Famous Urdu Pakistani writer, literary critic, author film director and film producer. With various books of fiction, criticism, biography and art to his credit, Rahim Gul was a major figure in contemporary Urdu literature. He is best known for his last and the most widely read novel "Jannat Ki Talash".
ناول کو تین زاویوں سے دیکھا جاسکتا ہے ۱-تخلیقی پہلو سے یہ عام مہم اور اک عام سی کہانی ہے ۲-فلسفہ زندگی اور انسانی جبلت پر اٹھاے گئے سوالات اس ناول کا خاصا اور ناول کی جان بھی ہیں ۳-سفر نامےمیں الفاظ کو پرونا اک فن ہے مصنف اس میں ناکام رہا
امتل کا کردار ہر اس منفی جذبے کا استعارہ ہے جس سے انسان کی تذلیل ہوتی ہے اور قاری ناچاہتے ہوہے بھی اس کے خلاف دلائل ڈونڈھتا ہے اور مایوسی سے نفرت بھی کرتا ہے۔ دوسری طرف امتل فلسفہ کی وہ معراج ہے جو انسان کو بینادی سولات سوچنے پر مجبور کر کے ، لوگوں متاثر کرتی ہے ۔ حسن کا مقابلہ کہاں آسان ہوتا ہے، ناچاھتے ہوئے بھی جب خیالات میں حذبات کی آمیزش ہو حائے تو انسان وہ جنگ ہار جاتا ہے اور وہ کھلاڑی وسیم یے جو امید کی کرن بھی ہے ۔ اپنے پرسنیلیٹی ڈیفِسٹ کے باوجود امتل جیسے طوفان کا مقابلہ کرتا ہے اور محبت سے خیالات کی جنگ ہار دیتا ہے جو رہم کے قابل ہے۔اس کے جذبات میں ملاوٹ نہیں ہے جو انسانی نیچر نہیں ۔ تخلیق ، تخیل اور ملسفہ پورے ناول میں اک دوسرے پر لپٹتے رہےمگر جنت سوچ و افکار کی ہی ہوِئی۔ اس ناول میں حسن کو بازارِِ مصر میں لا کرنہ زلئخائی کروائی نا یوسف کی معصومیت وزن دیا گیا اس کا قصور وار وسیم بھی ہے اور امتل بھی۔۔۔شاید مصنف فیمنزم کی طرف انکلاِئیڈ ہے امتل کے سرخ ہونٹوں سے اختلاف ہو سکتا ، وسیم کی محبت جھوٹی ہو سکتی ہے مگر بیان کیے گئےواقعات کی سچائی سےانکار نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔۔
فلسفہ حیات کے موضوع پر لکھا ناول جنت کی تلاش مجھے پسند تو آیا لیکن غلام باغ جیسے ناول کو پڑھتے ہی اسے پڑھنا ایک غلط فیصلہ تھا۔
وہ یوں کہ جہاں غلام باغ میں کرداروں کی شبیہ محض ان کی سوچ اور ان کے عمل سے ذہن میں بنتی ہے وہیں جنت کی تلاش میں 'امتل' کے حسن کو اس طرح بیان کیا جانا کہ اس کے سرخ انگور کے دانے جیسے ہونٹ اور آڈرے ہیپبرن جیسی آنکھیں، 'ایلس ان ونڈر لینڈ' کی اس بلی کی یاد دلاتی ہیں جسے دیکھ کر ایلس سوچتی تھی کہ ’میں نے ایسی بلیاں تو بہت دیکھی ہیں جن کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں ہوتی، لیکن ایسی مسکراہٹ کہ جس میں بلی ہی نہ ہو، یہ بہت حیرت انگیز ہے۔‘
مجھے بھی کتاب میں جہاں امتل کا کردار آ جاتا، جوکہ مرکزی کردار ہونے کی باعث مسلسل آتا رہا، وہاں انگور کا سرخ دانہ اور آڈرے ہیپ برن کی آنکھیں ہی دکھائی دیتی رہیں۔
اس ناول میں امتل، اس کا بھائی عاطف اور ان کا دوست وسیم، پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی جنت نظیر وادیوں کا سفر کرتے ہوئے زندگی کی لایعنیت، موت کی بے معنویت، فطرت کی غلط بخشی، خدا کا وجود، محبت، نفرت، خیر و شر اور اس طرح کے کئی ایسے موضوعات پر سوالات اٹھاتے ہیں جو ایک سوچنے والے ذہن میں اٹھ سکتے ہیں اور ان پر مختلف پہلووں سے روشنی ڈالتے، مباحثے کرتے، ایک دوسرے کو اور پڑھنے والوں کو حیران کرتے جاتے ہیں۔
یوں ایک متجسس قاری پر ناصرف زندگی کی گہری اور گھمبیر الجھنیں کرداروں کے خوبصورت مکالموں کے ذریعے پرت در پرت کھلتی جاتی ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ ان حسین علاقوں کی سیر کے دوران وہاں کے اساطیر، ان کے لوک گیت، روایات اور ادھر بسنے والے شفاف جذبات سے بھرپور لوگوں کا رہن سہن، ان کی سادگی اور زندہ دلی کے بارے میں بھی معلومات اور تاریخ سے آگہی حاصل ہوجاتی ہے۔
گو کردار نگاری مجھے اتنی پسند نہیں آئی کیونکہ اس میں موجود تینوں ہی کردار کچھ غیر حقیقی سے محسوس ہوئے لیکن اس سفرنامہ نما ناول کی پرکشش منظر نگاری مصنف رحیم گل کے گہرے مشاہدے کا اور ان کی رواں تحریر اور کرداروں کے عمدہ مکالمے انکے وسیع مطالعے کا پتہ دیتے ہیں۔
اس کتاب میں قریب ہر صفحے پر کئی ایسی باتیں، کئی ایسے اچھوتے نظریات ہیں جو بار بار پڑھنے کے لائق ہیں۔
ناول سے ایک اقتباس:
’یہ حسین منظر کیوں ہوتے ہیں، کس لیے ہوتے ہیں؟ انہیں احساس کیوں نہیں ہوتا کہ وہ ہیں اور لافانی ہیں۔ ہم ان سے محظوظ ہوتے ہیں، مگرخود یہ اپنے آپ کو محسوس کیوں نہیں کرتے۔ بے حسی دیکھو کہ نوازشوں کی بارش برساتے ہیں، دوسروں کو بے خود اور سرشار کردیتے ہیں لیکن اپنی نوازشوں کی خبر نہیں رکھتے۔ اپنی نیاز اور بے نیازی کا عرفان ہی نہیں رکھتے۔'
رحیم گل: یہ جو تخلیق کا کرب ہوتا ہے ناں زندگی کا سب سے انمول سرمایہ ہے
امتل: یہی تو مسلہ ہے جوں جوں شعور بڑھ رہا ہے توں توں فتور بڑھ رہا ہے بےخبر آدمی باخبر آدمی کے مقابلے میں بہت خوش نصیب ہے بالغ نظری سارے فساد کی جڑ ہے یہی تنہائی کے احساس کا منبع ہے
امتل: آپ وہ سچ ہیں جسے سو جھوٹوں نے پروان چڑھایا ہے میں وہ جھوٹ ہوں جسے سو سچائیوں نے جنم دیا ہے
امتل: کاش میں غاروں میں پیدا ہوئی ہوتی اور غاروں میں پروان چڑھی ہوتی فکر نے مجھے جو کردار دیا ہے وہ بالکل غیر فطری ہے دنیا بھر کی تہذیبوں کا بوجھ میرے سر پر ہے میری روح اس بوجھ تلے سسک رہی ہے
یہ ایک مضطرب روح کی کہانی ہے جو ھر لمحے اسی تلاش میں رہتی ہے کہ اصلیت کیا ہے اور حقیقت کو ماپنے کیلئے کیا پیمانہ ہونا چاہیے؟ امتل، وسیم اور عاطف کی یہ کہانی مانسہرہ سے شروع ہوتے ہوئے پاکستان کے دوسرے شمالی علاقاجات کے صحت افزاء مقامات کی سیر کرتی ہوئی بیان ہوئی ہے۔ بیشتر حصہ مکالموں پر مشتمل ہے جو کہ امتل اور وسیم یا دوسرے کرداروں جیسے اٹالین سیاح، ڈاکٹر،عاطف،تھانیدار، وزیر آغا وغیرہ کے درمیان ہوتی ہے یہ مکالمے سوالات اور تجسس پر مبنی ہیں کہ جن میں انسان کی ذات پر جگہ جگہ لاپروائی اور بے جا اپنے اختیارات استعمال کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔
اس کتاب کی خوبصورتی ہی یہ ہے کہ یہ ناول ہے، سفرنامہ بھی ہے، کبھی مکالمہ ہے تو کہیں پر آپکو لذیذ کھانوں کے ہوٹل کا ماحول محسوس ہوتا ہے۔
بنیادی نکتہ یہی ہے کہ انسان چاند پر پہنچ چکا لیکن نفرت اور ہوس جیسی روحانی بیماریوں سے بچنے کیلئے سائنس نے کوئی فارمولا ایجاد کیوں نہیں کیا۔۔۔۔سائنس انسان کی بے چینی کا ادراک کیوں نہیں کررہا۔۔۔؟ جہاں ہم خلا کی تسخیر کرنے نکلے ہیں وہی ہمیں اپنے من میں ڈوب جانے کا سبق کیوں نہیں ملا سائنسی کاوشوں سے۔۔۔ جس طرح ہر کردار امتل سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتا اسی طرح قاری کو بھی اپنے سحر میں مبتلا رکتھی ہیں امتل کی باتیں۔ ناجانے کیوں امتل کی ہر بات دل کو چھوجاتی ہے اور وسیم کی حالت قاری بھی محسوس کرتا ہے کہ ایسا کیا ہے جو اس پاگل دیوانی لڑکی میں ہے کہ نا موت کا خوف ہے نا جینے کی آرزو۔ امتل ہمارے اندر دبی ہوئی آواز ہے جسے الفاظ نہیں ملے لیکن ہزاروں سالوں سے یہ بے چین آواز سفر پر گامزن ہے۔ ہم سب غاروں کی دنیا میں جانا چاہتے ہیں لیکن آلائشوں نے ہمیں گھیر رکھا ہے کچھ اسطرح کہ بے چینی بڑھ بھی رہی ہے اور سکون کا اطمینان بھی لئے بیٹے ہیں ہم انسان۔
سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے "فلاں جگہ ایسا موسم تھا، فلاں شخص کے ماتے پر پسینہ تھا، فلاں کیفیت تھی" اسطرح کی باتیں ذرا بوجھ سی محسوس ہوتی ہے لیکن جنت کی تلاش ایسی باتوں سے بڑی حد تک خالی ہے اور اسکی جگہ ذہن کو الجھانے والی مکالماتی بحث نے لے لی ہے جو کہ کسی نا کسی درجے پر قاری کو ایک مختلف نکتہ نظر سے دیکھنے اور سوچھنے پر مجبور کرتی ہے۔ امتل اپنی شخصیت میں کچھ ایسی کشش رکھتی ہے کہ پڑھنے والا نا چاہتے ہوئے بھی کتاب پرے نہیں رکھ سکتا اور یوں دو دنوں میں پڑھ کر بھی ایک بے سکونی سی ہے کہ شاید کچھ زیادہ وقت لگا پڑھنے میں۔۔۔
کتاب سے چند سطور ملاحظہ ہوں:
"دنیا چاہے نامکمل ہو' لیکن دنیا میں ایک چیز مکمل ہوتی ہے اور وہ ہوتا ہے جوان عورت کا جسم۔۔۔۔"
میں تو کہتی ہوں خود اللہ میاں بھی ہمیشہ متذبذب رہتے ہیں- پہلے ایک کتاب بھیجی پھر دوسری پھر تیسری اور پھر چوتھی"
"ذہانت سارے فساد کی جڑ ہے"
لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ دکھ آیا کہاں سے ہے؟ اسے پیدا کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ جو نہیں ہونا چاہئے تھا وہ کیوں ہے؟ "
"امتل کے بدن کی خوشبو سے بڑا سچ کوئی دوسرا نہیں تھا۔۔۔ایک زندہ ممتاز محل میرے سینے سے لگی ہوئی تھی"
وہ لڑکی مجھ سے صرف دو قدم کے فاصلے پر کھڑی تھی' لیکن ہمارے درمیان دس ہزار سال کی تہذیب کی دیوار حائل تھی"
"سب بوسے کی تلاش میں ہوتے ہیں"
" ہر فنکار کا بڑا مسئلہ اظہارِ ذات کا ہوتا ہے۔ وہ اپنی انا کے اظہار میں انتہا پسند ہوتا ہے۔ اگر وہ سماج سے نہ ڈرتا' تو بلا دریغ خدائی کا دعویٰ کر بیٹھتا"
Some books you read, some books you enjoy. BUT some books just swallowe you up heart and soul This book is full of knowledge, thoughts, love and beliefs. We can say it one kind of travelogue along with philosophy of life. Mainly book is consisted of two main characters Amtul and Wasim while there is light touch of Atif , different tourists, hippies, a doctor and a Colonel.. This story is about two totally opposite in nature people. Amtul who is brilliant in knowledge, thought proviking ideas while she didn't believe in human anymore not in life as well.Wasim is full of life, rich due to his father's wealth and using money to explore Pakistan, unfortunately fall in love with the girl who have no hope of life. She knows about love but ignore all the sentiments of wasim by answering all questions by her hopeless and negativity. There are two more people who have same beliefs like Amtul and have no hope from the world. Remaing people think her as ideologically sick. Variously when i read Amtul's thoughts i do recall my beliefs and tried to answer her queries. I highlighted various points in book which were unanswered in life and certainly i got the answers. A mishap of life can change whole personality of a person, this novel depicted it very clearly. Reading this book actually reveals a lot of the stresses I had bottled up in my self. But in this book firm attitude of Wasim impress me a lot, he didn't give up at any single time and ignore all things besides him. He always prefer to be with her, to turn her back towards spirit of life in her. With each line, I found myself being unable to put the book down for even a minute. when Amtul ask a tourist about 'saif ul Malook' lake he said i can't describe the view of it 'Go and see it by yourself' same is for other readers if you want to explore this book read it by your self and it will amaze your fantasies. ThisBook can consider as a travelogue because the author presented an imaginative view of places and the Mountains which attract the reader. I have visited 'Nalter' and the love story of wasim and the book has completed there which made me fall in love with 'Naltar' second time. Recommended to all people who are in love with a person or with mountains ❤
رحیم گل کے سفرنامہ نما اس ناول میں زندگی کے بہت سے بنیادی سوالوں جیسے شر اور خیر، مذہب،سائنس،فلسفہ، محبت و نفرت اور اس جیسے متعدد پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ کہانی کے پلاٹ اور تین مرکزی کرداروں امتل، وسیم اور عاطف کی ترتیب اور تعلق بعض اوقات غیر فطری پن کا تاثر ابھارتا ہے۔ اتنی کم عمری میں بڑے بڑے دقیق موضوعات پر انتہائی عالمانہ گفتگو کرنے والی امتل زندگی کے میدان میں خود کو جہاندیدہ سمجھنے والے بہت سے شاہ زور پہلوانوں کو چاروں شانے چت کر دیتی ہے۔ جو کہ تھوڑا غیر یقینی سا نظر آتا ہے۔ چاہے وہ وسیم اور عاطف ہوں،بلوچستان کا ڈی ڈی ہو،اٹالین یا یورپی سیاح ہوں یا کرنل صاحب یا ڈاکٹر ہوں۔ اگر پلاٹ کی بنت تھوڑی مزید توجہ سے کی جاتی تو یہ ناول اردو کے کلاسیکی ناولوں میں شمار کیا جا سکتا تھا۔ تاہم فطرت کی بے پناہ خوبصورتیوں کو اپنے اندر سموئے فلسفیانہ انداز میں لکھا گیا یہ ناول پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ جس میں انسانی اذہان میں پنپنے والے بہت سے سوالات کے جواب ڈھونڈنے کی ایک کوشش کی گئی ہے۔ یہ الگ بات کہ یہ جوابات قاری کے ذہن میں مزید سوالات کو جنم دے دیتے ہیں ۔ کہانی کا اختتام ایک مثبت نوٹ پر ہوتا ہے جہاں امتل چوکیدار کی نومولود بچی کو جب سینے سے لگاتی ہے تو اسے صدائے کن کی لاریبیت پر یقین سا آ جاتا ہے اور وہ زندگی کو نئے سرے ایک نئے عزم سے گزارنے کا فیصلہ کر لیتی ہے۔
Jannat Ki Talash is essentially a long philosophical discourse with the external appearance and loose structure of a novel and several passages that read like a travelogue. As a fictional text that is primarily concerned with exploring some of the fundamental philosophical questions confronted by humankind it is quite unique in Urdu fiction. Perhaps that is what adduced praise for it from the likes of luminaries like Ahmad Nadeem Qasmi. Through a series of dialogues between three young people - an extraordinarily reflective, attractive, thoughtful and outspoken young woman Amtal, her slightly older brother Atif and a young man in his twenties Waseem, whom they meet during a mountain excursion, Raheem Gul poses and dissects multiple enigmatic questions that confront all thinking people. The trio becomes friends and they travel together through various scenic parts of Pakistan.
Waseem's burgeoning romantic interest in Amtal is physical but also in great part due to his growing fascination for her intellectual rigor and vastness of knowledge, her outspoken questioning of various closely held dogmas, attitudes and beliefs, and ultimately her deep-seated skepticism about the purpose of human existence. Amtal is essentially cynical about human socialization and civilizational progress that she feels has ultimately led to so much exploitation, warfare and bloodshed. Her's is a hearkening to and longing for the original natural and simpler state of human existence and greater liberty from social shackles, in some ways reminiscent of Rousseau. She finds all subsequent social structures, belief systems, social attitudes, behaviors and relationships, organizations and ideological isms as artificial impositions and corrosive. At the same time, she also has a Hobbesian dimension and holds that human nature is essentially selfish, disruptive and anarchic. In her most frequent avatar - as she also vacillates a bit - she is an agonistic, finds life meaningless (and also death) and often even comes across as a nihilist.
Waseem on the other hand is much more of a conformist, an optimist and a believer in a higher purpose, potential and destiny for humankind, the existence of a divine intelligence, and greater expectations from the rosier manifestations of human kindness as well as brilliance. Atif is the least developed character and more of a plot necessity as it would have appeared unrealistic for Amtal and Waseem to travel alone in the Pakistani milieu, without him as a chaperon.
To the extent that the novel engages with various philosophical questions about creation, the human experience, nature vs nurture, civilization, morality, what lies beyond death, the destiny of man etc., it is indeed quite remarkable for its time and this particular genre. It does have some powerfully written passages that are well composed and thought provoking. But as a novel, in terms of character development, plot and structure it is rather amateurish. The plot and sequence of events are merely a scaffolding on which the structure of the extensive dialogues is built. Also often they are less true dialogues and more pontification and preaching. Amtal frequently appears didactic and somewhat irritating as she starts holding forth at the drop of a hat, rather smug and all-knowing. This in turn is made further jarring by the gushing reception extended to her every utterance by the starry-eyed Waseem and the intellectually inert and lackluster Atif, as also various other interlocutors that they come across.
Another major weakness of the novel are passages where the dialogue becomes very contrived, Mills & Boon-like and sickly sweet. Especially love-sick Waseem ruins the flow and elegance of quite a few passages with what can only be described as very "filmy' dialogues. The author did write scripts for films and that appears to be the reason for this unfortunate proclivity. Qateel Shifai praises it but then given his own strong tilt towards highly melodramatic poetry for films, that is understandable. Another jarring feature is that whenever Rahim Gul mentions hotel rooms, jeep rentals, horse rides, purchase of fruit or other food items etc., he promptly reports prices, makes comparisons and dwells on whether it was a good deal or not. This is not only unnecessary but appears unrealistic given that the characters are meant to be fairly wealthy and footloose. This is where Urdu fiction has always missed the services of good editors who would have quickly caught and addressed something like this. There are additional elements that are unrealistic or melodramatic and could have been addressed.
Since even the author realized that all these philosophical dialogues would be fairly monotonous if held at one location, he takes his characters on a whirlwind tour of Mansehra, Kashmir, Kaghan (with an extended and ecstatic description of Lake Saif-ul-Mulook), Swat, Quetta, Ziarat, Gilgit, Skardu, Deosai plateau and other places and provides heady and joyous descriptions of their scenic beauty. There is an obvious and infectious pride in his narration of the beauty of his land; though often when he switches from philosophical reflections to travel passages and vice versa the transitions are rather abrupt and not seamless.
During these journeys the trio comes across various additional characters, including bohemian foreign tourists, that provide additional debating opportunities to discuss differences between the east and the west, sexual mores, matrimony, love, materialism, asceticism, capitalism vs socialism, democracy, the nature of power, evil, nature's ability to heal, and much more. The conclusion when it comes is hopeful, though somewhat contrived. Genuine manifestations of human love, generosity, unselfishness and innocence (as witnessed amongst quite a few of the simple mountain people that they meet) persuade Amtal (who is also suicidal) to live on, in a human bond, and with a view to procreate. The romantic part of the novel is a bit of a drag and meant more to maintain reader interest in the real and drier mission of the book.
Despite its flaws as a novel and multiple instances where the narrative is reduced to a lecture (with Amtal's at times not so profound observations breathlessly extolled by other characters and indeed the authorial voice, as words of genius and prophetic impact) this is a novel that often provokes and inspires to question and think. That in itself makes it significant in the canon of Urdu novels and the evolution of fiction in Urdu. For that I would award it 2.5 stars but unfortunately that is not an option and hence I give it three.
Jannat Ki Talaash is a prominent Urdu novel by prominent Pakistani writer Rahim Gul. This is a sort of itinerary than a novel, as the four characters including the main character (Imtal, a girl) traveling in northern areas(Pakistan) and Baluchistan (Pakistan), and discussing with each other and with other people (travelers,Drivers, officers, servants, and hippies)the true purpose of life and human being. during their journeys they came upon various types of people e.g. gypsies, people living in mountains, people with small means, and compared their status of happiness and satisfaction with their own happiness and satisfaction.The story and most of the dialogues is mainly narrated by & between two characters (Imtal and Waseem). I am giving it four stars as I did not enjoy the unnecessary philosophy in this book, and the contradicting statements of characters and the characters life style. and last but not the least, I do not like this book because I believe, "to see poor people and taste their food is just an adventure for rich people".
بے حد پیاری ،گہری اور گھمبیر کتاب ۔۔ تلاش ،فقط تلاش _ محبت کی ، وجود کی ،روح کی ، حق کی اور اپنے پیارے رب کی ۔۔ خیالات کا ایسا انبار لگا ہے کہ بس ،انسان سوچتا رہ جاتا ہے کہ کیا یہ پہلو بھی ہو سکتا ہے سوچ بچار کے لئے ۔۔ اس کتاب کا شاید کوئی ایک آدھ پیج ہی ہو گا جس کو میں نے Highlight نہ کیا ہو ۔ پاکستانی مناظر کی دلکشی کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے ، جھیل سیف الملوک کے مناظر کو پڑھتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ میں وہیں پر موجود ہوں اور اس ساری خوبصورتی کو روح میں جذب کر رہی ہوں ،انسان کو اللہ پاک نے اپنی فطرت پر پیدا کیا ہے ،اللہ پاک جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے ، رحیم گل کا یہ ناول پڑھ کر یہ بات اچھے سے سمجھ آ جاتی ہے کہ اگر کوئی انسان اللہ کریم سے تعلق مضبوط کرنا چاہتا ہے تو وہ اسکی بنائی ہوئی دنیا کو دیکھے ، ہر ہر شے میں اسکی قدرت رونما ہے جو انسان کے لئے حقیقت اور سچائی کے نئے باب کھولتی جاتی ہے۔۔
”جنت کی تلاش“ گزشتہ برس دسمبر کے اواٸل میں شروع کی تھی۔ شروع کرنے سے قبل اس کے متعلق ایک تبصرہ پڑھ یا تھا۔ قاری اس کہانی سے کچھ خاص متاثر ہوتا نظر نہیں آیا تھا۔ اس نے اپنے تبصرے میں کرداروں کی حقیقت سے حددرجہ دوری کو نشانہ بنایا تھا۔ میں نے کتاب پڑھنا شروع کی تو مصمم ارادہ تھا کہ بھٸی کسی کردار سے متاثر نہیں ہونا۔ کسی اور کی عینک اپنی آنکھوں پہ لگا لی تھی۔ مگر کتاب شروع کی تو کہانی پرت در پرت کھلتی چلی گٸی۔
مصنف کے بقول انھوں نے اس کتاب میں اردو ادب کی دو اصناف ”ناول“ اور ”سفر نامہ“ کو ضم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب پتہ نہیں وہ اس کوشش میں کامیاب ہوٸے یا نہیں، لیکن میرے لیے اسے پڑھنا ایک منفرد تجربہ رہا۔ مصنف کا گہرا مشاہدہ، وسیع معلومات کا ذخیرہ اور آفاقی عجاٸبات پر عمیق نظر اور پھر پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی کہانی، مصنف کی زبانی پڑھنا اچھا رہا۔ حددرجہ وسیع موضوعات پر تکرار، نت نٸے نقطہٕ نظر، اذہان کی کھڑکیاں کھولتی مضبوط مگر لچک دار آرإ پر مبنی گفتگو نے مطالعے کو خاصا دلچسپ بنا دیا۔ ہنزہ، سکردو، کالام، ناران، جھیل سیف الملوک سمیت بیشتر علاقوں کی سیر کا احوال پرلطف تھا۔ سب سے دلچسپ کہانی ”دیو ساٸی“ کی لگی۔ اس کے متعلق پڑھ کر وہاں جانے کا اشتیاق بڑ�� گیا کہ اس کے بارے میں سنا کم ہے۔
جہاں تک تعلق ہے کہانی اور کرداروں کی تو مرکزی کردار اتنے متاثر کن نہ تھے۔ کہانی بھی صحیح تھی۔ سب سے زیادہ ڈراماٸی کردار ”امتل“ کا تھا جس کی ہر دوسرا کردار پرستش کرتا دکھاٸی دیتا تھا۔ اب اللہ جانے بےچارے مصنف نے کتنی لگن سے اس کردار کو تحریر کیا تھا۔ مجموعی طور پر کتاب کو پڑھنا مفید تجربہ رہا۔ قارٸین کے لیے یہ ایک اچھی کتاب ثابت ہوگی۔
2.5 ستارے۔۔۔فقط اس لئے کہ مصنف نے بہت محنت اور تحقیق کے بعد ناول تحریر کیا ہے۔ لیکن، اپنی اس محنت کو شاہکار نہ بنا سکا۔ میں کوئی لکھاری نہیں ہوں لیکن پڑھتا بہت ہوں۔ اس لئے کہہ سکتا ہوں کہ جو بھی بحث اس ناول کے شروع سے لے کر آخر تک چلتی رہی ہے وہ کچھ۔۔۔نہیں بہت زیادہ ہوگئی۔ یہ ناول بہت عرصے سے میرے پاس موجود تھا لیکن پڑھنے کا اتفاق نہ ہوا۔ میں نے بہتیری جگہوں پر اس کی تعریف پڑھی ہے۔ اسی طرح ایک رسالے میں چند کتابوں کے بارے لکھا ہوا پڑھا اور اسی دن یہ کتابوں کے درمیان سے اچانک برآمد ہوا تو سوچا کیوں نہ رحیم گل کو بھی پڑھا جائے۔ لیکن جتنی اس کی تعریف و توصیف پڑھی یہ اس پر پوری نہیں اترتی۔ یہاں گڈ ریڈز پر بھی مثبت ہی تجزیئے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ کتاب اُردو میں پڑھتے ہیں اور تجزیہ انگریزی زبان میں لکھتے ہیں۔ اور اگر اُردو میں لکھ بھی لیں تو اس میں بھی انگریزی کے دقیق الفاظ اردو حروف تہجی میں لکھ مارتے ہیں جیسے آج کل اُردو انگریزی حروف تہجی میں موبائل فون پر پیغامات کے لئے لکھتے ہیں۔ کسی نے تو اس کو اردو ادب کی تاریخ کا "گریٹسٹ" ناول کا تمغہ بھی دے دیا ہے۔ ناول میں میرا خیال سے پلاٹ تو کوئی ہے نہیں اگر ہے تو بس اتنا کہ ایک جوان ایک لڑکی سے متاثر ہوا اور اس کو حاصل کرنے نکل پڑا۔ اور آخر میں کامیاب ہو گیا۔ بس بحث برائے بحث ہی ہوتی رہی ہے مکالموں کی صورت میں۔ اور ناول کے کسی بھی کردار کو دوسرے سے کوئی مفاہمت یا اتفاق نہیں ہے۔ مصنف نے اپنے کرداروں کے خیالات کو بہت اہمیت دینے یا بہت اثر انگیز ثابت کرنے کے لئے غیر ملکی کردار ڈالے جو ان سے بے حد متاثر بتائے گئے۔ اور وہ سب کے سب بھی فلسفی ہی ملے۔ ہمارے کردار شائد رات کو سوتے بھی اسی لئے ہیں کہ صبح تازہ دم ہو کر دوبارہ سے بحث شروع کر سکیں۔ خوبصورت مناظر ہوں یا خوفناک راستے مباحثے میں کمی نہیں آنے دیتے۔ تمثیل کے لئے مصنف نے اژدہا پکڑ رکھا ہے۔ تمام دریا اژدہے کی طرح بل کھاتے چلتے ہیں، اژدہے کی طرح پھنکارتے ہیں، اور تو اور انگوروں کی بیلیں بھی اژدہوں کی طرح ہی لپٹی ہوئی ہوتی ہیں۔ ناول میں ہر کردار ہی بہت اعلیٰ ظرف کا بتایا گیا ہے، چاہے وہ ہوٹل کا بیرا ہو، یا دکان کا چھوٹا۔ جو اپنے باغوں میں بھی لے جاتا ہے اور دیسی گھی کے پراٹھے بھی کھلاتا ہے۔ بیرا اپنے گھر مرغی کھلاتا ہے اور بے حد خوش ہوتا ہے اور اپنی نوکری سے چھٹی بھی کرتا ہے اور اس پر مستزاد کہ راستے میں قہوہ لئے کھڑا بھی ہوتا ہے۔ جیپ کا ڈرائیور جوں ساتھ ہوتا ہے چکلالہ ہوائی اڈے تک ساتھ ہی رہتا ہے اور آنکھوں میں آنسو لئے واپس ہوتا ہے۔ اوہ ہو! اس عورت کو تو میں بھول ہی گیا جس نے جھونپڑی میں مکئی کی روٹی اور مکھن سے تواضع کی لیکن ہمارے کردار اس کو بھول کر وہاں بھی اپنے فلسفیانہ گھوڑے دوڑاتے رہے اور مباحثے میں مشغول رہے۔ یہ تنقید برائے تنقید نہیں ہے۔ ہر ناول ہر قاری کے لئے نہیں ہوتا لیکن کچھ تو حقیقت پسندی ہونی چاہئے۔ یہاں تک آئے تو آگے ایک ڈاکٹر مل گیا۔ ٹھیک ہے کہ وہ اپنی زندگی کی پرانی روشوں، عقیدوں، اور بری عادتوں کو چھوڑ کر نئی زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ لیکن ہوتا وہ بھی فلسفی ہی۔ ایک نرس سے تھپڑ کھا کر زندگی کا رخ تبدیل کر لیا۔ لیکن جس کی آنکھیں برباد کر دیں اس کو ڈاکٹر بھی بھول گیا اور مصنف بھی۔ دوسروں کا تو پتہ نہیں لیکن مجھے تو بعض جگہوں پر یہ سارا بحث و مباحثہ لایعنی سا لگا۔ آخر میں پہنچ کر، 377 نمبر صفحہ، تو دل بالکل ہی بیزار ہو گیا اور ناول بند کر کے میز کی ایک طرف ڈال دیا۔ لیکن، ہر مطالعہ کا شوقین یہ بات سمجھتا ہے کہ تین چوتھائی ناول پڑھنے کے بعد تو بیزار اور بور ہونے کے باوجود ناول چھوڑنے کو دل نہیں کرتا کہ اتنا پڑھ لیا ہے تو یہ دیکھ لیں کہ مصنف اس کو مکمل کس طرح کرتے ہیں۔ میں نے اس ناول پر کوئی تنقیدی مقالہ تو لکھنا نہیں کہ اس کے تمام تضادات، اختلافات، وغیرہ لکھوں اور ان کی تفصیلات بیان کروں۔
This entire review has been hidden because of spoilers.
فلسفے اور سفر نامے کے اجزاء کے اشتراق سے رحیم گل نے یہ ناول قلمبند کیا ہے جو زیادہ تر ڈائیلاگز پر مشتمل ہے البتہ اگر آپ سیر و سیاحت کے دلدادہ ہیں اور تصور و خیال کی خوبی آپ میں پائی جاتی ہے تو یہ ایک دلچسپ کہانی ہے۔ آپ پاکستان کی کئی خوبصورت جگہوں کے متعلق یہاں سے معلوم حاصل کرسکتے ہیں۔
صفحات کے اس ناول میں رحیم گل نے ہر اس سوچ پر بخث کی ہے جو ۴۴۰ آئے روز میں اور آپ سوچتے ہیں اور انہی سوچ و افکار کی وجہ سے میں اور آپ فطرت کے باغی بن گئے ہیں لیکن ناول پڑھنے کے بعد بھی نہ امتل اور نہ وسیم صاحب میرے ان سوالات کا جواب دے پائے ہیں جو بعض اوقات میں سوچتا ہوں۔ جنت اور دوزخ اس دنیا میں موجود ہے اور ناول پڑھنے کے بعد مجھے ایسا لگا کہ جیسے تصورات کی دنیا میں یہ تلاش مکمل ہوگئی ہے۔
میں نے یہ ناول اپنے دوست "محمد عامر حسین چودھری" کے کہنے پر پڑا تھا، وہ امتل کے کردار سے بےخد متاثر تھے البتہ میں "امتل'' سے متاثر نہیں ہوسکا۔ مانتا ہوں امتل حقیقت پر مبنی باتیں کرتی تھی اور بقول کہانی کے کردار وسیم صاحب کے پیغمبرانہ باتیں کرتی تھی لیکن پورے 440 صفحات میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا جو "امتل" صاحبہ سے بحث کرتا، سب ان سے متاثر ہوجاتے تھے سب ان کی چھوٹی اور ننھی سی ناک اور انگور کے دانے جیسے ہونٹوں کے سحر میں قید ہوجاتے، ناول میں کئی مقامات پر روح کی باتیں کی گئی لیکن میرے کند ذہن نے مجھے یہی خیال دیا کہ امتل کی باتیں مادہ پرستی پر ہیں۔
سب لوگوں کا اپنا نظریہ ہے، شاید میرا دوست سچ ہی کہتا ہے میں شاید "امتل" کی ذہانت اور حساس طبیعت کی بےباکی سے جلتا ہوں، مگر مجھے وسیم اور امتل کی یہ کہانی کافی مصنوعی لگی ہے، چند معاشرتی اور مذہبی فلسفے تھے جنکی وجہ سے اس کہانی میں تھوڑی سی جان تھی اور تھوڑا سا سفر نامہ تھا جنہوں نے کہانی کی گاڑی کو رینگتے رکھا۔
البتہ اگر آپ سفرنامے، فلسفے اور رومانوی طبیعت کے مالک ہیں تو یہ کہانی کافی بااثر ثابت ہوسکتی ہے، تفریحی مقامات کے متعلق آپ کے علم میں بھی اضافہ کرسکتی ہے۔
ناول جنت کی تلاش میں یاس و قنوط اور بیم و رجا کا حسین مناظر میں مکالمہ
تبصرہ: محمد بدرالدجی
جنت کی تلاش بلاشبہ رحیم گل کا ایک شاہکار ہے جو طویل عرصہ آسمان علم و ادب میں جگمگاتا رہے گا یہ فقط ناول ہی نہیں یہ احساسات ہیں۔۔۔۔۔ اس میں غیر شعوری طور ہم میں سے کچھ لوگوں کے احساسات انتہائی احسن انداز میں مصنف نے ہمارے دماغوں سے کشید کر کے حیطۂ الفاظ میں رکھ دیے ہیں یہ ہر اس بندے کی داستان ہے جو انسان کی مچائی ہوئی تباہیوں سے انسانیت اور فطرت سے دور ہو چکا ہے اس کے کئی کلمات اور جملے آپ کو یوں محسوس کروائیں گے کہ " میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے"
بنیادی طور پر یہ ایک مکالمہ ہے رجائیت اور قنوطیت پسندی کے درمیان کائنات کے ہر زاویے کو منفیت کی عینک سے دیکھنے والی لڑکی کے درمیان اور ایسے لڑکے کے درمیان جو اس نفسا نفسی کی تاریک فضا میں ابھی تک زندگی کے حسن کو دیکھتا ہے اور امید کی کرن کی آس رکھتا ہے
یہ ناول کے ساتھ ساتھ ایک شاندار سفر نامہ بھی ہے جہاں قاری ناول کے کرداروں کے مکالمے سے بوریت کی طرف مائل ہونے لگتا ہے تو خوبصورت مناظر اس وقت قاری کو آ کر سہارا دیتے ہیں اور مختلف حسین مناظر کی عکس بندی اتنے خوبصورت انداز میں کی گئی ہے انسان بعض اوقات کہانی کے سحر سے نکل کر انہی مناظر میں کہیں کھو جاتا ہے اور شاید یہی مصنف کا کمال ہے اور محنت شاقہ کہ اس ناول کو لکھنے کیلئے مصنف ہر اس جگہ پر گیا جس کا ذکر ناول کے اندر ہے یہی وجہ ہے کہ نہ ہی سفر نامے میں مصنوعی پن ہے اور نہ ہی ناول میں کوئی جھول اس کا زیادہ حصہ کرداروں کے مکالمے پر مشتمل ہے (نئے قارئین کو بور کر سکتا ہے) ناول کا آغاز انتہائی سادہ اور عام بول چال کے الفاظ سے ہے نہ کوئی اچھی لفاظی نہ ہی منظر نگاری مگر جوں جوں آگے بڑھتے ہیں یہ آپ کو اپنے سحر میں جکڑتا جاتا ہے اور پھر ایسا جکڑتا ہے کہ ناول ختم ہونے سے پہلے اس کے چنگل سے نکلنے سے ناکام ہوتے ہیں اس ناول کے تین مرکزی کردار ہیں سب سے بنیادی کردار امتل نامی لڑکی ہے جس کے ارد گرد ہی پوری کہانی اور اس کے کردار گھوم رہے ہیں جو خوبصورت تو ہے ہی مگر ذہانت میں یکتا اور بحث و مکالمہ کا شوق حد درجہ اور بات فقط شوق تک ہی نہیں ہے بلکہ فطرت نے اسے اس میدان میں ایسا ملکہ عطا کیا ہوتا ہے کہ جب وہ کسی بھی موضوع پر بولتی ہے سامنے والا انگشت بدنداں اس کے طرز استدلال اور گفتگو کے ڈھب سے ہی ڈھیر ہو جاتا ہے اس کے نزدیک انسان فطری طور پر فقط شر کا ہی نمائندہ ہے مجموعی طور پر انسان اب تک منفی کام ہی کرتا آرہا ہے امتل اس میں ایٹم بم کی تخلیق، انسان کی آزادانہ فطرت کو بے جا کے رسم رواج میں قید کرنا اسے گھٹن میں مبتلا کرنا ہے، سرمایہ دارانہ نظام سے شاکی ہے تو اشتراکیت سے بغاوت کا جذبہ لیے گھوم رہی ہے دوسرا کردار اس کے بھائی عاطف کا ہے جو امتل سے بے پناہ محبت کرتا اس کیلئے سردھڑ کی بازی لگانے کیلیے تیار ہے مگر اس کے نظریات سے اختلاف تو رکھتا ہے مگر نہ اس سے بحث کرنے کی صلاحیت ہے اور نہ ہی مخالفت کرنے کا حوصلہ بلکہ بحث سے ہمیشہ کتراتا ہے
تیسرا کردار وسیم کا ہے جو یوں لگتا ہے مصنف نے اپنے نمائندے کے طور پر ناول میں شامل کیا ہے وسیم امتل کے عشق میں گرفتار تو ہوتا ہے مگر امتل کی منطق ،کہ انسان مجموعی طور پر برائی ، شر، خود غرضی اور انسان دشمنی کا نام ہے، کے خلاف ایک مدافعانہ آواز اس کے اندر سے اٹھتی ہے جسے تھوڑی دیر اپنے اندر دبانے کے بعد روک نہیں سکتا اور ناول کے آغاز سے جو مکالمہ کا آغاز ہوتا ہے وہ آخر تک جاتا ہے بارہا اس کے سامنے بحث میں مغلوب ہونے کے باوجود اس کی نا امیدی کے اندھیروں میں امید و رجا کا دیا جلانے کی کوشش کرتا ہے امتل کے نزدیک انسان کے تہذیبی سفر، نظریاتی ترقی اور ساری کاوش کا ماحصل اگر کچھ ہے تو وہ تباہی، انسانیت سے دوری اور غریبوں کے استحصال کے علاوہ کچھ نہیں
اس کے نزدیک "انسان تاریخ کا خام مال ہے ۔۔۔۔۔۔جس طرح انجن کو ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے ، فیکٹریوں اور کارخانوں کو خام مال کی، تب پروڈکشن ہوتی ہے اور مال تیار ہو کر نکلتا ہے اسی طرح انسان بھی کاروبار حیات کیلئے خام کا کام دیتا ہے کبھی تاج شاہی کیلئے اس کے کشتوں کے پشتے لگ جاتے ہیں ۔ کبھی جمہوریہ کی خاطر لاکھوں کی تعداد میں کٹ مرتا ہے۔ کبھی بالشویزم کیلیے مرتا اور زندہ درگور ہوتا ہے۔ ہر ازم ایک فیکٹری ہے۔ جس کیلئے انسانی خون درکار ہوتا ہے۔ انسان تاریخ کے ہر دور میں خام مال کی طرح استعمال ہوا ہے"
یہ کہانی بلوچستان، ناران کاغان ، گلگت، اسکردو ،دیواسائی، ہنزہ وغیرہ کی بلند و بالا چوٹیوں اور چنگھاڑتے ہوئے دریاؤں سے گذرتی ہے تو مصنف پاکستانیوں کی ان عظیم مقامات کی ناقدری پر بھی نالاں نظر آتے ہیں کردار جوں جوں جھیل سیف الملوک کی طرف چڑھتے جاتے ہیں توں توں کہانی کا پلاٹ میں آگے بڑھتا ہے اور میرے نزدیک سیف۔ الملوک پر پہنچ کر سفر نامہ اور کہانی اپنے عروج پر ہوتی ہے
پہاڑوں کے دامنوں میں اور دریاؤں کے پہلوؤں میں کئی کردار ایسے ملتے ہیں جو نیکی، انسان دوستی اور رجائیت کی مجسم تصویر ہوتے ہیں وہ امتل کے محظوظ ہونے کا سبب تو بنتے ہیں مگر اس کے نظریات کی دیوار میں ہلچل مچانے میں ناکام ہوتے ہیں کبھی کبھی اس کی باتوں سے یہ تاثر پڑتا ہے کہ ماضی میں اس روح پر شاید کوئی دلخراش زخم پڑا ہو جس کے کے اثرات نے اس پر یہ تاثر چھوڑا ہے کہ سارا انسانی سفر بے وقعت اور لا یعنی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کی روح جینا چاہتی ہے زندگی کی رمق اس کی باتوں سے باقی محسوس ہوتی ہے فطرت کے نظاروں سے مسحور ہونا نانگا پربت کی چوٹی میں گم ہونا وادیوں میں سادگی کے پیکر اور خوبصورت کرداروں سے متاثر ہونا اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ کہیں ناں کہیں زندگی جینے کی آرزو انگڑائیاں لیتی ہے تو کیا امتل زندگی کے مقصد کے عرفان میں کامیاب ہوتی ہے یا ابد تک بھٹکنا اس کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے وہ آپ ناول پڑھ کر ہی پتا لگایے گا
اقتباسات: (نانگا پربت کی چوٹی دیکھ کر) "یہ ماؤنٹ ایورسٹ سے کم بلندی کی چوٹی تھی مگر ناقابل عبور گھاٹیوں اور برف کے وسیع وعریض سمندر کی وجہ سے انسان کے پاؤں نے اسے ابھی تک نہیں چھوا تھا غالباً یہی وجہ تھی کہ اسے اپنی دوشیزگی کا احساس تھا اور سفید بالوں کا براق انچل بار بار اوڑھ رہی تھی"
"انسان دراصل پستیوں میں ہی خوش رہتا ہے کیوں وہاں گرنے کا احتمال نہیں ہوتا"
"وہ رونا جو نمائش کیلیے نہیں ہوتا جتنا طاقتور ہوتا ہے،اس سے اندر کی کیسی کیسی جذباتی محرومیوں کی تشفی ہو جاتی ہے"
This entire review has been hidden because of spoilers.
" جس کے رخساروں کو قراقرم کی ٹھنڈی ہواؤں کے علاوہ کسی نے نہیں چھوا تھا "
🌟 اس لائن کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ انسان کو اپنے حصار میں لینے کا ہنر جانتی ہے
🌟 یہ کتاب مجھ تک پہنچنے سے پہلے واپس اپنے اصلی مالک کے پاس پہنچ گئی میرے غلط پتے کی وجہ سے۔ لیکن پھر یہ مجھ تک چل کر آگئی اور مجھ میں ہی رہ گئی اب یہ کبھی کہیں اور نہیں جا سکتی ۔
🌟 رحیم گل کی یہ پہلی کتاب ہے جو میں نے پڑھی ۔ مجھے ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ کتاب کس بارے میں ہے پڑھنا شروع کی تو معلوم ہوا یہ ایک ناول ہے جو سفر نامے کی بھی خوبصورتی رکھتا ہے رحیم صاحب بھی شاید اس کتاب کو اپنا بہترین کام مانتے تھے انہوں نے یہ چھ سال میں لکھی اور واقعی پڑھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ اس پر چھ سالوں کا ہی حق بنتا تھا
🌟 کتاب سفر سے ہی شروع ہوتی ہے سفر جو انسان کا ہو یا دل کا ۔ دونوں بیک وقت بھی سفر کرتے ہیں اور نہیں بھی دل کہیں اور انسان کہیں اور ۔
🌟 امتل یعنی کہ امتی اس ناول کی نمایاں کردار ہے جس کی باتیں پڑھ کے لگتا ہے اسے واقعی نمایاں ہی ہونا چاہیے ۔ وسیم اور عاطف جن کی زندگیاں سفر اور امتی کی زندگی کے گرد گھومتی ہیں ۔ ان کرداروں کے علاوہ اور بھی بہت سے خوبصورت کردار ہیں مگر ان دو کرداروں کی خوبی یہ ہے کہ یہ دونوں امتی کی باتوں کو خوب سنتے سمجھتے اور جواب بھی دیتے تھے ۔ فلسفائی باتیں انسان بہت زیادہ بھی تو نہیں سن سکتا ۔ سوچنے والوں کے پاس سوچنا نعمت ہوتی ہے اور یہی نعمت انہیں مشکل میں ڈالتی ہے سوچنے والے لوگ آج کے زمانے میں بھی بہت ہین مگر ملتے خوش نصیبی سے ہیں انسان کو اپنے جیسے لوگ مل جائیں یہ غنیمت ہے اور کتاب میں وسیم صاحب اور مجھے دونوں کو اپنے جیسے لوگ ملے ۔
🌟 مذہب ، سائنس ، سیاست ، نظریات ، تہذیب ، مجبوریاں ، خدا اور انسان ان سب کے بیچ انسان کیسے سچ کو جانے کیسے اپنی الجھن کو کم کرے اسے تو سمجھنے سے میں بھی قاصر ہوں مگر اس کتاب سے ایسے لگا کہ یہ سب تو میں خود بھی محسوس کرتا ہوں یہی تو سوال ہیں جن کے مجھے جواب چاہیے ۔ کبھی میں امتی میں خود کو محسوس کرتا تو کبھی وسیم میں کبھی ڈاکٹر میں اور کبھی عاطف میں ۔
🌟 امن کا دورہ دورہ کیوں نہیں ہوجاتا ہر طرف ؟ سوشلزم کمنزم یہ سب کیا ہے ؟ نظریات کی جنگ مذہب اور اندر کا انسان ۔ حیوانیت اور انسانیت کے درمیان دھاگے جتنا فرق ۔ جینا ہی کیوں ضروری ہے ۔ ؟ اور مرنا مرنے سے کیا ہوگا ؟ خدا کیوں ضروری ہے ؟ جیسے وہ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ " خدا کو نہ مان کر ہمیں کیا فائدہ ہوگا ؟ " سچ میں خدا کو نا مان کر انسان بس اپنے ضمیر کی تسکین ہی پوری کر سکتا ہے اس کے سوائے انسان کیا ہی کر سکتا ہے ۔ میں باتوں باتوں میں اپنے نظریات بھی یہاں لکھنے لگ گیا ہوں معافی چاہتا ہوں ۔ میں اس کتاب کے مضمون پر واپس آتا ہوں ۔ یہ کتاب ہے ہی ایسی سوالات اور جوابات سے اتنی بھری ہے جیسے پانی کی طرح نظریات انڈل رہے ہوں ۔
🌟 رحیم گل صاحب کو پڑھنے کا تجربہ بہترین تجربہ رہا ۔ مثالوں کا ایسا استعمال پہلے نہ پڑھا تھا ۔ سفر کو ایسے لکھا جیسے قاری وہاں خود موجود ہو ۔ پاکستان کی خوبصورتی کو حق ہی یہ ناول ادا کر سکتا ہے ۔ یہ کافی پرانا ناول ہے تب vlogs نہیں ہوتے تھے میں سمجھتا ہوں اگر آج vlogs نہ ہوتے تو کتنا مزہ اتا ہم ہر چیز پہلی بار دیکھ رہے ہوتے پہلی بار کی خوبصورتی تو پہلی بار ہی ہوتی ہے ۔ ڈاک بنگلے کا بھی اسی ناول میں پڑھا پہلی بار ۔ کمال کی چیز تھی ۔ سی ایس پی اور فوجی افسروں کا بھی ذکر ہے اور یہ بھی کہ تب ان لوگوں کو خوبصورت بیویاں مل جایا کرتی تھیں مجھے لگتا ہے آج بھی ایسا ہی ہے مگر اب لڑکیاں سی ایس پیز سے زیادہ Influnecers کے پیچھے پاگل ہیں ( مزح بھی تو سمجھا کریں )
🌟 آپ اس ناول کو پڑھ کے خود میں واقعی کچھ تبدیلی تو محسوس کریں گے ۔ کوئی تو آپ کو بھی وزیر خان کی بیوی جیسی امن کی فاختہ کہیں ملے گی کہیں تو کہانیاں سنانے والے ڈپٹی کمشنر سے ملاقات ہوگی اور دل چاہے گا کوئی تو سلطانہ " جی " جیسی عورت آپ کو بھی آپ کے نام کے ساتھ " جی " کہہ کر پکارے ۔
🌟 اختتام کرتا ہوں اس سے پہلے کہ آپ مجھ سے عاجز آجائیں ( یہ تو نہیں سوچ رہے کہ ہم تو پہلے ہی عاجز آچکے ہیں) مذاق کر رہا ہوں ۔ اس کتاب کو لازمی پڑھیں ۔ یہ میری پسندیدہ کتابوں میں سر فہرست ہے ۔ یقیناً یہ اردو ادب کیلئے ایک نعمت ہے ۔ تلاش میں رہیں بھلے پھر وہ اچھی کتابوں کی ہی تلاش کیوں نہ ہو ۔ جیسے یہ ہے " جنت کی تلاش " بس اتنا ہی احسن افتخار امید ہے آپ مجھے جانتے ہونگے
ناول ہاتھ میں آئے ۔۔۔آہستہ آہستہ پڑھتے ہوۓ اندازہ ہوتا ہے یہ ایک تاریخی ناول ہے یا سفر نامے کی طرز پر لکھا گیا ہے یا پھر اسکا موضوع سماجیات ہے ۔ لیکن " جنت کی تلاش " پڑھتے پڑھتے یہ فیصلہ مشکل ہوگیا ۔ ایک پل لگتا ہے بہترین اور دلچسپ سفرنامہ ہے دوسرے پل لگتا یہ ہسٹری کے طالب علموں کو پڑھنا چاہیے اور اگلے لمحے لگتا کہ اسکا مقصد سماجی مسائل سے آگاہی ہے ۔ ناول میں تین کردار ہیں ۔ امتل ، عاطف اور وسیم ۔۔۔ یہ ناول چونکہ ایک خوبصورت سفر کی کہانی ہے سو ہمارا سامنا کئی کرداروں سے ہوگا ۔کئی زبانوں سے ہوتا ہے ، کئی تہذیبوں سے ہوتا ہے ۔ سب سے اہم بات ہمارا سامنا کئی خوبصورت مناظر سے ہوتا ہے ۔ناول پڑھتے پڑھتے کئی بار پہاڑوں میں کھو جانے ، دریاؤں کے ساتھ بہنے اور پھولوں کی خوشبو خود ے اندر اتارنے کو دل مچلتا رہے گا توجہ کا محور البتہ امتل اور وسیم ہی رہیں گے جو جنت کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں امتل اس ناول کی کہانی کا سب سے پر کشش کردار ہے ۔ اتنا پر کشش کہ 1981 ء جب یہ ناول پہلی بار شائع ہوا تب بھی لوگ اس کردار کے دیوانے تھے ۔ آج بھی جب یہ دوبارہ 2022 ء میں اسے بک کارنر جہلم نے شائع کیا ۔ بہترین پلاٹ کو خوبصورت الفاظ میں ڈھالا گیا ۔ پاکستان کے خوبصورت ترین علاقاجات کی سیر کروائی گئی ۔ ذھن میں الجھتے سوالوں کے جواب ملے ۔ اس ناول نے ایک پاکستانی کی حیثیت سے اور ایک انسان ہونے کی حیثیت سے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا ۔ مکالمے بے حد جاندار ہیں ۔۔۔ امتل کا کردار قارئین کا پسندیدہ کردار ٹھہرا ۔ وجہ یہ رہی کہ امتل منفرد ہے ، جو سوچتی ہے کہہ دینے کی عادی ہے ۔ ٹوٹے ہوۓ دل ، ٹوٹے ہوئے وجود کے ساتھ دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑی ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ ناول پڑھتے پڑھتے مجھے بھی امتل سے انسیت محسوس ہوئی ۔ لیکن ساتھ ساتھ اسکا حد سے زیادہ پریکٹیکل ہونا کوفت کا باعث بنا ۔ ایسا محسوس ہوا کہ حد سے زیادہ علم ، آگاہی اور ٹیکنالوجی ہماری زندگی کی رومانیت کو چھین رہی ہو ۔ لیکن ناول میں موجود بہتے دریاؤں، پھول، پہاڑ ، خوبصورت راستے اور دلکش لوگوں کے قصے کہانیوں کی خوبصورتی نے اس احساس کو ماند کردیا ۔ اس ناول اختتام خوبصورت انداز میں ہوا ۔ زندگی کی تلاش میں نکلے چند بنجاروں کو آخر کار زندگی ملی ۔ جنت کو تلاش کرنے والے ، جنت میں گھوم پھر رہے تھے اور انھیں احساس نہ تھا ۔ سو جنت کی تلاش مکمل ہوئی یا نہیں اس کا فیصلہ پڑھنے والے پر چھوڑ دینا چاہیے ۔ اس کتاب کی قیمت ہے 999 روپے ۔ اس کی اشاعت کا سہرا ہے بک کارنر جہلم کے سر اور جناب ایک بار نہیں ہم اس کتاب کو بار بار پڑھنے کے حق میں ہیں ۔ 2022 کی پڑھی جانے والی اثر انگیز کتب میں سے یہ ایک کتاب ہے ۔ رحیم گل صاحب ، اس کتاب کے مصنف ،کے لئے بہت داد ۔ آمنہ احسن
تاحشر مقدر میں لکھی ہے دشت نوردی ہم رک نہیں سکتے، ہمیں جنت کی ہے تلاش - زنیر سعید
جس روز انسان تخلیق کیا گیا اور ایک بے جان جسدِ خاکی میں روح نام کی بے چینی پھوک دی گئی، اسی روز سے وہ اپنے مقصدِ حیات کی تلاش میں، جس کے بدل میں اس سے جنت کا وعدہ کِیا گیا ہے، سرگرداں ہوچکا تھا، آج بھی ہے اور یقیناً روزِ آخر تک رہے گا۔ وہ جانتا ہے کہ اس کا مقصد فقط اللہ کی عبادت نہیں ہوسکتا کہ:
"طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں"
"جنت کی تلاش" بھی اسی طرح کی ایک "امتل" نامی بے چین روح کا سفر ہے۔
یہ ناول، جو کہ دراصل ناول کے روپ میں چھپا ایک سفر نامہ ہے، ایک انتہائی وسیع کینوس پر مبنی ہے جس میں ہر وہ چیز موجود ہے جو قاری کو اول تا آخر اپنے سحر میں جکڑے رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، چاہے وہ پاکستان کے مسحور کن اور دیدہ زیب مقامات کی پُر کیف منظر نگاری ہو، یا پھر پختہ نظریات کی تکرار اور سوچ کو جھنجھوڑ دینے والے پر فکر مباحثوں پر مشتمل جاندار مکالمے ہوں، جو کہ اس روانگی اور نفاست کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں ایک لمحہ بھی گِراں نہیں گزرتے، یا پھر وہ حسین امتزاج ہو جو کہ امتل، وسیم اور عاطف کے مختلف مگر ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہوئے کرداروں کی مدد سے پیش کیا گیا ہے۔
رحیم گل کو لاہور کے پاک ٹی ہاؤس میں نثری شاعر کے نام سے پہچانا جاتا تھا، جیسے کرشن چندر کو افسانہ نگار کے روپ میں چھپا شاعر کہا جاتا ہے، اور اس چیز نے میری توقعات کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا کیونکہ کرشن جی کے اسلوب کا تو میں دلدادہ ہوں۔ کتاب پڑھنی شروع کی تو اندازہ ہوا کہ ایسا کیوں کہا جاتا تھا، کہ رحیم گل کو الفاظ پرونے کا فن خوب آتا ہے۔ وہ ایک شاعر کی طرح اپنے قاری کے ارد گرد ایک لفظوں کا جال بنتے چلے جاتے ہیں جس سے آزاد ہونا پھر قاری کے بس کی بات نہیں رہتی۔ اتنے وسیع اور فکر سے بھرپور خ��الوں اور پیچیدہ موضوعات کو اس سادگی اور لطافت سے پیش کرنا کسی عام لکھاری کے بس کی بات نہیں اور یہ کام رحیم گل نے بے بہا مہارت سے سر انجام دیا ہے۔
اپنے سفر کے دوران ہر مختلف مقام پر مختلف لوگوں سے ملاقات، تجربات اور مشاہدات کی بدولت یہ کردار دھیرے دھیرے قاری کی نظروں کے سامنے ہی نکھرتے چلے جاتے ہیں۔ ان میں آنے والی تبدیلیوں کو گویا قاری محسوس کرنے کے قابل ھو جاتا ہے اور یہی رحیم گل کی نثر کا خاصہ ہے کہ وہ اپنے قاری کو اپنے کرداروں سے اس طرح جوڑ دیتا ہے کہ ان کرداروں کے ساتھ ساتھ اس کا قاری بھی خود میں نئے نئے دروازے کھلتے ہوئے محسوس کرنے لگتا ہے۔
یہ دراصل ایک ہلکی آنچ پر پکتی ہوئی کہانی ہے جو کہ آہستہ روی سے پروان چڑھتی جاتی ہے اور ہر اس کے کردار اور ان کی سوچ گزرتے حادثات اور واقعات کے ساتھ ساتھ پختگی کی اور بڑھتے رہتے ہیں اور آخر کار کہانی کے اختتام پر وہ ادھورے کردار اپنی تکمیل کو پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
What a read it was. The author through his character (Amtal) answers some of the centuries-old questions. I enjoy this novel as it helps me understand the basics of humans, emotions, travel, and a lot more. At the same time through the lens of Waseem, I get to know what a man might think after meeting a like-minded person and how easily he make it all romantic. I like almost everything apart from the ending part where not only does he (Waseem) cross his limits but too forgiven easily by Amtal. Other than this, the writing was good and the words were easy to understand even for someone who’s having a hard time reading Urdu
اگر ناول کی تھیم یا کہانی کے بارے میں بات کریں تو اس میں کوئی خاص جان نہیں ہے۔ بہت عام سے کہانی ہے۔ سفرنامے کے لحاظ سے جس خوبصورتی سے منظرکشی ہونی چاہیے وہ نہیں ہے لیکن مکالمہ نگاری اور روانی خوب ہے۔ زندگی سے متعلق فلسفہ بھی بہت عمدہ ہے۔ جس طریقے سے رائٹر فلسفہ اور سیاحت کو ساتھ ساتھ لے کر چل رہا ہے اس سے ناول میں دلچسپی قائم رہتی ہے۔
کہانی میں دو ہی اہم کردار ہیں امتل اور وسیم۔ کہانی ان دونوں کی گفتگو کے گرد ہی گھومتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کی کچھ سیاحتی مقامات کی سیر بھی ہو جاتی ہے۔ مجموعی طور پر ایک اچھا ناول ہے۔
"Jannat ki Talash" by Rahim Gul is a must-read for anyone who appreciates beautifully crafted stories that delve into the complexities of the human experience. Amtul and Wasim's journey is captivating, and the book's exploration of love and longing will stay with readers long after turning the final page.
جنت کی تلاش ناول کے لبادے میں پنہاں ایک سفر نامہ بھی ہے۔ جس میں پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے حسین ترین قدرتی مناظر کی منظر نگاری کچھ اس دلکش انداز میں کی گئی ہے کہ قاری پڑھتے وقت خود کو اُن حسین و جمیل وادیوں کا باسی محسوس کرتا ہے۔ قاری کو سیاحوں کے ساتھ اپنی ذات بھی سیاح ہی معلوم ہوتی ہے۔ ان قدرتی مناظر میں ولله ایسی کشش ہے کہ قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔ اس ناول میں انسان ، مذہب، سائنس ، تہذیب ، سیاست سچائی ، آگہی، محبت ، نفرت ، نیکی ، بدی ،خدا، اسی طرح کے بہت سے موضوعات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ ایک کردار سوال کرتا ہے تو دوسرا کردار اِس قدر جاندار جواب دیتا ہے جو بےساختہ قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ زندگی کے ہر پہلو پرکرداروں کے مختلف نظریات بہت جاندار ہیں کہ اُن نظریات سے اختلاف کرنا ناممکن سا ہے کیونکہ وہ حقیقت کے قریب ترین ہیں اور حیرت میں مبتلا کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔
جیسے جیسے انسان شعور کی منزلیں طے کرتا چلے جاتا ہے ویسے ویسے ہی اِس پر دنیا اپنی حقیقت عیاں کرتی چلی جاتی ہے۔ معلوم نہیں کہ بے خبر انسان خوش نصیب ہے یہ باخبر ۔
ہم اپنے ہی بنائے اصولوں کو بنیاد بنا کر منزل کی جانب گامزن ہو جاتے ہیں اور پھر منزل پر پہنچ کر ادارک ہوتا ہے کہ یہ اصول تو من گھڑت اور کھوکھلے ہیں اور یوں انسان منزل پر پہنچ کر بھی تہی دامن رہ جاتا ہے۔
مصنف نے اس ناول کو چھ سال کی طویل مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے اور مہارت سے اپنے وسیع مطالعے، خیالات اور مشاہدے کو لفظوں کے لبادے میں اُوڑھ کر صفحہ قرطاس پر تحریر کیا ہے ۔طرزِ تحریر میں اِس قدر روانی ہے کہ کہیں پر بھی اکتاہٹ محسوس نہیں ہوئی۔ ناول پڑھ کر چھ سال کی انتھک محنت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔
" انگور کے سرخ دانے کی طرح رس بھرا ہونٹ " تحریر میں بارہا اِس جملے کی تکرار اُکتاہت کا باعث بنی۔
ناول کا ایک مرکزی کردار "امتل " کا ہے ، اس قدر جاندار کردار ہے کہ زندگی کے ہر پہلو پر اس کے مختلف نظریات ہیں جو حیرت میں مبتلا کردیتے ہیں۔
ایک بات جو مجھے سمجھ نہیں آئی اور نہ پسند آئی ہے وہ اس تحریر کا اختتام ہے آخر اتنےمختلف نظریات کی حامل لڑکی کو انتہائی کم عرصے میں کیسے تسخیر کیا جا سکتا ہے اور وہ ہو کیسے گئی ؟