کتاب ’’مزید حماقتیں‘‘ شفیق الرحمٰن کے مزاحیہ اور دل چسپ مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں درج ذیل مضامین شامل ہیں۔ تزکِ نادری عرف سیاحت نامۂ ہند یہ ریڈیو روم تھا کلیدِ کام یابی حصہ دوئم شیطان، عینک اور موسمِ بہار ملکی پرندے اور دوسرے جانور سفرنامہ جہاز باد سندھی کا دو نظمیں ٹیکسلا سے پہلے، ٹیکسلا کے بعد زنانہ اُردو خط و کتابت برساتی
شفیق الرحمان کی ایک اور عمدہ کتاب لیکن "مزید حماقتیں' کا "حماقتیں" سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ حماقتیں کا ہر مضمون ہی دلچسپ تھا اور مزاح کے دریا پھوٹتے تھے۔ "مزید حماقتیں" میں اتنا مزاح نہیں۔ البتہ پہلا مضمون "تزک نادری" بلاشبہ لاجواب ہے، بہت اعلا۔
a brilliant piece of Urdu humor, I was bit reluctant of picking it because the previous one Hamaqatein did not inspire me much but I was in for a big and a pleasant surprise as right from the beginning (TUZK E NADIRI-mock travelogue by Nadir Shah) to "TAXILA SE PEHLE TAXILA KE BAAD" and to the ultimate laugh riot titled "JAHAZ BAAD SINDHI" (parody of Seven voyages of Sindbad) it is a must read though any body belonging to branded leftist movement might feel annoyed by Shafiqur Rehman digs at them and some feminists also due to the portrayal of women mostly as a materialistic nature or more bluntly gold diggers, however the last chapter "BARSATI" should not be there as it is a short story with a heavy theme- a mismatch for this collection of satirical essays.
یہ کل 10 (دس) افسانوں پر مشتمل ہے جن کے عنوان درج ذیل ہیں:
تزک نادری عرف سیاحت نامہء ہند یہ ریڈیو روم تھا کلید کامیابی حصہ دوئم شیطان، عینک اور موسم بہار ملکی پرندے اور دوسرے جانور سفر نامہ جہاز باد سندھی کا دو نظمیں ٹیکسلا سے پہلے، ٹیکسلا کے بعد زنانہ اردو خط و کتابت برساتی
'تزک نادری' دراصل پیروڈی ہے، جسے نہایت اچھوتے انداز میں پیش کیا گیا ہے اور دوران مطالعہ قاری کا ہنسی سے برا حال ہونا لازم ہے۔
'یہ ریڈیو روم تھا' ایک مختصر افسانہ ہے، جو مصنف کے افسانہ 'برساتی' کے بعد کی مختصر روئیداد ہے، جسے ریڈیو روم کے انٹرویو کے نقشے میں پیش کیا گیا ہے۔
'کلید کامیابی حصہ دوئم' میں نام نہاد 'ذاتی مدد اور کامیابی' کے عنوان سے بازار میں موجود کتابوں پر ظریفانہ تنقید کے جو نشتر چلائے گئے ہیں، وہ لاجواب ہیں۔
'شیطان، عینک اور موسم بہار' میں مصنف اپنے دوست بمعروف شیطان کی چلبلی شرارتوں، ان کی ناکام محبتوں اور عینک سے ایک عرصہ تک کیلئے، باوجود ایں کہ انہیں عینک کے بغیر کم دکھائ دیتا ہے، گریز کی ایسی منظر کشی ہے جس میں واقعی 'حماقتیں' کی جھلک ملتی ہے۔
'ملکی پرندے اور دوسرے جانور' میں پطرس کے مضمون 'کتے' کی طرز پر چند مشہور ملکی پرندوں اور جانوروں کے خصائل ظریفانہ اور اوصاف رزیلہ کا بیان ہے، جو پڑھنے لائق ہے۔
'سفر نامہ جہاز باد سندھی کا' میں اس دور کے نام نہاد ترقی پسندوں کے نظریات اور ان کے نظریاتی ارتقاء میں ردو بدل کو تنقیدی زاویے اور پیروڈی کے انداز میں تحریر کیا گیا ہے۔
'دو نظمیں' دراصل دو مزاحیہ نظمیں ہیں جو اس کتاب کا حصہ ہیں اور بہت ہی عمدہ مزاحیہ شاعری کا نمونہ ہیں جو شفیق الرحمن صاحب کی اس پوشیدہ ادبی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
'ٹیکسلا سے پہلے، ٹیکسلا کے بعد' ایسا افسانہ ہے جو ہمیں شفیق الرحمن صاحب کی دنیا میں لے جاتا ہے، جہاں ان کے رفیق المعروف 'شیطان' محبت میں ناکامی کے بعد ماہر آثار قدیمہ بنے نظر آتے ہیں اور ان کی دریافتیں اور مقالہ جات ہمیں پاکستان کی ہر بستی پہ صادق آتے دکھائ دیتے ہیں۔
'زنانہ اردو خط و کتابت' تین چار زنانہ خطوط بنام خاوند، والدہ، سہیلی وغیرہ کے ہیں جن کے متعلق یہ شبہ تک نہیں ہوتا کہ یہ کسی مرد مصنف نے لکھے ہوں گے۔ اور کیا ہی عمدہ انداز تحریر ہے۔
'برساتی' اس افسانوی مجموعے میں میرا سب سے زیادہ پسندیدہ افسانہ ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے مجھے شفیق صاحب کے "کرنیں" کی یاد آ گئ، کیونکہ یہ بھی ویسے ہی چلبلا، اترنگا اور دل میں اتر جانے والا افسانہ ہے۔ اور اس میں کسی حد تک سفر نامے کا عنصر بھی غالب محسوس ہوتا ہے۔ یہ شفیق صاحب کی سوئٹزر لینڈ میں طب کی تعلیم کے دوران فرصت کے اوقات میں یورپ کے چیدہ چیدہ علاقوں کی سیاحت پہ مشتمل ہے۔ اور اس میں ایسی کشش ہے کہ قاری کے دل میں یہ خلش جاگ اٹھتی ہے کہ کاش یہ سیاح میں ہوتا۔۔۔