت کے تحفوں سے نوازا ہے۔ یہ مختصر کتاب بھی اسی زندہ دل انسان کی ایک عمدہ اور اعلی ترین کاوشوں میں سے ایک ہے، جس سے وہ ہمارے روز مرہ مرجھائے، اداس اور تاریک لمحوں میں ہمارے سنجیدہ لبوں کو تبسم کی رونق افروزی سے مزین کرتے ہوئے اتنی خوش دلی اور شفگتگی عطا کرتے ہیں کہ ہم اپنے اردگرد سے لا پرواہ ہو کر بآواز بلند قہقہوں میں سر تا پا ڈوبے ہوتے ہیں۔
زیر نظر کتاب درج ذیل افسانوں پر مشتمل ہے: نیلی جھیل، بےبی، تعویذ، ننانوے ناٹ آؤٹ، بلڈ پریشر، کلب، تمنا، حماقتیں، قصہ پروفیسر علی بابا کا۔
'نیلی جھیل' میں لڑکپن کے دنوں کی یادوں کو ایسے شائستہ انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ بارہا مختلف مقامات پر بے خودی میں قہقہوں کی برسات ہو جاتی ہے۔
اور 'بےبی' میں ان نوجوانی کے دنوں کا تذکرہ ہے جب انسان پہلی بار کسی مقام پر اپنا دل ہار بیٹھتا ہے؛ واقفیت سے ملاقاتوں تک، ساتھ بتائے لمحوں سے لے کر فراق کے بعد کی یادوں تک، اور محبوب سے خط و کتابت سمیت سب نازک رومانی احساسات اور یادوں کو یہ مختصر افسانہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ لیکن اس کا آخری سبق یہی ہے کہ کچھ بھی ہو جائے، جتنی بھی جدائیاں ہوں، محبت کے کڑے امتحانات ہوں؛ طبیعت کی کشش اور جازبیت کی تجلیاں شخصیت کے مظہر سے غائب نہ ہونے پائیں۔
'تعویذ' جیسا افسانہ جس میں مزاح کے ساتھ اصلاح کا پہلو بھی پنہاں ہے، میں نے آج تک نہیں پڑھا۔ اسے پڑھنے کے دوران میں قہقہوں کے غیر اختتام پزیر حملہ کی زد میں تھا اور حالت ناگفتہ بہ تھی۔ بہت ہی اعلی پائے کا مزاح۔
'ننانوے ناٹ آؤٹ' شوخ مزاجی، دل لگی، ظرافت کے ساتھ کرکٹ کے مزاحیہ پہلو سے لبریز ہے۔ اس کے مطالعہ کے بعد آپ کرکٹ کو ایک نئے پر مزاح ڈھنگ سے دیکھنا اور کھیلنا شروع کر سکتے ہیں۔
'بلڈ پریشر' میں ہماری خودساختہ طور پر ادراک شدہ بیماریوں کے شکار ہونے کے بعد رو بصحت ہونے کا مزاحیہ مکالمہ ہے، جسے پڑھ کر خفیف سی مسکراہٹ لبوں پہ سجی رہ جاتی ہے۔
'کلب' میں ان معاشی یا غیر اخلاقی خامیوں کا تذکرہ ہے، جو عموما کلب کے ہر گوشے میں سنی اور دیکھی جا سکتی ہیں اور آخر میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ آدمی کے سماجی (social) ہونے کیلئے ضروری نہیں ہے کہ کلب کی رکنیت لازمی حاصل کی جائے۔
'تمنا' میں شفیق صاحب اپنے دوست روفی صاحب کی تمنا نامی لڑکی پہ فریفتہ ہونے کی روداد ایسے انداز میں بیان کرتے ہیں کہ ہنسی روکنی مشکل ہو جاتی ہے۔
'حماقتیں' غالبا ان دونوں کی تخلیق ہے جب شفیق صاحب آرمی میں بطور ڈاکٹر کہیں غیر ملک تعینات تھے۔ اس میں موڈی صاحب کی چالاکیوں کے ساتھ شفیق صاحب کی دل پھینک طبیعت اور چنچل حسینہ کے ساتھ رقص کے مواقع ڈھونڈنے کی مزاح سے بھر پور تفصیل ہے، جسے پڑھ کر ایک رومانوی لطف محسوس کیا جا سکتا ہے۔
اور آخر میں 'قصہ پروفیسر علی بابا کا' ایک عمدہ قسم کی پیروڈی(parody) ہے، جو 'علی بابا اور چالیس چور' اور جارج آرویل کی اینیمل فارم( Animal Farm by George Orwell) سے ماخوذ ہے۔ اس میں پہلی بار میں نے شفیق صاحب کو دقیق اور گہری اردو لفاظی استعمال کرتے دیکھا ہے، جو یقینا ان کی اردو زبان پر گرفت کا واضح ثبوت ہے۔
یہ ایک ایسی کتاب ہے، جسے ہر اہل ذوق اور خوشیوں کے متلاشی کو لازمی پڑھنا چاہیئے۔
The first book that I ever read, Alif. A vivid memory: Blood pressure. Based on Shaitaan and his eyesight. Hansi mazaak ki kitaab, not the last story (in which animals were talking to each other), though.
Shafiq ur Rehman is one of the renowned humour oriented (mazah) writer. It demands time to go with the flow of expression and his narrative style in this book. worth reading book!!!
The novel “Hamaqatien” beautifully explores themes of love, cricket, and nature while offering thoughtful reflections on life. It incorporates elements of romance, wit, and humor, all presented in a refined prose style that stands out in contemporary Urdu literature. The character of Shaitan adds a lively and engaging dynamic to the story, enhancing the overall reading experience.
The first half of the book is outstanding. The humor is not only beautiful but also profoundly impactful. It evokes a lovely sense of nostalgia, dragging you back to a simpler time. However, the second half falls flat. It becomes somewhat boring, and while there are a few interesting moments, overall it took me some extra effort to get through. The first half of the book showcases such excellence that I strongly recommend it. I found the standout moments immensely enjoyable. It's important to note that this work isn't really a novel but rather a collection of humorous essays.
I found the first half of the book to be incredible. The humor was beautiful (I was actually laughing out loud every few minutes) while being simultaneously profound in many ways. There's a lovely nostalgic quality to the essays, takes you back to a simpler time.
The second half was okay. It got a little boring for me, some parts were interesting but overall it took me some effort to finish it.
However just for the excellence of the first half of the book, I'd still highly recommend to read this. Enjoyed the good bits (for me) so much.
مصنف کے اندر بات سے بات پیدا کرنے اور بات کے مزاحیہ پہلو نکالنے میں مہارت تو ہے مگر بے تکی ہانکتے چلے جاتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بس بات لمبی کرنا ہی مقصود ہے۔ کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بیان سے روانگی بالکل مفقود ہے جیسے کسی اور زبان کی کہانی کا ترجمہ چل رہا ہو۔ غرض یہ کہ کتاب اسم با مسمی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو ادب کے صحت مند اور شگفتہ مزاح کے خالق شفیق الرحمٰن ہیں جو اپنی باتوں سے پھلجڑیاں بکھیرتے ہیں اور ان کا جزبات نگاری کو بیان کرنے کا انداز ایسا دلکش ہے کہ ہر قاری اسے اپنی کہانی سمجھ کر پڑھتا ہے ، اردو ڈائجسٹ کی طرف سے شفیق الرحمٰن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ: " شفیق الرحمٰن کو کون نہیں جانتا ؟ شاید وہ نہ جانتے ہوں جو ہنسنا نہیں جانتے۔