Jump to ratings and reviews
Rate this book

Darhi Wala / داڑھی والا

Rate this book

368 pages, Hardcover

First published April 1, 2021

35 people are currently reading
216 people want to read

About the author

Husnain Jamal

4 books16 followers

Ratings & Reviews

What do you think?
Rate this book

Friends & Following

Create a free account to discover what your friends think of this book!

Community Reviews

5 stars
19 (45%)
4 stars
13 (30%)
3 stars
4 (9%)
2 stars
2 (4%)
1 star
4 (9%)
Displaying 1 - 12 of 12 reviews
Profile Image for Asim Bakhshi.
Author 8 books340 followers
May 30, 2021
‏داڑھی والے میں بظاہر نہ تو آپ کو کوئی فلسفی یا نقاد نظر آئے گا نہ ہی مفکر یا دانشور۔ آپ روانی میں اس سے گزر جائیے تو یہ لذت بھری نثرنگاری بہت عام سے موضوعات پر دلچسپ عبارت آرائی معلوم ہو گی۔ لیکن جب اس تجربے سے گزر جائیے تو ایک لحظہ داڑھی والے کی سریت پر غور ضرور کیجئے۔ ‏آپ پر کھلے گا کہ یہ تحریریں ایک نادیدہ لڑی میں پروئی ہوئی ہیں۔ ایک ایسی لڑی جو خود داڑھی والے کے علم میں بھی نہیں، جسے وہ چاہے بھی تو نہیں چھیڑ سکتا۔ اس لچک دار لڑی کا ایک سرا خیال کے سرچشمے سے جڑا ہے تو دوسرا حرف و تصویر کی سیراب زمینوں سے۔ ‏یہ لڑی قاری کو یوں جکڑتی ہے کہ وہ قرأت متن میں بہتا تو ہے لیکن بہاؤ کو محسوس نہیں کر سکتا۔ یہی آکسیجن جیسی فطری نثر داڑھی والے کا کمال ہے۔ وہ اپنے نثری کُل میں اجزا سے بڑھتا ہی نہیں بلکہ اس کٔل ہی کی غیر عمداََ تخلیق دراصل اس کا نثری کارنامہ ہے۔ ‏داڑھی والا اتنی ہی عام زندگی جیتا ہے جتنا ہم میں سے کوئی بھی لیکن اس بظاہر عام سے تجربے کی تہہ میں چھپی بھرپور کیفیات کو برآمد کرنا کسی کسی کو ہی نصیب ہوتا ہے۔ زندگی کی intellectualization تو بہت سے لوگ کرتے ہیں جنہیں عرف عام میں دانشور کہا اور مانا جاتا ہے۔‏ زندگی کا خالص بیان وہی کر سکتا ہے جسے تہیں کھول کر اسے صفحات کی زمین پر بچھانا آتا ہو۔ تو بس حسنین جمال کی داڑھی والا کھولیے اور حیاتِ محض کی ان گنت پرتوں کا تجربہ ایسی لطافت سے کیجے جیسے ابھی ایک ساعت قبل آپ نے سانس لیا اور آپ کو تجربے کی پیچیدگی کا اندازہ بھی نہ ہوا۔
16 reviews2 followers
July 26, 2021
ایک کتاب / وتاب پر تبصرہ :
اردو کی ابتداء سے ہی ہماری نثری اور منظوم کتب کے نام بہت خوب صورت اور معنی انگیز ہوا کرتے تھے۔ اردو کی یہ ادا مجھے بہت بھاتی ہے۔
چند قدیم اور جدید کتب کے نام ملاحظہ ہوں
(یہ کسی لحاظ سے بھی ایک نمائندہ یا مکمل فہرست نہیں ہے۔ صرف نمونے کے چند نام ہیں جو فوری طور پر ذہن میں آ گئے):
باغ و بہار
فردوس بریں
من و یزداں
آثار الصنادید
فسانہء عجائب
مراۃ العروس
روزگار سفیر
آواز دوست
لوح ایام
سفر نصیب
گئے ہوؤں کی جستجو
گئے دنوں کا سراغ
محیط
کشت ویراں
درد دلکشا
سلسلہء روز و شب
روداد انجمن
گمشدہ لوگ
ہم جیتے جی مصروف رہے
کیسے کیسے لوگ
کوہ ندا
قبائے ساز
مخزن (جریدہ)
افکار (جریدہ)
اوراق (جریدہ)
فنون (جریدہ)
سیپ (جریدہ)
بانگ درا
غبار خاطر
یادوں کی بارات
آب گم
مرے دل مرے مسافر
زنداں نامہ
بال جبریل
اداس نسلیں
آگ کا دریا
آخر شب کے ہمسفر
کار جہاں دراز ہے
زرگذشت
شگوفے
۔۔۔ علی ہذا القیاس۔
مگر ۲۰۲۱ کا سال تو ایک بالکل ہی نئی شان سے آیا ہے۔ غالباً پہلی مرتبہ اردو کے قاری ایک ایسی چیز پڑھیں گے جسکا نام ہی اجنبیت کا لبادہ اوڑھے ہوۓ ہے۔ میری مراد “داڑھی والا” نامی چیز سے ہے (اسے کتاب کہنا تو سراسر ظلم ہو گا)
تسلیم کہ نیا پن اور جدید اختراعات زبان کا حسن ہوتی ہیں مگر اس نام سے کیا آپ توقع کر سکتے ہیں کہ یہ اردو ادب کی ادا ٹہرائی جا سکے؟ کیا ہم ضیاء اور اسکی روحانی اولاد کے پیدا کردہ ذہنی اور تخلیقی بحران کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔
اور منظر کچھ ایسا نظر آ رہا ہے کہ اس کے بعد اس سے ملتے جلتے ناموں کی کتب نما اشیاء کی بھرمار ہو گی، جیسے :
مونچھ والا،
بالوں والا،
دو آنکھوں والا،
ایک آنکھ والا،
پنڈلیوں والا ۔۔۔
سلسلہ چل ہی نکلا تو بھلا ہم کسی کے کہنے سے رک تھوڑی جائیں گے؟ بہت سے لوگ بلاگ لکھتے ہیں۔ بڑی اچھی بات ہے۔ اس احقر کے نکمے سے بلاگ کو پانچ لاکھ افراد پڑھ چکے ہیں۔ کل تک صحافی حضرات کالموں کا مجموعہ چھاپتے تھے اور جب سے صحافت “امیر کبیر” ہوئی ہے،اس کالم مجموعہ کو ادب کی صنف منوا لیتے تھے۔ اور اب تو یہ چلن عام ہو گیا ہے۔ اس سارئ تبدیلی میں ناشرین بھی بھلا پیچھے کیوں رہتے؟ کالم نویس ٹی وی سکرین سے اور یو ٹیوب سے متمول ہوتا گیا اور لوگ اسی شہرت کو فروخت کرنے لگے۔ تو بھلا ناشرین کیوں پیچھے رہتے؟
اچھا ایک اور بات، اردو میں ایک کمال کی خوبی ہے کہ اس میں لفظ کے ساتھ مہمل کا استعمال جائز متصور ہوتا ہے۔ کھانا وانا، پینا شینا، پڑھنا وڑھنا ۔۔۔ اب اس “چیز” کی طرف آئیں تو آپ اسے بڑے تیقن کے ساتھ “وتاب” کہہ لیں کیونکہ اسے کتاب کہنا ذرا جان جولھوں کا کام لگتا ہے۔
گذشتہ دنوں ایک مداح نے نہایت خوبصورت بات کی کہ یہ کتاب نہیں ہے (اور میں ان سے صد فیصد متفق ہوں) بلکہ ایک گراموفون ہے۔ تو صاحبو اب بک کارنر جہلم والے کتب تو چھاپیں گے ہی، ساتھ ہی منہ اور ذہن کا ذائقہ بدلنے کے لئے گراموفون بھی فروخت کیا کریں گے۔
اس وتاب کے شروع میں ہی ایک بلند و بانگ دعوی کیا گیا ہے کہ :
“تحریریں جو آپکی سوچ کو نیا زاویہ دیں گی”
اب بلاگر صاحب کو کوئی بتلائے کہ زاویہ صرف ۳۶۰ درجے کے اندر رہے تو زاویہ کہلانے کا مستحق ہے۔ ان حدود و قیود سے باہر جا کر وہ جو مرضی بن جائے، زاویہ کہلانے کا حقدار نہیں رہتا۔
مشتے نمونہ از کے طور پر “حجم” صاحب (حسنین جمال) کے چند عنوانات اور دوسری چیزیں ملاحظہ کریں:
-غربت میں عظمت کے بھاشن
-چٹا انکار (تو گویا اب کوئی کالا انکار بھی ہو گا)
- سافٹ بچے
- پوتے اور کرافٹوزم
-موٹیویشنل کالم
-اتھری غزل
- کامیابی اور ریلیٹیویٹی۔
(ص ۸،۹،۱۰)
آگے بڑھتے ہیں:
- ساری بات میں بھاشن کی فیلنگ
(ص۲۱)
- انتظار کو سیلیبریٹ(ص ۲۲)
- استھیٹک سینس لگا کر
-لگژری کمرہ
)ص ۲۶)
-راتیں گنوانے والے ہو۔ رات تو گذاری جاتی ہے ورنہ رات بجھ جاتی ہے۔ (ص۳۳)
اوپر والے فقرے سے آپ کیا معنی نکالیں گے؟
ص ۴۱ پر “پوسٹ سکرپٹم” کی اصطلاح اردو میں کس جگہ مستعمل ہے؟
مجھے نہ تو زبان میں تجربات پر اعتراض ہے نہ روایت شکنی پر۔ صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ فقرہ بازی اور ادب میں ما بعد الطرفین کا فرق ہے اور سدا رہے گا۔ کل کو ببو برال کے مکالموں کا مجموعہ بھی شائع ہو سکتا ہے مگر اسے ادب میں جگہ نہ مل پائے گی۔
اور ہاں یہ انکشاف پہلی بار ہوا ہے کہ شعاع سب رنگ جاسوسی، سسپنس اور دوسرے ڈائجسٹ پڑھ کر اب لوگ بہت شدید پڑھے لکھے کہلا سکتے ہیں!
یا اللہ ہم پر اور ہماری زبان اور تہذیب پر رحم فرما۔
Profile Image for Abdul Rehman.
2 reviews1 follower
November 3, 2021
موصوف بھی ہم میں سے ہی ہیں مگر زندگی کی روانی میں وقت کو تھامنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، یہی ان کا خاصہ ہے۔انکی تحریروں میں اک منفرد ذائقہ ملتا ہے ۔ جزبات الفاظ کے تابع ہوتے ہیں مگر موصوف نے اپنے جزبات وخیالات کی عمدہ عکاسی کی ہے
ادبی تکلف سے ماورا تحریروں کی روانی قاری کا کتاب سے تعلق برقرار رکھتی ہے ۔ بہرحال میری لائبریری میں یہ اک منفرد اور خوبصورت اصافہ ہے۔
Profile Image for Muhammad.
17 reviews2 followers
February 22, 2022
کتاب بس ٹھیک ہی ھے۔ یعنی اس میں کوئ بھی wow فیکٹر نہیں ھے۔ چند ایک باب بہت اچھے ہیں جن کا استعمال عملی زندگی میں بالکل ہو سکتا ھے
Profile Image for Chahat Batool.
25 reviews1 follower
November 3, 2023
#Review

"داڑھی والا "
A non-fiction book is written by Husnain Jamal Sahab. Who belongs to Peshawar graduated in mass communication later completed his BBA from virtual university. Basically, he is not the person of literature and linguistics yet, he maintained to pen down his own experiences beautifully and elegantly due to his immense interest in reading magazines, books and digests since childhood. He comes to be very keen person about perceiving the people and world around him. Hence, he has commenced his writing journey from 2002 when his first write up got published by Saleem Naaz Sahab. He later published his write up on his own father in 2011 which got appraises from everyone. Since then, he has published many stories, blogs and columns on different social media platforms. This "Daarhi wala" is the first book of the author published in 2021, which is the compilation of his all personal write ups and personal notions about life and society.
Husnain Jamal Sahab has penned down very basic, ordinary and everyday discourse of our lives in his book. Still, his book is unique in its taste, it's particular in its perception, it's novice at deciphering and elaborating the pithy and tiny yet harsh details of life. His personal experiences are like the experiences of every person's experiences in our society. But, the truth is! He is the best at deducing these least discussed topics of our society which must be broached and talked with one another, with one's closed people. The topic like understanding and appreciating the non stop or 24/7 duties of women who devote their whole lives for their families. The topic like how to be the best friend with one's own daughter in this harsh and absurd world. The topic like appreciating small changes and small successes in life instead of crying for bigger ones. The topic like adjusting and cherishing one's own possession and relations. The topic like understanding the dilemmas of women living in different societies specially in Pakistan. The topic like giving space or personal space is the key right of every individual in the society.
Jamal Sahab has highlighted some of very significant and ignored topics of our society in his book that impressed me completely and impeccably. Apart from these topic I truely loved his personal feelings in his letters to his daughter and his wife. The way he has described Gulzar Sahab, I personally felt that my love for Gulzar Sahab has increased with next level intensity.
Husnain Jamal Sahab is truely the author of ordinary people like us because, he has deeply spoken my heart in some of his write ups.
Write ups like
عورتوں کے موڈ اوین خراب نہیں ہوتے
مُحبت کرو یہ مر جاؤ!
شکر کریں آپ لڑکی نہیں ہیں !
These above excerpts have my whole heart. I enjoyed every single sentence of these topics. Apart from these the whole book is good. It's like someone is directly communicating with me telling me the stories of his life.
Husnain Jamal Sahab is the great man and really a beautiful writer. His ingenuous quality is that he writes the complicated things in the simplest manner and style.
#AJoyousRead
Ratings 9/10
Husnain Jamal
Profile Image for Annie Akram.
141 reviews9 followers
September 13, 2023
📚کتاب کا نام: داڑھی والا
📚مصنف کا نام: حسنین جمال
📚صفحات کی تعداد: 368

یہ کتاب اپنے کور اور ٹائٹل کی وجہ سے میری توجہ کھینچنے اور تجسس کو مہمیز دینے میں کامیاب ہوئی۔ سچ ہے کور پر محنت کتاب کی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔ لیکن بذات خود کتاب بھی ایک عمدہ مطا��عاتی تجربہ ثابت ہوئی۔

کتاب کے حوالے سے میری ایک پچھلی پوسٹ پر دو تین "اہل علم اور اہل زبان" احباب نے کتاب کی لسانی و ادبی قد کاٹھ پر مایوسی کا غیر ضروری اظہار کیا مگر میں یہ بتاتی چلوں کہ کتاب پڑھ کر تین باتیں آپکے علم میں آتی ہیں

اول: حسنین جمال کو ادیب یا منجھے ہوئے لکھاری ہونے کا کوئی زعم نہیں ہے
دوم: کتاب انکے کالموں اور بلاگز کا مجموعہ ہے لہذا یہاں ثقیل اور بھاری بھرکم زبان کے استعمال کی توقع بے معنی ہے
سوم: جن موضوعات پر حسین جمال نے قلم اٹھایا ہے وہ سب ہماری روز مرہ زندگی کے رجحانات ، کمیوں،کوتاہیوں سے متعلق ہیں اور مصنف انکو ہر کس و ناکس تک پہچانا چاہتے ہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہو پاتا ہے جب زبان سلیس اور انداز بیاں بے تکلف اور غیر رسمی ہو

اب آتے ہیں موضوعات اور اسلوب کی طرف۔۔۔

کون لکھتا ہے اپنی ہی چیز کے استعمال سے ڈرنے کی قباحت پر؟ ذہنی سکون اور رشتوں میں لحاظ قائم رکھنے کے لیے انکار کی اہمیت پر؟زیادہ سوچنے، زیادہ بولنے، زیادہ جمع کرنے ،خود پر بے جا قدغنیں لگانے کے نقصان پر؟ کس نے لکھا ہے کہ عورت ہونا کتنا مشکل ہے اور مرد اسے کیسے آسان بنا سکتا ہے!! کون لکھتا ہے کرانک سوشل میڈیا استعمال کے نقصانات اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والے دور رس اثرات پر!!!! یا سب چھوڑیں! کس نے لکھا ہے تعزیت کے لیے جانے کے آداب پر!!؟؟ کون زور دیتا ہے زمین کے قریب رہنے، کہانیاں سننے اور سنانے، آسمان سے رابطے بڑھانے اور فطرت کی سرگوشیاں سننے پر؟؟؟

تو یہ سب حسنین جمال نے لکھ دیا ہے۔ اب آپکو تکنیکی بنیادوں پر سقم نظر آتا ہے، یا زبان و بیان میں جھول دکھتا ہے تو دکھا کرے۔۔۔۔۔

میری ذاتی رائے میں حسنین جمال کا انداز بیاں سادگی(کہیں کہیں پرکاری) ، کے باعث اپنے اندر اثر پذیری رکھتا ہے۔۔قائل، بلکہ مائل کرتا ہے۔ آپ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کی ایسا ہم، پچھلی کئی دہایوں سے کیوں کرتے آ رہے ہی ! یا ہم نے کبھی شعوری سطح پر سوچا کیوں نہیں! اپنا طرز عمل بدلا کیوں نہیں!!!!! اگر کوئی کتاب آپکو اس طرز پر جھنجھوڑنے میں کامیاب ہو جائے تو بس ہو گیا مقصد پورا۔ تحاریر کسی بھی قسم کے تصنع سے عاری ہیں۔

کئی باتوں سے مجھے اختلاف بھی ہوا مگر وہ باتیں یا موضوعات بھی مصنف نے عمدگی سے نبھائے۔ تھوپا نہیں کچھ، زور نہیں ڈالا ۔

کتاب میں جابجا پنجابی کی اصطلاحات نظر آتی ہیں جو پنجابی کا فہم رکھنے والوں کو مسکرانے پر مجبور کرتی ہیں۔

جیسے ابا جی کے بارے میں تحریر کردہ آخری خاکے میں وہ خود لکھتے ہیں:

"جو لطف لفظ جھریٹوں میں ہے وہ خراشوں میں کہاں۔"

کچھ اور thought-provoking باتیں ملاحظہ ہوں:

🖋️ "سننے والے کان تلاش کیجیے۔ دو عدد خوبصورت سے کان، جو صرف سن سکتے ہو، اور جن کے ساتھ ایک ایسا منہ لگا ہو جسے معلوم ہو کہ بولنا کتنا ہے اور کہاں ہے، اور رک کر سننا کب ہے اور کیسے ہے۔"

"🖋️بڑا دماغ گردن کے لیے بوجھ ہوتا ہے، درد کر دیتا ہے۔ زیادہ سوچنے کے بجائے یہ سوچ لیا جائے کہ آخر لوگ اور چیزیں ہمیشہ سات رہنے کے لیے پیدا نہیں ہوتے۔"

🖋️"باقی سو باتوں کی ایک بات کی بھائی چھوٹی سی زندگی ہے، کتنے امتحان اپنے لیے کھڑے کرنے ہیں ؟ جو جہاں ہے اگر خوش ہے تو اور کیا چاہیے؟ سب کی خوشی ایک ہی چیز سے حاصل ہونی ضروری ہے کیا؟"

بہت اچھا لگا یہ کتاب پڑھ کر۔ آپ کو بھی موقع ملے تو ضرور پڑھیں۔
Profile Image for Rabia.
233 reviews66 followers
May 27, 2025
داڑھی والا حسنین جمال کی ایک ایسی تخلیق ہے جو محض کالموں یا مختصر تحریروں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک فکری سفر ہے۔ یہ کتاب ایک عام قاری کو اس کی روزمرہ زندگی، معاشرتی رویوں، اور باطنی کشمکش پر غور کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ حسنین جمال کا اندازِ تحریر بے حد سادہ، مگر اتنا گہرا ہے کہ قاری اکثر ایک صفحہ پڑھ کر رُک جاتا ہے، سوچنے لگتا ہے، اور پھر دوبارہ پڑھنے کی خواہش کرتا ہے۔ وہ باتوں کو گھما پھرا کر نہیں کہتے، بلکہ دل کی بات کو دل کی زبان میں بیان کرتے ہیں۔

اس کتاب میں موجود موضوعات روزمرہ زندگی سے جُڑے ہوئے ہیں، جیسے ظاہری مذہبیت، سماجی منافقت، شناخت کی تلاش، اور تنہائی کی اذیت۔ مگر یہ موضوعات جس انداز میں بیان کیے گئے ہیں، وہ قاری کو چوٹ بھی لگاتے ہیں اور مرہم بھی رکھتے ہیں۔ “داڑھی” جو اس کتاب کا عنوان بھی ہے، محض ایک علامت ہے—یہ اس ظاہری خول کی نمائندگی کرتی ہے جسے معاشرہ تقدس کا لباس پہنا دیتا ہے، مگر درحقیقت اس کے پیچھے اکثر ناپختگی، خودفریبی یا منافقت چھپی ہوتی ہے۔ حسنین جمال بڑی خوبصورتی سے اس پردے کو ہٹا کر ہمیں خود سے ملنے کا موقع دیتے ہیں۔

مصنف کا اسلوب بے حد بے تکلف ہے۔ وہ قاری سے مکالمہ کرتے ہیں، لیکچر نہیں دیتے۔ ان کی تحریروں میں طنز بھی ہے مگر نفرت نہیں، دکھ بھی ہے مگر امید کے ساتھ، اور سوال بھی ہیں مگر الزام تراشی کے بغیر۔ ان کے جملے چھوٹے ہوتے ہیں مگر ان کے اندر کئی جہان چھپے ہوتے ہیں۔ قاری کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ خود اپنی سوچوں کا سامنا کر رہا ہو، جیسے کوئی آپ کو آئینہ دکھا رہا ہو—شفقت کے ساتھ، تنقید کے بغیر۔

داڑھی والا اُن لوگوں کے لیے خاص طور پر اہم ہے جو اردو ادب میں صرف لفظوں کا حسن نہیں، بلکہ فکر کی گہرائی تلاش کرتے ہیں۔ یہ کتاب روایتی ادبیات سے مختلف ہے۔ یہ نہ تو کلاسیکی طرز کی کہانیاں سناتی ہے، نہ ہی صرف فلسفہ بگھارتی ہے—بلکہ یہ زندگی کے بیچ و بیچ سے، عام لوگوں کے بیچ سے، سچ نکال کر سامنے رکھتی ہے۔ اور یہی اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی ہے۔

حسنین جمال نے ایک ایسے وقت میں جب سوشل میڈیا پر شور شرابے اور نمائشی دانشوری کا دور ہے، ایک ایسی کتاب دی ہے جو خاموشی سے دل میں گھر کر لیتی ہے۔ داڑھی والا ایک صادق اور حساس لکھاری کی آواز ہے—ایسی آواز جو سننے والے کو خود سے بہتر انسان بننے کا حوصلہ دیتی ہے۔
Profile Image for Usama Tanoli.
25 reviews
June 1, 2024
داڑھی والا
⭐️⭐️⭐️
داڑھی والا ایک اچھی کتاب تھی میرے لئے اس میں مختلف بلاگز ہیں جو کہ عام سی روزمرہ چیزوں کے بارے میں ہیں جن کے بارے میں ہم زیادہ سوچتے نہیں اور نظرانداز کر دیتے ہیں۔
اس کتاب نے واقعی ہی کئی چیزوں کے متعلق میری رائے تبدیل کر دی ہیں ، جن چیزوں کو ہم منفی انداز میں ہی دیکھتے ہیں ان کے متعلق مثبت سوچ پیدا کی ہے۔
البتہ کتاب کو پڑھنے میں مجھے کافی دشواری بھی ہوئی کیونکہ اکثر کتاب کو پڑھتے ہوئے بوریت کا احساس ہوتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں کوئی لیکچر دیا جا رہا ہو اسی وجہ سے یہ کتاب مکمل کرنے میں مجھے کافی وقت لگا۔
لیکن ایک اچھی کتاب ہے آپ کو پڑھنی چاہیے ایک دفعہ۔
Profile Image for Nasreen Ghori.
71 reviews2 followers
February 25, 2022
وہ باتیں جو ہم سب سوچتے ہیں لیکن کہنے سےڈرتے ہیں یا لکھنے کا ڈھنگ نہیں ہم میں
Displaying 1 - 12 of 12 reviews

Can't find what you're looking for?

Get help and learn more about the design.