دنیا میں اس وقت کھلبلی مچ گئی جب ایک اہم بحری جہاز، جس میں مختلف ممالک کی اہم شخصیات سوار تھںی، برمودا ٹرائی اینگل کی پراسراریت کی نزر ہو گیا۔ امریکہ پر دباؤ زیادہ بڑھا تو دنیا بھر سے ذہین ترین سائینسدانوں کو ناسا میں جمع کیا گیا۔ پر ان سب پر سبقت لے جانے والا ایک ہی تھا "ڈاکٹر جیرالڈ" وہ جس کی تھیوریز سب سے الگ تھیں۔ پر اسے ضرورت تھی کچھ ایسے بہادروں کی جو مشن میں اس کا ساتھ دیں۔ اس کے ساتھ داخل ہونے والے تھے۔ وہ مشن جس میں دنیا کے بہترین آٹھ لوگ برمودا ٹرائی اینگل میں
اس کتاب کو کن لفظوں میں بیان کروں، میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ نازیہ کامران کاشف کے علم اور معلومات کی میں تب ہی فین ہو گئی تھی جب انکی کتاب "مکلی" پڑھی تھی۔ انکی اس کتاب کا بھی بہت وقت سے انتظار تھا اور یہ کتاب بھی نازیہ آپا کی باقی کتابوں ہی کی طرح تجسس اور حیران کن معلومات سے بھری پڑی ہے۔ آپ یہ کہانی پڑھتے اپنا دھیان اس پر سے نہیں ہٹا پائیں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر میں نے مزید لکھا تو میں کوئی سپائیلر دے بیٹھوں گی۔
At first, I really struggled to start this book. But yesterday I finally began reading it. Since I had already read the author’s Makli, I had high expectations and she truly lived up to them.
The story brings back the central characters from Makli along with six new important characters. It begins with another ship disappearing in the Bermuda Triangle this time carrying Ahmed's wife and son. From there, the plot weaves around the mysteries of the Bermuda Triangle, time travel, Islamic history in science and technology, revenge, and even supernatural creatures.
I must give credit to the author here. She clearly did indepth research, and her hard work shows on every page. There are no unnecessary lengthy dialogues or exaggerated descriptions just strong writing backed with effort and detail. The way she hid the identity of the villain was brilliant I kept guessing till the very end and the reveal genuinely surprised me.
The only drawback for me was a slightly dragged out section before the ending when the entire city was being destroyed and characters kept moving from one place to another. It felt repetitive. Also (without giving spoilers) since this was sci-fi I expected kaash :(....(if you had read the book you would know what i mean) even in the very last line but that didn’t happen...even after finishing, I kept thinking “what if…?” Khair :(
Honestly, I don’t understand why this writer is so underrated. This book is a solid 4-star read but I’m giving it 5 since the concept is unique and I had such a good time reading it.
نام کتاب: برمودا ٹرائی اینگل مصنفہ: نازیہ کامران کاشف مطبع: علی میاں پبلیکیشنز صفحات کی تعداد:319
ابتدائی تعارف (مصنفہ):
یہ نازیہ کامران کاشف کا چوتھا ناول ہے جو کہ باقی تینوں کی طرح منفرد اور ایک الگ ہی تاثر لیے ہوئے ہے۔۔۔ گو کہ نازیہ کو اس شعبے میں قدم رکھے ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا لیکن اس قلیل عرصے میں لکھے جانے والے تمام ہی ناول نوعیت اور موضوع کے لحاظ سے ایک دوسرے سے جدا ہیں۔۔۔
جہاں دل لگی ایک رومانوی ناول تھا وہیں مکلی ایک پراسراریت اور دہشت کا سماں بنانے میں کامیاب رہا، عشق زاد میں محبت کا ایک نیا ہی جہاں تھا تو اب برمودا ٹرائی اینگل ایک سائنس فکشن کے طور پر اپنی دھاک بٹھا چکا ہے۔۔۔ نازیہ کے ہاں موضوعات کا تنوع انتہائی واضح ہے۔۔۔
عام طور پر ہمارے ملک میں خواتین کی ایک بڑی تعداد عشقیہ ناول لکھنے میں مہارت رکھتی ہیں لیکن بہت ہی کم خواتین کو تجسس سے بھرپور اور خاص طور پر سائنس فکشن میں طبع آزمائی کرتے دیکھا گیا ہے۔۔۔ اگر ہم اپنی بات کریں تو ہم نے اس سے قبل کسی خاتون لکھاری کا سائنس فکشن دیکھا ہی نہیں ہے اسے آپ ہماری کم علمی کہہ لیں یا برمودا اور نازیہ سے محبت لیکن دونوں صورتوں میں ہماری رائے تبدیل ہونے والی نہیں ہے۔۔۔
ابتدائی تعارف (برمودا ٹرائی اینگل):
نازیہ نے جب پیبورپ پر برمودا ٹرائی اینگل کی اقساط لکھنا شروع کیں تو پہلی ہی قسط سے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ عام سی ادھر ادھر سے خبریں لے کر لکھی جانے والی کہانی نہیں ہوسکتی۔۔۔ جس انداز میں اوقات کار، مقامات اور تواریخ کے ساتھ کرداروں کی حرکات و سکنات کو لکھا گیا ہے ہمیں تو پڑھتے وقت اپنا آپ فوراً اسی جگہ کہیں کسی کونے میں اندھیرے میں کھڑا سب کارروائی اپنی آنکھوں سے دیکھتا نظر آیا۔۔۔
ممالک اور اہم مقامات کے حقیقی نام بھی قارئین میں اس لحاظ سے مزید دلچسپ پیدا کرتے ہیں کہ وہ وہ خود اسے نقشے میں دیکھ کر اپنے تخیل کو مزید جلا بخشتے ہیں۔۔۔ فرضی ناموں سے وہ مناظر دیر پا ذہن میں قائم نہیں رہ پاتے جتنا حقیقی ناموں سے رہتے ہیں۔۔۔
اس موضوع پر بلاشبہ پہلے بھی بہت کچھ لکھا جا چکا ہےلیکن ایک تو اتنی آسان زبان استعمال نہیں کی گئی جتنی کہ نازیہ نے کی اور دوسرا ان میں سائنسی اصطلاحات کو بیان کرنے کا طریقہ بھی عام قاری کے لیے سمجھنا مشکل ہی رہا ہے۔۔۔ ہمیں یہ تو معلوم تھا کہ یہ ناول اپنے شعبے میں تہلکہ مچانے والا ہے لیکن اس سب کے پیچھے چھپی کئی دنوں اور راتوں کی تحقیقات، پھر انہیں کرداروں کے ذریعے بیان کرنا اور ایسا بیان کرنا کہ سائنس سے نابلد انسان بھی دس بارہ مزید لوگوں کو آرام سے سمجھا سکے یہ سب بالکل بھی حیران کن نہیں تھا۔۔۔ اس کی وجہ نازیہ کا پچھلے ناولز میں پیدا کیا گیا تاثر ہے۔۔۔
پیبورپ میں شائع ہونے کے بعد چند ہی اقساط پڑھیں لیکن پھر آگے اس لیے نہیں پڑھیں کیوں کہ محترمہ ایسے مقام پر لا کر چھوڑتی ہیں جہاں سے مزید انتظار جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔۔۔کتابی شکل میں آنے کا انتظار کیا تا کہ بنا رکے پڑھا جائے۔۔۔ کیوں کہ یہ قسطوں میں پڑھنے والا ناول نہیں ہے۔۔۔
سرورق:
کہانی کے مرکزی خیال کے اعتبار سے کوشش کی گئی ہے کہ سرورق میں ان کی جھلکیاں دکھائی جائیں۔۔۔ ناول پڑھنے سے قبل ہوسکتا ہے آپ کو اس کے سرورق میں موجود مختلف مناظر اپنی جانب اتنی شدت سے نہ کھینچ پائیں لیکن ایک بار آپ نے ناول پرھنا شروع کردیا تو آپ سرورق کے پیچھے چھپی سوچ کو بھی سمجھ جائیں گے۔۔۔ ناول مکمل کرنے کے بعد ہم ایک بار پھر سرورق کی جانب آئے تھے اور اب کی بار یہ زیادہ پرکشش لگا کیوں کہ یہ تمام مناظر ناول میں موجود کہانی سے ایسے جڑے ہوئے ہیں جیسے کہ ٹچ بٹن کی جوڑی۔۔۔۔
کرداروں کی تخلیق:
کرداروں کی تخلیق کسی بھی ناول کا پلاٹ کے بعد سب سے اہم حصہ ہوتا ہے۔۔۔ یہاں بھی نازیہ نے ایون، جیسیکا، رومینہ، سائمن، زلیکا،عیسٰی گردیزی، رونالڈ اور الادریسی کے نئے کرداروں کے ساتھ ساتھ مکلی کے احمد، ول، اہارون، ڈینیئل اور آکل کا ملاپ کروا کر حیران ہی کردیا۔۔۔ ایسی صورت میں بعض اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی ایسا ہوجاتا ہے کہ نئی کہانی میں پرانی ہی کہانی جیسا ماحول بن جاتا ہے لیکن ماسوائے تعارف کے نازیہ نے برمودا پر مکلی کا سایہ بھی نہیں پڑنے دیا اور یہی ایک اچھے لکھاری کا کمال ہوتا ہے۔۔۔
اکثر فلموں کے سیکوئلز بنتے ہیں یا کردار دہرائے جاتے ہیں توان پر پچھلی کہانی کی چھاپ صاف نظر آتی ہے لیکن یہاں ایسا ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملا۔۔۔ ہر کردار سے اتنی ہی شناسائی کروائی گئی جتنی ضروری تھی۔۔۔بلاوجہ کپڑوں کی سلوٹوں، رنگوں، جوتوں ، بالوں، پردوں، کرسیوں، سیڑھیوں اور گلدانوں کے مقام بتا کر مناظر کو طویل نہیں کیا گیا۔۔۔کردار کا جتنا خاکہ پیش کیا گیا وہی ذہن میں اس کی شبیہ بنانے کے لیے کافی تھا۔۔۔
سائنسی اصطلاحات:
سائنس فکشن ہو اور ہم اس میں موجود سائنسی تحقیقات اور مفروضات کی بات نہ کریں تو زیادتی ہوگی۔۔۔ ہمیں اس معاملے میں پھر سے مصنفہ نے ورطہ حیرت میں ڈال دیا کیوں کہ طبیعیات، فلکیات، ایجادات، تاریخ، مستقبل، ماضی اور حال کے بارے میں جامع معلومات رکھنے والا شخص ہی اس موضوع پر ہاتھ ڈالنے کی جرات کر سکتا ہے۔۔۔ وارم ہولز، بلیک ہولز، ایسٹرل پراجیکشن، ٹائم ٹریولنگ، ٹیلی پیتھی اور پیرالل یونیورس ایسے میدان ہیں جن میں اس وقت سے کام جاری ہے جب سے انسان نے سوچنا شروع کیا اور آج تک نئی اور پرانی تحقیقات اپنے آپ کو منوانے کے لیے مقابلے جاری رکھے ہوئے ہیں۔۔۔ ایک فکشن ناول ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں سائنسی علوم کو اس طرح سے داخل کرنا کہ پڑھنے والے کی نیند آنے کی بجائے اڑ جائے ہم جیسے لوگ بہت پسند کرتے ہیں کیوں کہ تجسس اور مزید جاننے کی خواہش میں کہانی اور منظرنامے کی طوالت ہماری دشمن ہے۔۔۔
مرکزی خیال:
یہ کہانی اس وقت شروع ہوتی ہے جب ایک بہت اہم بحری جہاز برمودا ٹرائی اینگل کی پراسرار خاموشی میں کھو کر دنیا میں شور مچا دیتا ہے۔۔۔ امریکی حکومت پوری دنیا سے ذہین و فطین اور اپنے اپنے شعبے کے ماہرین کو بشول ناسا اس جہاز کی کھوج کے مشن کے لیے طلب کرتی ہے۔۔۔تمام ماہرین اپنی اپنی حکمت عملی سب کے سامنے رکھتے ہیں۔۔۔ سب سے بہترین، خطرناک اور پر امید لیکن ناقابلِ یقین حد تک قابل عمل تھیوری پیش کرنے پر ڈاکٹر ایون جیرالڈ کو اس مشن کو آگے بڑھانے کی اجازت مل جاتی ہے لیکن ایون کو ایک ایسی ٹیم درکار ہے جو بہادر، ذہین اور سر پر کفن باندھے اس کے ساتھ چل سکے۔۔۔ بالآخر وہ اپنی ٹیم بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور وہ سب اس کے بھروسے ایک ایسے رازوں بھرے کنویں میں کود جاتے ہیں جہاں سے اس سے قبل کوئی نہیں پلٹا۔۔۔
برمودا کی بھول بھلیوں میں وہ کیسے کسی دھوکے میں آئے بغیر آگے بڑھتے ہیں یا نظروں کے دھوکے انہیں روکنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔۔۔ اس ٹیم میں سب ہی ایک مقصد کے تحت شامل ہوئے ہیں یا کوئی اپنا الگ مقصد لیے بھی ٹیم میں رہ کر ٹیم کو نقصان پہنچا رہا ہے۔۔۔ یہ ناول پڑھنے پر ہی معلوم ہوسکے گا۔۔۔
دو چیپٹرز پر مشتمل اس کہانی کے پہلے چیپٹر میں ایون کا ٹیم کی تشکیل، ان کے ساتھ برمودا میں داخلہ اور وہاں ان پر بہت سے انکشافات کی کہانی ہے جس کا اختتام ذہن کو جھٹکا دیتا ہے اور دل کو دہلا دیتا ہے۔۔۔
دوسرے چیپٹر میں ماضی کی کہانی کو حال سے جوڑا گیا ہے۔۔۔ دھند میں چھپے جزیرے کا راز صدیوں قبل جان لینے والے ایک عظیم مسلمان سائنسدان الادریسی اور زمانہ حال سے گئے دو ٹائم ٹریولرز کی ان تک رسائی، علم سے استفادہ اور سنسی خیز سفر کی داستان بیان نہیں کی گئی بلکہ سچ کہا جائے تو قاری کو ہی اٹھا کر ان کے درمیان پھینک دیا گیا ہے۔۔۔ اس حصے میں یہ سوال اٹھیں گے کہ زلیکا عیسیٰ گردیزی کا مطالبہ کیوں کرتی ہے اور آخر کون ہے یہ عیسیٰ گردیزی جسے کوئی بھی نہیں جانتا سوائے زلیکا کے۔۔۔ اس کے حصول کے لیے کیا کیا طوفان برپا کیے جاتے ہیں اور کون اس راز کو جاننے میں کامیاب ہوپاتا ہے۔۔۔ یہ سب دوسرے چیپٹر کے اختتام تک ہی سامنے آئے گا۔۔۔
دونوں چیپٹرز کے درمیان رنگ برنگی تصاویر سے مزین چند صفحات کا اضافہ کیا گیا ہے جو ہمیں ذاتی طور بے حد پسند آئے۔۔۔ انسانی ذہن پڑھ کر کسی چیز کو زیادہ دیر محفوظ نہیں رکھ سکتا لیکن دیکھی گئی چیز بہت دیر تک کےلئے نہیں بھولتا۔۔۔ ��م سے کم ہمارا دماغ تو ایسے ہی کام کرتا ہے کہ کسی کہانی کو پڑھ کر بھول سکتے ہیں لیکن اس کو ڈرامائی تشکیل دی جائے یا تصاویر کی صورت میں دکھایا جائے تو ہمیشہ یاد رہ جاتی ہے۔۔۔ ان تصاویر نے تخیل کو مزید وسعت دی اور بہت کچھ جو پہلے لکھا جا چکا تھا دیکھنے پر مزید واضح ہوگیا۔۔۔
اختتام/ انجام:
اس سے قبل بھی ذکر کر چکے ہیں کہ برمودا کا موضوع حساس ہونے کے ساتھ ساتھ پر سرار بھی رہا ہے اور اس پر لکھی جانے والی تمام کہانیاں اس نوعیت کی نہیں ہیں جنھیں عام قاری با آسانی سمجھ سکے۔۔۔ نازیہ نے جس انداز میں اس کہانی کو ماضی، حال، مستقبل کی کہکشاؤں سے گزار کر اختتام تک پہنچایا ہے وہ قابلِ داد ہے۔۔۔
پرتجسس فلموں کے شوقین ہونے کے ناطے سے ہم اس بات کو بہت اہمیت دیتے ہیں کہ کسی بھی فلم میں منفی رویے کے حامل شخص کی اصل کہانی کیا رہی ہوگی۔۔۔ فلم کے آخر میں ہمیں اس شخص کی حرکات کا ٹھوس ثبوت ہی قائل کرسکتا ہے بصورتِ دیگر فلم میں جتنا مرضی سسپینس ڈال دیا جائے اگر وجہ مضبوط نہ رہی ہو تو ہماری ریٹنگ بالکل صفر ہوجاتی ہے۔۔۔ ناول پڑھنےکی بات آئی تو یہاں بھی ہمیں اس کے اختتام تک اس لیے جانا تھا کہ آخر ایسی کیا وجہ ہے جس نے شیطانی کاموں پراس قدر مجبور کردیا کہ نوبت یہاں تک آن پہنچی اور اس بات پر نازیہ کو سو میں سے دو سو نمبر دینا چاہیں گے کہ آخر کار وجہ ٹھوس ہی بیان کی گئی۔۔۔ اگر یہ وجہ ذرا بھی کمزور ہوتی تو پورے تجسس اور پر اسراریت کا کوئی فائدہ نہ رہتا۔۔۔ یہی سوچ ہماری مکلی پڑھتے وقت بھی تھی کہ مصنفہ اصل وجہ کیا بیان کرتی ہیں۔۔۔ نہ ہمیں وہاں مایوس کیا گیا اورنہ ہی یہاں۔۔۔
ہر کہانی کا اختتام خوشی پر متنج نہیں ہوتا۔۔۔ کچھ کہانیاں قربانیاں مانگتی ہیں اور کچھ قربانیاں دیتی ہیں۔۔۔ اس کہانی میں قربانی لی گئی یا دی گئی یہ تو ہم نہیں بتانے والے لیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ کوئی تشنگی باقی نہیں رہتی۔۔۔ دکھ بھرا اختتام بھی نہیں کہوں گی کیوں کہ زندگی ہو یا ناول کچھ کردار کچھ خاص کام کرنے کے لیے ہی سامنے آتے ہیں ۔۔۔ اپنا کام انجام دے لینے کے بعد ان کا غائب ہونا یا چلے جانا ہی ضروری ہوتا ہے۔۔۔ کسی کی خوشی کے لیے کسی کا غم برادشت کرنا پڑجاتا ہے۔۔۔ ایک جانب آپ خوشی محسوس کریں گے اور دوسری جانب دل مٹھی میں آجائے گا۔۔۔
یہی ہے ایک اچھے ناول کا اچھا اختتام جہاں سب کے ساتھ انصاف ہو۔۔۔۔
ذاتی رائے:
نازیہ کے ہر ناول میں ویسے تو الگ ہی جہان آباد ہوتا ہے لیکن علاقوں کا انتخاب اور ان کی خصوصیات بیان کرنے کا جو کام کرتی ہیں وہ ہمیں ان جگہوں سے مانوس کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔۔۔ کینیڈا ہو، اسلام آباد ہو، مصر ہو، کانگو ہو، کیرتھر ہو، قلعہ دراوڑ ہو، بلتتستان ہو، پورٹوریکو ہو الغرض جن جن مقامات کا ذکر جس بھی ناول میں آیا ایک تو وہ حقیقت میں اپنا وجود رکھتے ہیں دوسرا جب کبھی کسی کا بھی ان جگہوں سے گزر ہوگا تو نازیہ کے تخلیق شدہ کردار ان کے سنگ سفر کرتے محسوس ہوں گے۔۔۔
برمودا کی بات کی جائے تو یہاں صرف تھیوریز کو فصاحت سے بیان کیا گیا ہے۔۔۔ کچھ بھی تھوپا نہیں گیا۔۔۔ قارئین پراپنی مرضی یا سوچ مسلط نہیں کی گئی۔۔۔ مذہبی بحث ہو یا سائنسی کہیں پر بھی حد سے تجاوز نہیں کیا گیا۔۔۔ ناموں کا چناؤ بھی اہم رہا۔۔۔ بعض اوقات اس صنف میں لکھے جانے والے ناولز یا کہانیاں یک طرفہ جھکاؤ کی وجہ سے اپنی انفرادیت یا اہمیت کھو دیتے ہیں کیوں کہ یا تو مذہبی طور پر مصنف اپنی سوچ کو مسلط کردیتا ہے یا سائنسی تحقیق کے طور پر۔۔۔ یہاں یہ چیز دیکھنے میں نہیں آئی اور یہی وجہ ہے کہ اس پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں اٹھایا جا سکتا۔۔۔
باقی ہمارا ماننا ہے کہ اس سے قطع نظر کہ لکھنے والے نے کتنی محنت اور ریسرچ کر کے ناول لکھا ہر پڑھنے والا اس کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتا۔۔۔ لکھنے والوں کے بھی لیول ہوتے ہیں اور پڑھنے والوں کے بھی۔۔۔ ہم چونکہ سب سے کم علم اور ادنیٰ ترین قاریہ ہیں اس کے باوجود اگر یہ ناول ہمارے معیار سے کہیں بڑھ کر نکلا۔۔۔
تجویز:
وہ تمام لوگ جو پراسرار، پر تجسس اقر سائنسی معلومات ایک کہانی کی صورت میں ایسے حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ جیسے وہ خود اس کا حصہ ہیں تو فوراً سے پیشتر اس ناول کو کھول کر بیٹھ جائیے۔۔۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ آپ کو گھر والے باہر نکال دیں گے پر آپ اس کے اختتام سے پہلے اس سے باہرنہیں آپائیں گے۔۔۔
نازیہ کامران کاشف کے اس ناول نے یہ بات ثابت کر کہ دکھائی ہے کہ کوئی بھی کام کرنے کے لیے آپ کا تجربہ کار ہونا ضروری نہیں ہے--- آپ میں صلاحیت ہونا اور اسکا درست تعین ہونے کے ساتھ ساتھ مناسب ریسرچ اور شبانہ روز محنت کا جذبہ اور لگن ہونا ضروری ہے۔ آپ میں خداد صلاحیت موجود ہو تو اپنے قلم کو اچھے مقاصد کے لیے کس طرح استعمال کرنا ہے اسکی نازیہ سے بہتر کوئی مثال نہیں۔۔۔ہمیں تو یقین ہوچلا ہے کہ مصنفہ بذات خود ٹائم ٹریول کرنا جانتی ہیں اور پیرالل یونیورس کی سیر کرچکی ہیں۔۔۔
The book ‘Bermuda Triangle’ by Nazia Kamran Kashif is a captivating science fiction Urdu novel. The novel can be seen as a sequel to her previous novel ‘Makli’ as many characters from that novel are also present in this one. However, it can be enjoyed as a stand-alone novel. So, if you haven’t read Makli and want to read this novel first, feel free to read it.
The story starts with news of a ship disappearing in the infamous Bermuda Triangle, a region notorious for such incidents. Since the ship has many prominent figures from abroad, the American government decided to invite international research teams including experts from NASA Research Center to investigate the matter. Among the people who are invited are Evan Gerald, a renowned Australian scientist; Romina Parker from the NASA weather department; and Jessica, a Marine scientist accompanied by her colleague and best friend Simon. Apart from them, families of the people in the missing ship are also invited. One of them is Ahmed, a police officer from Pakistan and also one of the main characters from Kashif’s previous novel 'Makli.' Ahmed’s wife and son are also on the ship and he is determined to find them.
After some initial drama, it is decided that Evan will lead the mission of finding the missing ship. It is decided that Ahmed will be part of Evan’s team along with his friends from the novel ‘Makli’- Aharoon, Akil, Daniel, and Will – who volunteered to be a part of the mission. Apart from them, Jessica, Simon, Romina (Who share some history with Evan), and Jeff from the American Army also joined the team. However, there is a hidden traitor among them who threatens to sabotage the mission. To find out who this person is and what exactly the mystery of the Bermuda Triangle is, you need to read this book.
For me, this book was a good read. I found the elements of time traveling, the concept of a parallel universe, the city of Atlantist, and the twist Kashif gave to the mystery of Bermuda quite fascinating. I also like how she skillfully weaved Muhammad Al Idrisi’s (a renowned Muslim Geographer, traveler, and scholar from Spain during 1100s) account of visiting Bermuda or some island in her story. It was quite fascinating and shows Kashif has done a great deal of research before writing this novel.
The plot was no doubt very gripping and I was quite invested in the story, however, somewhere, I felt things were a little overdramatic. For example, the character of Aharoon, at times, was getting on my nerves. He seemed kind of immature and over-emotional in some instances. Also, the backstory of the mystery traitor has some loopholes that don’t align perfectly with how they were introduced in the story. I don’t want to give away too much as I don’t want to spoil the story for you.
For me, this book was an interesting read. It was a pleasant surprise to read about the characters from Makli again. I hope Kashif writes more about these characters in her coming novels because I love revisiting old characters. I have never read an Urdu book that belongs to the genre of Sci-fi, so, I would highly recommend it to you guys. it was a fun read for me, hence, I am giving it a four-star rating.
The novel revolves around the search team that went to Bermuda to search for the ship that disappeared there. It discusses time travelling, warm holes, visions, aliens, etc. It also has some action scenes, but they are not very thrilling. Also, characters are not as well described as they should be.
It's not as interesting as I thought it would be. But since we rarely find sci-fi novels in Urdu, so it's a good effort.
عجیب بغیر کسی منطق کے ۔ کہانی سرے سے کوئی ہے ہی نہیں بس زبردستی کھینچا تانی کر کے کتاب کے صفحات کالے کیے گئے ہیں۔ شروع میں مصنفہ فرماتی ہیں کہ تاریخی حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے حقیقت پر مبنی ناول تحریر کیا ہے جب کے صفحات میں کوئی حقیقت نظر نہیں آتی۔ سخت مایوس ہوا۔