Jump to ratings and reviews
Rate this book

Kamari Wala / کماری والا

Rate this book
کماری والا میرا دوسرا ناول ہے۔ ’’نولکھی کوٹھی‘‘ کی مقبولیت کے سبب مجھ پر بہت زیادہ ذمہ داری عائد ہو گئی تھی۔ اس کے معیار کو دیکھتے ہوئے مَیں نہیں چاہتا تھا قاری مجھ پر رکھی گئی توقعات سے مایوس ہو۔ مَیں نے اپنے معیار پر کسی قیمت سمجھوتا نہیں کیا اور جتنا ہو سکا اِس پر وقت صَرف کیا۔ مجھے کامل یقین ہے قارئین اِسے پڑھ کر مجھے دُعائے مَحبّت سے یاد رکھیں گے اور اِن شاء اللہ برسوں تک ناول کی دُنیا سے نہیں نکل پائیں گے۔
علی اکبر ناطق

638 pages, Hardcover

First published November 1, 2020

5 people are currently reading
96 people want to read

About the author

Ali Akbar Natiq

19 books52 followers
Ali Akbar Natiq began working as a mason, specializing in domes and minarets, to contribute to the family income while he read widely in Urdu and Arabic. Acclaimed as one of the brightest stars in Pakistan's literary firmament, Natiq has published two volumes of poetry and one collection of short stories.

अली अकबर नातिक़ का जन्म 1976 में ओकारा, पाकिस्तान में हुआ था। मैट्रिक करने के बाद उन्होंने अपने परिवार के गुज़ारे के लिए एक राजमिस्त्री के रूप में काम करना शुरू किया और गुंबदों और मीनारों के माहिर मिस्त्री बन गए। उन्होंने उर्दू और अरबी साहित्य खूब पढ़ा और प्राइवेट से बीए की डिग्री हासिल की। उन्होंने उर्दू पत्रिकाओं में अपनी शुरुआती कहानियों और कविताओं के प्रकाशन के साथ ही साहित्य की दुनिया में अपना खास मुकाम बना लिया। उन्हें उर्दू में लिखने वाले बेहतरीन युवा लेखकों में से एक माना जाता है।

Ratings & Reviews

What do you think?
Rate this book

Friends & Following

Create a free account to discover what your friends think of this book!

Community Reviews

5 stars
17 (34%)
4 stars
14 (28%)
3 stars
13 (26%)
2 stars
3 (6%)
1 star
3 (6%)
Displaying 1 - 16 of 16 reviews
1 review3 followers
January 17, 2021
Another spectacular novel!!!Ali Akbar Natik amazes me with its command over each and every single aspect of literature whether it is novel,afsana ghazal,nazam or tanked!!!After reading this novel I felt that the writer knows the art of story telling!!He targeted many important social aspects of society in his novel!!!Manzar nigari is superb!!!Natiq is a master story teller and this novel is highly recommended!!!
Profile Image for Ghulam Qader.
15 reviews2 followers
February 2, 2021
نو لکھی کوٹھی کے بعد کماری والا ناول پڑھا طویل ہونے کے باوجود کسی جگہ پر بھی طوالت کا احساس نہیں ہوا۔اکبر علی ناطق صاحب جانتے ہیں کہ کیسے قاری کو اپنی تحریر کے ساتھ جوڑنا ہے۔کماری والا ایک عام سی کہانی ہے جو ایک گاؤں کے لڑکے کی کہانی ہے جس میں بہت سی تہوں سے بہت سے مسائل اور بہت سے چہروں سے نقاب الٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔جس خوبصورت انداز سے ناطق صاحب نے یہ کام کیا ہے کوئی اور نہیں کرسکتا۔
لگتا ہے بہت دن تک کماری والا ناول اپنے حصار میں جکڑے رکھے گا۔
Profile Image for Rizwan Mehmood.
171 reviews10 followers
June 29, 2021
نولکھی کوٹھی اور کماری والا ناول پڑھنے کے بعد میں اس بات کا قائل تو ہوگیا ہوں کہ منظر نگاری اور کردار سازی میں علی اکبر ناطق صاحب بہت مہارت رکھتے ہیں۔ دونوں ہی ناول بہت عمدہ ہیں۔ میر ی حتی الوسع کوشش ہوتی ہے کہ بہت ڈپرسنگ قسم کا ناول نہ ہی پڑھا جائے۔ پہلے ٹینشن تھوڑی ہیں جو اور گلے لگا لیں۔ لیکن اگر کہانی عمدہ ہو تو پھر برا نہیں لگتا۔ یہ بھی ایسی ہی ایک کہانی ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار “ضامن “ ایک لحاظ سے اپنی زندگی کی کہانی سنا رہا ہے۔ کہانی بچپن سے لے کر لڑکپن تک اور پھر جوانی تک آہستہ آہستہ دنیا کی اچھائی اور برائی آشکار ہو گی چلی جاتی ہیں۔ اتنے اچھے طریقے سے لکھا گیا ہیں کہ ضامن کی تکالیف کا احساس الفاظ کے ذریعے آپ باقاعدہ محسوس کر سکتے ہیں۔ کم از کم مجھے تو آحساس دلا گیا ہے۔ تلخ حقیقتوں کی طرف شروع سے ہی اس ناول میں نشاندہی جاری رہی ہے لیکن زیادہ تکلیف دہ عمل تب شروع ہوا جب ضامن عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے اور تب دنیا کی حقیقتیں کھل کر سامنے آتی ہیں جن کا علم سب کو ہوتا ہے اور بس نظریں چرانے کے سوا اور کیا کر سکتے ہیں۔ آج بھی یہ ریویر لکھتے وقت ایک موٹرسائیکل میکینک کی ایک چھوٹے شاگرد کو مار کٹائی کی ویڈیو وائرل ہے۔ معلوم نہیں ایسی کیا وہ معصوم غلطی کر بیٹھا تھا جو اتنی سنگین سزا مل رہی تھی۔ شاید غربت ہی سب سے بڑی غلطی تھی۔ اسی طرح کی چند حقیقتوں کا سامنا اس ناول میں کرایا ہے۔ تلخ حقیقتیں۔۔۔
Profile Image for Hammad Bajwa.
52 reviews3 followers
April 26, 2021
نولکھی کوٹھی کے فوراً بعد ہی اس کتاب کو پڑھا۔ طویل ہونے کے باوجود کہیں پر بھی طوالت کا احساس نہیں ہوا۔ ناطق کی اگلی تحریر کا شدت سے انتظار رہے گا۔
خدا ناطق صاحب کو مزید زور قلم عطا فرمائے، آمین
1 review1 follower
July 4, 2021
کماری والا" : ایک جائزہ"
"کماری والا، علی اکبر ناطق کا دوسرا ناول ہے ـ اس سے پہلے اُن کا ناول "نولکھی کوٹھی" چند سال قبل شائع ہوا تھا اور آتے ہی "وہ آیا، اس نے دیکھا اور چھا گیا" کے مصداق ہر خاص و عام پر اپنی دھاک بٹھا چکا ہےـ ان ناولوں کے علاوہ علی اکبر ناطق کے افسانوں کے دو مجموعے اور شاعری کی چند کتابیں بھی صفحہِ قرطاس پر آ کر قارئین میں سندِ مقبولیت پا چکی ہیں-

اس تناظر میں دیکھا جائے تو ان کے نئے آنے والے ناول سے بہت سی توقعات وابستہ ہونا کوئی اچنبھے کی بات ہرگز نہیں- اب جبکہ یہ ناول شائع ہو چکا ہے تو قارئین کی جانب سے اِس پر مختلف تبصرے بھی ہو رہے ہیں اور پسندیدگی کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے-

علی اکبر ناطق کا پہلا ناول "نولکھی کوٹھی" پڑھنے کے بعد، مجھے بھی "کماری والا" کا شدت سے انتظار تھا- اس لیے اس کے شائع ہوتے ہی بُک کارنر جہلم والوں سے بذریعہ کورئیر یہ ناول منگوا کر اس کا مطالعہ شروع کر دیا اور ابھی چند روز قبل ہی اس کو مکمل کیا ہے-

"کماری والا" ناول کی کہانی اُس کے ہیرو ضامن علی کے گرد گھومتی ہے اور اُسی کی زبانی بیان کی گئی ہے- ناول کا زمانہ لگ بھگ ساٹھ کی دہائی کے وسط سے لیکر نوے کی دہائی کے وسط تک کا ہےـ ناول کی کہانی ضامن علی کے بچپن سے لیکر لڑکپن اور پھر جوانی تک کا ارتقائی سفر ہے- اِس سفر کے دوران اُس کا بہت سے کرداروں سے واسطہ پڑتا ہے جن کی اپنی الگ الگ کہانی اور اپنے دُکھ درد ہیں- اِنہی کرداروں کے باہمی میل ملاپ سے ناول کی کہانی آگے بڑھتی ہے-

ناول کی عمومی فضا اور لہجہ (Tone) سوگوار ہے؛ دُکھ ہیں کہ ہر سُو بِکھرے پڑے ہیں جبکہ خوشیاں تو بالکل عَنقا ہیں؛ اور آگر ہیں بھی، تو ایسے جیسے ڈھلتی ہوئی شام، جس کے بعد غم کی ایک طویل اور المناک رات بسیرا کئے رہتی ہے-

ناول کے نسوانی کردار تو خاص طور پر کبھی نہ ختم ہونے والے مسائل اور دُکھوں کا شکار نظر آتے ہیں- لیکن یہ مظلوم و مجبور خواتین جس ہمت اور استقامت سے ان مسائل و مصائب کا مقابلہ کرتی دکھائی دیتی ہیں، وہ قابلِ تحسین ہے اور ناول پڑھتے ہوئے قارئین کو ان سے محبت ہونے لگتی ہے- ان میں عدیلہ، زینت، ڈاکٹر فرح، ضامن کی ماں اور شیزا کے کردار انتہائی جاندار ہیں- اُن کے پہلے ناول "نولکھی کوٹھی" کے برعکس جس میں زنانہ کردار محض خاکے (sketch) ہی نظر آتے ہیں؛ "کماری والا" میں تمام زنانہ کرداروں کو انتہائی مہارت سے تخلیق کیا گیا ہے اور اس ناول میں ناطق کردار نگاری (Characterization) کے عروج پر نظر آتے ہیں-

اس ناول کو ہم جُزوی طور پر آپ بیتی بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس کے ہیرو ضامن علی کے کردار میں ہمیں جا بجا مصنف کی اپنی جھلک نظر آتی ہے- لیکن مصنف نے معروضیت (objectivity) کو برقرار رکھتے ہوئے ناول کے اندر نہ تو کہیں اپنی ذاتی رائے ٹھونسنے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی کوئی مُبلّغ اور مَصلح بن کر نیکی و بدی کا درس دیا ہے- اِس کے برعکس ناول میں پیش آنے والے تمام حالات اور واقعات کو جُوں کا تُوں بیان کرکے کوئی بھی حتمی نتیجہ اخذ کرنے کا کام قاری پر چھوڑ دیا ہے-

یہ ناول حقیقت نگاری کا ایک شاہکار نمونہ ہے اور اس کو پڑھتے ہوئے بالکل ایسا ہی محسوس ہوتا ہے جیسے اس کے تمام کردار ہمارے آس پاس موجود ہیں اور ہم ان کے دکھ درد کے ساتھی ہیں- کسی بھی اعلیٰ ادبی پارے کا اوجِ کمال یہی ہوتا ہے کہ اس پر حقیقت کا گمان ہو، اور یہ خوبی اس ناول میں بدرجہ اتم موجود ہے-

جہاں تک موضوعات ( Themes) کی بات ہے تو ناطق نے اس ناول میں بہت سے متنوع قسم کے موضوعات کا احاطہ کیا ہے جن میں سے کچھ موضوع انتہائی حساس اور چونکا دینے والے ہیں، جن پر قلم اٹھانا انتہائی دل گردے کا کام ہے اور ناطق نے یہ مشکل کام بخوبی سرانجام دیا ہے-
میری ناقص رائے میں "محبت" اس ناول کا مرکزی خیال ہے کیونکہ ناول کا آغاز بھی محبت سے ہوتا ہے اور اختتام بھی محبت پر ہی ہوتا ہے، اور اسی محبت کی تلاش میں ہیرو بچپن سے جوانی تک کا صبر آزما ارتقائی سفر طے کرتا ہے جس کے دوران اس کی اپنی شخصیت اور زندگی بارے اُس کے نطریات پروان چڑھتے ہیں- لیکن یہ محبت روایتی قسم کی ہرگز نہیں ہے بلکہ اس سے کچھ ماورا ہے-

افسانے کے برعکس، ناول چونکہ بہت طویل ہوتا ہے، اس لیے اسکے اندر بہت سے موضوعات پر سیر حاصل بحث کی جاتی ہے- "کماری والا" کے اہم موضوعات میں بدیسی جہاد کے لیے اسکول کے بچوں کی جبری بھرتی، مدارس کو غیر مُلکی فنڈنگ، بڑھتی ہوئی فرقہ واریت اور انتہا پسندی ، مارکسی نظریات کے پیروکار کامریڈوں کا غیلظ اور بےکار طرزِ زندگی، جاگیر داری اور سیاسی نظام کا پوسٹ مارٹم، غیر پیشہ ورانہ اور ظالمانہ پولیس سسٹم، افسر شاہی کے مکروہ دھندے اور وطن فروشانہ سرگرمیاں، کلرکوں کی کریہہ عادات و نفسیات، کارخانوں میں مزدوروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک، مزدور یونینوں کی بدمعاشی اور مزدور مخالف رویے، صحافت کے نام پر صحافتی اقدار کی پامالی، اَپر مِڈل کلاس کے قابلِ اعتراض شب و روز اور مادہ پرستی، شوبز کی آڑ میں جنس کا کاروبار، شہروں کا بےہنگم پھیلاؤ اور درختوں کا خاتمہ وغیرہ شامل ہیں-

علی اکبر ناطق کا اسلوب بےحد دلکش اور زبان و بیان (diction) انتہائی سادہ اور عام فہم ہے، جس سے اُنکی نثر میں پانی کی سی روانی نظر آتی ہے- اور مختلف مناظر کو بیان کرنے کا انداز ایسا دلنشیں ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم اُنکی تحریر نہیں پڑھ رہے بلکہ کوئی پینٹنگز دیکھ رہے ہیں- خاص طور پر دیہاتی ماحول اور فطرت کی منظر کشی کرتے ہوئے جس طرح وہ جزئیات کا خیال رکھتے ہیں، اس پر دل عش عش کر اُٹھتا ہے- اِس من موہ لینے والی منظر نگاری کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیے:

"یہ گاؤں کا ایک چھوٹا سا چوک تھا- یہاں ایک سینکڑوں سال پرانا نیم کا درخت پورے چوک میں چھایا ہوا تھا اور سایہ اتنا گہرا تھا کہ دھوپ کی کسی کرن کا احساس تک نہ تھا- نیم پر چڑیوں اور دوسرے پرندوں کی بہتات نے پورے منظر کو بھر دیا تھا- نیم کے درخت کے نیچے دو چارپائیاں پڑی تھیں- اُن پر دو بُڈھے بیٹھے حقہ پی رہے تھے- کچھ عورتیں بیٹھی کروشیے سے کپڑے پر پھول کاڑھ رہی تھیں- ایک عورت دو بکریوں کو باندھ رہی تھی- کچھ بچے بھی اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے اور گلہریوں کی طرح درختوں کی شاخوں پر اُچھل کُود رہے تھے- یہ ایسی دنیا تھی جہاں زندگی موجود تھی مگر اُس کو بیان کرنے کے فلسفے نہیں تھے"-

قصہ مختصر یہ کہ "کماری والا" اپنے مَربُوط پلاٹ، دلچسپ کہانی، حقیقت سے قریب تر کرداروں، مُتنوع موضوعات، سادہ زبان و بیان اور حقیقت نگاری کے باعث ایک شاندار ناول ہے، اور اپنے سے وابستہ توقعات پوری کرتا نظر آتا ہے-
بقول علی اکبر ناطق کے "مجھے اِس ناول کا ایک ایک لفظ دل کے لہو کی روشنائی سے اُٹھانا پڑا-" اور یہ محض دعویٰ نہیں ہے بلکہ ناول کا ہر ہر لفظ اِس دعوے کی تصدیق کرتا ہے-

آخر میں اس ناول سے کچھ اِقتباسات پیش خدمت ہیں:

"لُٹانے کے لیے میرے پاس ویسے تو کوئی شے نہیں تھی مگر لُٹتے وقت انسان کو جس ذلت اور تشدد سے گزرنا پڑتا ہے، وہی بات اذیت ناک تھی"-

"نیک طینت دل کے مالک کو بدطینتی کے متعلق کسی احساس کا تجربہ نہیں ہو سکتا- وہ اُن کیفیات کو محسوس ہی نہیں ��ر سکتا جو بدطینت شخص کے وجود سے جنم لیتی ہیں"-

" تھانے کچہری یا اس طرح کی جگہیں عجیب نحوست زدہ ہوتی ہیں- جہاں سرکاری ملازم اور عوام کا درمیانی فاصلہ
کئی سمندروں کی گہرائی اور چوڑائی کا آئینہ ہوتا ہے"-
"انسان بعض اوقات ایک بےڈھنگی سی انا کی خاطر ایسی
بدصورت بےنیازی سے کام لیتا ہے کہ پھر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ضیاع کا پچھتاواعمر بھر
کی ملامت بن جاتا ہے"-

" ایسا ہو سکتا ہے ایک بے ایمان آدمی ایماندار ہو جائے لیکن علت میں مبتلا شخص کے لئے ممکن نہیں وہ علت کو چھوڑ دے"-

شہباز اشرف
Profile Image for Asim Bakhshi.
Author 8 books340 followers
July 18, 2023
ناطق کی تخلیقی صلاحیتیوں پر کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں لیکن نولکھی کوٹھی کے فوراً بعد کماری والا پڑھنے سے مجھے پر یہ ظاہر ہوا کہ ناطق کی تخلیق کا مرکز مکانی کیفیات ہیں۔ جسے عام طور پر منظرنگاری کہا جاتا ہے اُس کی بنت بھی انہی کیفیات میں سے اٹھائی جاتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان کیفیات کو کہانی میں پروتے ہوئے ناطق ان میں کھو سا جاتا ہے اور بہت سی جگہ پر منظر کرداروں کے خارج میں برتی جانے والی ایک واردات محسوس ہوتی ہے۔

کیا یہ ایک تخلیقی سقم ہے؟ میری رائے میں ہرگز نہیں لیکن بہرحال یہ ناول کی دنیا کے ساتھ سمجھوتہ ہے کیوں کہ ناطق کا تخلیق کیا گیا منظر تو ناقابلِ فراموش اورکہیں کہیں امر ہو جاتا ہے لیکن ناول ختم ہوتے ہی کردار دھویں کی طرح اڑ جاتے ہیں۔ میرا قیاس ہے کہ ناطق کے افسانوں کی فضا یقیناً مختلف ہو گی۔

لیکن اس تنقید سے قطع نظر کماری والا کئی مواقع پر قاری کو جکڑنے میں کامیاب رہتا ہے۔ کئی دوسرے قارئین کے برعکس میری خواہش یہ تھی کہ درختوں، پودوں اور پنجاب کی سرزمین کے ساتھ جڑے دوسرے زمینی عوامل پر ناطق مزید دل کھول کر قلم کشائی کرتے۔ اسلام آباد میں برتے گئے سین نہایت دلچسپ ہیں اور شہری ثقافت کی کئی ایسی تہیں کھولتے چلے جاتے ہیں جن پر شاذونادر ہی لکھا گیا ہے۔ سوانحی رنگ نے ناول کو اور بھی مضبوط بنا دیا ہے۔
This entire review has been hidden because of spoilers.
Profile Image for Huzaifa Riaz.
26 reviews8 followers
August 22, 2024
پچھلے سال علی اکبر ناطق کا ناول " نولکھی کوٹھی " پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ تقسیم کے ناول پر نہایت عمدہ ناول تھا جس میں کمال کی منظر نگاری تھی۔ اسی کے تاثرات ذہن میں رکھے مصنف کا دوسرا ناول "کماری والا " بھی منگوا لیا۔ مگر یہ ناول امیدوں پر پورا نہ اتر پایا۔ یہ ناول پاپولر فکشن کی طرز پر لکھا گیا پے، جس میں ہر پانچویں صفحے پر کوئی نہ کوئی ٹوئسٹ ہے۔ گو کہ یہ ترکیب ابتدا میں قاری کو کتاب سے باندھے رکھتی ہے مگر کچھ دیر میں یہ انداز بور کر دیتا ہے اور ایک پیٹرن بار بار دہرایا جاتا ہے۔ چار پانچ کردار ہیں۔ اور ہر وقت ان میں سے کسی ایک پر مصیبت آئ رہتی ہے اور باقی کردار ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔اس کا نقصان یہ ہوا کہ کوئی بھی کردار پختہ نہ ہوسکا اور نہ ہی کہانی جاندار بن سکی۔
کہانی پاکپتن کے علاقے " کماری والا" میں مرکزی کردار "ضامن علی سنانا شروع کرتا ہے اور ابتدا میں ہی زبردستی کی منظر نگاری شروع ہوجاتی ہے۔ شاید مصنف دیہات کی منظر نگاری میں "احمد ندیم قاسمی " اور " بلونت سنگھ " سے متاثر تھے، مگر ان جیسا حق ادا نہ کرسکے۔ پچاس ساٹھ صفحات کے بعد ناول کی کہانی ماضی میں چلی جاتی ہے جس کو غیر ضروری طوالت دی گئی ہے۔ آخرکار اختتام کے قریب جا کر کہانی کچھ اچھی لگتی ہے۔
چھے سو تیس صفحات کا یہ ناول وقت گزاری کا اچھا بہانہ ہے۔ اگر آپ کے پاس پڑھنے لائق سنجیدہ ادب نہیں ہے اور محض وقت گزارنا مقصود ہو تو یہ
ناول ضرور پڑھیں۔ وگرنہ نہیں۔
Profile Image for Tameel Fiza.
41 reviews2 followers
June 3, 2022
پڑھتے ہوئے کوئی چیز ناگوار گزرے تو پڑھنا جاری رکھتے ہیں یا وہی کتاب چھوڑ دیتے ہیں؟
علی اکبر ناطق کی کتاب نولکھی کوٹھی پڑھنے کے کچھ ہفتوں بعد کماری والا پڑھنی شروع کی_مصنف چونکہ اپنی منظر نگاری کی وجہ سے مشہور ہے وہ منظر نگاری جو نو لکھی کوٹھی میں اپنی زیادتی کی وجہ سے کچھ جگہوں پر ناگوار گزری کماری والا میں کامل لگی
گو نولکھی کوٹھی کی برعکس اس ناول میں نسوانی کردار کی کمی نہیں تھی، عدیلہ، زینت، شیزا، ضامن کی اماں، ڈاکٹر فرح کہانی کو جاندار بنانے کے لیے اپنا بھر پور حصہ ڈالتی پائی گئی ہیں پر کہانی مرکزی کردار ضامن علی کے گرد گھومتی دکھائی دیتی ہے اس کے بچپن، لڑکھپن، جوانی اور بڑھاپے کی طرف بڑھتے ہوئے زندگی کا اس پر گزر جانا دکھایا گیا ہے، بہت زیادہ دکھی چیزیں نہ تو پڑھنے کا دل کرتا ہے نہ دیکھنے کا میرے جیسا بندہ تو خاص طور پر کہتا ہے سائیڈ کراؤ اور اس کہانی میں دکھ ہی دکھ ہیں، ہر بندہ ہی دکھی ہے میں حیران ہوں کہ اتنی لمبی کہانی اور پھر دکھ ہی دکھ میں نے پڑھ کیسے لیے اور کچھ دفعہ تو ان کے دکھوں میں دکھی بھی ہو گئی میں
کہانی میں کئی ایک موضوعات کو چھوا گیا ہے جن میں فرقہ واریت(شعیہ اونر کیلنگ)، بدیسی جہاد کے نام پر طلبہ کی جبری بھرتی، کامرڈ حضرات کی طرز ذندگی، اشرافیہ کی وطن فروشانہ سرگرمیاں وغیرہ شامل ہیں
کچھ چیزیں جو ناگوار گزری وہ ایک دس سالا بچے کا پسندگی/محبت. میں گرفتار ہونا ہے مطلب کیوں بھئی؟ تاکہ کوئی بچہ ہمارے ارد گرد یہ کام کرے تو ہم کہیں کوئی بات نہیں ہوتا ہے، چلتا ہے، دنیا ہے؟
پھر کئی ایک مقام پر مختلف لوگوں کا ہم جنس پسندی دکھائے جانا ہے پھر نہیں مطلب کیوں بھئی؟ پہلے تو ہر جگہ یوں لگا کہ ناطق صاحب کہہ رہے ہیں بھئی ہوتا ہے ہوتا ہے خیر ہے، پر آخر میں ایسا لگتا ہے جب بچوں میں ہم جنسی تعلق لکھا تو ان کو لگا پکڑ نہ ہوجائے تو پولیس میں اطلاع کرنے چلے
پھر کہانی کا آخر لکھتے ہوئے ناطق صاحب نے کہا تمہیں جو خدشہ ہے وہ پورا کئے دیتا ہوں اور میں آئے ہوئے کر کہ رہ گئی، وہ خدشہ تو آپ کتاب پڑھیں تو آپ کو پتا چلے میں بتایا تو سپائلر ہو جائے گا
چھ سو سے کچھ اوپر صفحات کی اس کہانی میں سے یہ چند چیزیں نکال دی جاتی تو
جہاں کتاب مکمل کرنے میں ڈیڑھ ماہ لگ گیا شاید دو ہفتوں یا اس سے کم میں مکمل ہوجاتی اور میں کہتی کتاب نے باندھے رکھا، پڑھنے میں مزا آیا
Profile Image for Manzar.
21 reviews
October 6, 2025
کچھ کہانیاں ہمارے اندر کہیں گہرائی میں اتر جاتی ہیں۔ وہ ہماری نہیں ہوتیں، مگر ہم سے جدا بھی نہیں ہوتیں۔ ان کے کردار، ان کے دکھ، ان کی چیخیں — سب ہمارے اندر جاگزیں ہو جاتی ہیں۔ “کماری والا” بھی ایک ایسی ہی کہانی ہے۔ یہ صرف ایک ناول نہیں، ایک زخم ہے، ایک آئینہ ہے، ایک سفر ہے جو قاری کے دل کو اندر سے بدل دیتا ہے۔

علی اکبر ناطق نے اس کہانی کو صرف لکھا نہیں، جیا ہے۔ ان کا قلم ایسا لگتا ہے جیسے وہ خود ہر کردار کی سانسوں میں بستے ہوں، ان کے دکھوں میں تپتے ہوں، اور ان کے فیصلوں کے بوجھ تلے جھکتے ہوں۔ “کماری والا” کی فضا میں ایک عجب اداسی ہے، مگر یہ اداسی بے مقصد نہیں۔ یہ وہ خاموش درد ہے جو ہر معاشرے کے پس پردہ چھپا ہوا ہے — جہاں تقدیر کا قلم ہمیشہ طاقتور کے ہاتھ میں ہوتا ہے، اور کمزور صرف انجام بھگتتا ہے۔

کہانی شروع ہوتی ہے تو دل بوجھل ہو جاتا ہے، مگر جیسے جیسے صفحے پلٹتے ہیں، حقیقتیں بے نقاب ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ناطق صاحب قاری کو ایک ایسے راستے پر لے آتے ہیں جہاں خواب، لالچ، مذہب، سیاست، اور اخلاق — سب ایک دوسرے میں الجھ جاتے ہیں۔ اور جب کہانی اپنے انجام کے قریب پہنچتی ہے، دل میں ایک عجیب سا خلا رہ جاتا ہے، جیسے کچھ چھن گیا ہو — یا شاید جیسے کچھ سمجھ آ گیا ہو۔

صفیہ کا خط — ناول کا وہ لمحہ جہاں الفاظ نہیں، صرف درد بولتا ہے۔ وہ خط ایک بیٹی کی خاموش فریاد ہے، جو اپنی ماں کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو مخاطب کرتی ہے۔ “میں قاری کے گھر نہیں جا سکتی، اس لیے حبیب کے ساتھ جا رہی ہوں…” — یہ جملہ صرف ایک فیصلہ نہیں، صدیوں پر پھیلی سماجی ناانصافی کا اعلان ہے۔ صفیہ کی خاموشی ایک چیخ بن جاتی ہے، جو ہر اس بیٹی کے دل سے اٹھتی ہے جسے خاندان، مذہب یا غیرت کے نام پر قربان کر دیا گیا۔

“کماری والا” کا اصل کمال یہ ہے کہ یہ ہمیں آئینہ دکھاتا ہے — وہ آئینہ جس میں ہمارا معاشرہ اپنے اصل چہرے کے ساتھ نظر آتا ہے۔ یہاں مذہب کے نام پر سیاست ہے، سیاست کے نام پر منافقت، اور منافقت کے نیچے دبے ہوئے عام انسانوں کی لاشیں ہیں۔ ناطق صاحب نے شیعہ سنی تقسیم سے لے کر مدارس کی فنڈنگ، جہادی تنظیموں کی ریاکاری، صحافت کی بدعنوانی، گلیمر کی دنیا کا بھیانک روپ اور مال و زر کی محبت — سب کچھ ایسی بے رحمی سے پیش کیا ہے کہ قاری کے اندر کا سکون لرز اٹھتا ہے۔

ان کے کردار مکمل اچھے یا برے نہیں — سب کے رنگ دھندلے ہیں۔ وہ انسان ہیں، وہ غلطیاں کرتے ہیں، وہ ٹوٹتے ہیں، وہ جیتے ہیں۔ یہی ان کی سچائی ہے۔ یہی ناطق صاحب کی کہانیوں کا کمال ہے — وہ ہمیں کسی نتیجے پر مجبور نہیں کرتے، بس اتنا کرتے ہیں کہ ہم خود اپنے اندر جھانکنے لگتے ہیں۔

ناول کی زبان سادہ ہے مگر اثر میں گہری۔ ناطق کے جملے شور نہیں مچاتے، بس دل میں کہیں ٹھہر جاتے ہیں۔ ان کی منظر نگاری ایسی ہے کہ قاری محسوس کرتا ہے جیسے وہ خود اس قصبے کی گلیوں میں چل رہا ہو، صفیہ کے خط کے ساتھ بیٹھا ہو، یا اس معاشرے کے منافق چہروں کے بیچ سانس لے رہا ہو۔

میں کوئی نقاد نہیں، نہ کوئی بڑا قاری۔ بس ایک عام انسان ہوں، جس نے یہ ناول پڑھا اور دیر تک خاموش رہا۔ کچھ کتابیں ختم نہیں ہوتیں، وہ دل میں رہ جاتی ہیں — “کماری والا” انہی میں سے ایک ہے۔

علی اکبر ناطق کے نظریات سے کسی کو اختلاف ہو سکتا ہے، مگر فن اختلاف سے ماورا ہوتا ہے۔ ناطق صاحب کا یہ ناول صرف فکشن نہیں، ایک صداقت ہے — ہمارے دور، ہمارے معاشرے، اور ہماری روح کی صداقت۔

اگر آپ نے کبھی زندگی کے درد کو قریب سے محسوس کیا ہے، اگر آپ نے کبھی سوچا ہے کہ انسان کیوں ٹوٹتا ہے، اور کیوں خاموش رہتا ہے — تو ���کماری والا” ضرور پڑھیں۔ یہ کتاب آپ کے اندر کچھ بدل دے گی — شاید ایک سوال، شاید ایک آنسو، یا شاید وہ احساس جو بہت عرصے سے آپ کے اندر قید تھا۔

یہ صرف ایک کہانی نہیں، یہ انسان ہونے کا کرب ہے — اور شاید یہی وہ تحفہ ہے جو صرف بڑے لکھنے والے دے سکتے ہیں۔

تبصرہ: منظر عباس
Profile Image for sohail bhatti.
557 reviews3 followers
August 11, 2022
علی اکبر ناطق کا مداح ہو گیا ہوں۔ زندگی کو اتنے قریب سے مشاہدہ کرنے کے بعد اس قدر پرتاثیر تحریر کم ہی لکھاریوں کے حصّے میں آتی ہیں۔ اتنے زیادہ کرداروں کے ساتھ انصاف کرنا پھر ان سب کو اس طرح سمیٹ لینا کہ کوئی بھی کردار بے موقع نہ لگے یہ بھی علی اکبر ناطق کا خاصہ ہے۔ میرا علی صاحب سے
ملنے اور ان کی باقی کتب پڑھنے کا شوق بڑھتا جا رہا ہے۔
Profile Image for Hassaan Shabbir.
20 reviews
July 7, 2023
ہر کوئی اسی مضمون پر لکھنا چاہتا ہے اور لکھ بھی رہا ہے لیکن اس میں اچھی بات یہ ہے کہ یہ نئی طرز پر لکھا گیا پرانے منظر میں ایک اچھا ناول ہے بس اس میں جو پتے درخت کچھ زیادہ ہی ڈل گئے جو میں سمجھتا کہ کہانی کو پڑھنے والے کے لیے تھوڑی دیر کے لیے کہانی سے ہٹا دیتے ہیں جو کہ بلکل بھی اچھا نہیں ہے۔
Profile Image for Muhammad Islam ulhaq.
6 reviews
November 13, 2024
Loved this book it covered various social issues and being a part of rural area fealt really connected with the story. A master piece form Ali Akbar Natiq.
Profile Image for Usman.
6 reviews
December 13, 2024
I picked up this book with high expectations. While it has an overall good theme, it feels overly prolonged with too many side stories. The author could have avoided some of the final chapters.
Displaying 1 - 16 of 16 reviews

Can't find what you're looking for?

Get help and learn more about the design.