بلونت سنگھ سے میرا تعارف ان کے ناول "رات چور اور چاند کے توسط سے ہوا۔ سادہ مگر سحر انگیز تحریر۔ کہانی ایسی کہ بس پڑھتے جائیں اور آخر تک کتاب نہ رکھ پائیں۔ اب ان کا دوسرا ناول " چک پیراں کا جسا" پڑھا۔ ناول کی روح کو سمجھنے کے لئے آپ کو ناول کا کردار بننا پڑتا ہے۔ جب آپ کہانی کا کردار بن جاتے ہیں تو کہانی زندگی بن کر آپ میں سانس لیتی ہے۔ایک بار آپ تحریر کے ماحول میں پہنچ جائیں تو بلونت سنگھ آپ کی انگلی پکڑ کر ہر منظر کی سیر کرواتا ہے۔ رہی بات کہانی کی تو کہانی ایسی دلچسپ کہ آخری صفحہ تک تجسس قائم رہے۔ محض ایک کہانی ہے جو اپنے اندر ان گنت گہرائیوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔بلونت سنگھ ایک ماہر پینٹر ہے۔ گاوں کے ماحول، چوپال کی بیٹھک ،شریک داری، دیہاتی رہن سہن کو وہ اپنے کینوس پر پینٹ کرتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ایک دن ہم نہیں ہونگے۔۔۔۔۔۔بلونت سنگھ ہوگا۔۔۔۔چک پیراں کا جسا زندہ رہے گا۔ (محمد حامد سراج )
یہ ناول جناب حامد سراج مرحوم کی خصوصی تاکید پر پڑھنے کا ارادہ باندھا تھا. یہ ناول ان ہی کی کاوش سے دوبارہ چھپا تھا. ان کا خیال تھا کہ اگر اس کو از سرنو نہ چھپوایا گیا تو نئی نسل ایک بہت بڑے ناول سے محروم ہوجائے گی. اس کی تین کاپیاں انھوں نے راقم بشمول دو ساتھیوں کے لیے منگوائی تھیں جب ہم ان کی قدم بوسی کے لیے ان کے دولت خانہ پر حاضر ہوئے۔ میرے ایک اور دوست اسد چشتی از پاکپتن بھی بلونت سنگھ کے بہت بڑے مداح ہیں. کسی حد تک ان کی پسندیدگی کہ وجہ اس ناول کے مطالعہ کے بعد سمجھ آتی ہے. بلونت سنگھ پنجاب کی سرزمین کے رومانس اور کلچر کو گہرائی سے کشید کرکے صفحہِ قرطاس پر بکھیرتے ہیں. پنجاب دھرتی کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ پنجابی زندگی میں موجود گھمبیرتا کا بیان بھی لازمی سمجھتے ہیں۔ یہ ناول ایک یتیم نوجوان جسّا سنگھ کی مظلوم زندگی کے گرد گھومتا ہے. جسّا یتیم ہوکر اپنے سگے چچا سردار بگا سنگھ کے در پر آتا ہے. وقت کے ساتھ ساتھ وہ جھڑکیاں، گالیاں اور تشدد سہنے کے بعد پنجابی دھاکڑ بنتا ہے کہ اس کا چچا بھی اس سے خوف کھانے لگتا ہے. اس ناول میں پنجابی زندگی کو بہت خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے. ناول کے کردار اپنی مونچھوں کو تاؤ دے کر، ان میں گھی لگا کر گھومتے ہیں. جو شخص اپنی طاقت ثابت کردے، اس کا احترام بھی کیا جاتا ہے. پنجابی زندگی کے باقی پہلوؤں کی طرح رشتہ داروں کی سازشیں بھی ساتھ ساتھ موجود رہتی ہیں۔ دوستی، محبت، سازشوں، بہادری اور دیہاتی دانائی کی کہانیوں سے بھرا یہ ناول آپ کو ایک لمحے کے لیے بھی اکتانے نہیں دے گا۔
یہ ناول نہیں تھا، یہ تو پنجاب کے گاؤں کی ایک خوبصورت زندگی کا جیتا جاگتا منظر تھا جسے میں اپنی آنکھوں سے بچپن میں دیکھتا رہا- بظاہر سکھوں کی طرز زندگی پر لکھا جانے والا یہ ناول، حقیقتاً پنجاب کی دیہی زندگی کا بھرپور عکاس ہے اور پڑھنے والا جہاں کہیں بھی بیٹھا ہو، دوران مطالعہ وہ خود کو اسی دلکش پانچ دریاؤں کی سرزمین پنجاب کے کسی پرانے گاؤں میں چلتا پھرتا محسوس کرتا ہے- پنجاب دھرتی کے دیہی ماحول کو ابھارنے میں رام لعل، غلام الثقلین اور ابو الفضل کی بھی جاندار کوششیں ہیں لیکن اگر لکھنے والا "بلونت سنگھ" اور لکھا جانے والا "چک پیراں کا جسا" ہو تو پھر یقیناً ادبی دنیا کا ایک گھبرو اور منفرد ناول وجود میں آتا ہے- ایک ایسا ناول جو قاری سے سانس لیتے زندہ انسان کی مانند گفتگو کرتا ہے اور بناوٹی انداز سے کہیں دور خالص زبان اور لہجے کی عکاسی بھی کرتا ہے- بارہ ابواب میں منقسم یہ ناول جس کے ہر باب کو" غلاف" کے نام سے اور وارث شاہ کے کلام سے شروع کیا گیا ہے، سکھوں کی ثقافت، رسم و رواج، دشمنی، رومانوی زندگی، محبت اور نفرت سمیت ان کے مزاج اور اکھڑپن کو نہایت خوبصورت انداز سے پیش کرتا ہے-
ناول بنیادی طور پر دو مرکزی کرداروں بگا سنگھ اور جسا سنگھ کے گرد گھومتا ہے - ان ہی دو کرداروں کے ارگرد پھر گوردیپ، رام پیاری، پورن سنگھ اور صورت سنگھ سمیت دیگر کردار بھی دکھائی دیتے ہیں- یتیم بھتیجا "جسا سنگھ" کم عمری میں جب پہلی مرتبہ اپنے چاچے بگا سنگھ کے سامنے لایا جاتا ہے تو بگا سنگھ اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا بلکہ اسے حقارت سے دیکھ کر اس کے سر کے جوڑے سے پکڑ کر ہوا میں لٹکاتا ہے اور کہتا ہے، "پلا چاہے کتے کا ہو، یا آدمی کا، اس کی قوت برداشت کی جانچ کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے- کتے کے پلے کو ایک کان سے پکڑ کر ہوا میں اٹھا دو- اگر پلا درد کے مارے ٹیاؤں ٹیاؤں کرنے لگے تو سمجھ لو کہ وہ کتا پالنے کے لائق نہیں ہے- ایسا کتا گھر کی رکھوالی بھی نہیں کر سکتا- اگر پلا ایسی درد کو چپ چاپ برداشت کر لے تو سمجھ لو کہ وہ بڑا ہو کر سارے گاؤں کے کتوں کو کھڈیرا کرے گا اور جس گھر میں ہو گا اس میں چور پاؤں نہیں رکھ سکیں گے-" یہ کہہ کر وہ ہوا میں ہی جسا سنگھ کا جوڑا چھوڑ دیتا ہے تو جسا ناریل کے پیڑ پر لگے ناریل کی طرح زمین پر آن گرتا ہے مگر پل بھر میں پھر اٹھ کر کھونٹے کی طرح سیدھا ہو جاتا ہے- یہی پہلی نفرت عرصہ دراز تک ان کے دلوں میں موجود رہتی ہے اور بہت دیر بعد وقت یہ برف پگھلا کر دونوں کے دلوں میں کچھ نرم جذبات پیدا کر پاتا ہے- بگا سنگھ اپنے اکھڑ اور ضدی مزاج کی بنا پر پورے گاؤں میں مشہور تو ہوتا ہی ہے لیکن ایک نئی آنے والی انجان عورت رام پیاری سے اس کے تعلقات اسے گاؤں میں بدنام بھی کر دیتے ہیں- جبکہ جسا سنگھ اپنے چاچے کے برعکس اپنی محبت کو احتیاط اور عقل مندی سے خود تک منسلک رکھتا ہے اور دل و جان سے اس سے شادی کرنے کا خواہاں ہوتا ہے- ان دونوں کے درمیان ان کے شریک چنن سنگھ اور اس کے بیٹے ان سے مسلسل دشمنی رکھتے ہیں اور ان کی مکاری سے ہی بگا سنگھ پہلے جیل کاٹتا ہے اور پھر گاؤں چھوڑ کر چلا جاتا ہے- جبکہ جسا سنگھ ایک مضبوط، بہادر اور اکھڑ مزاج لے کر جوان ہوتا ہے اور اپنے چاچا بگا سنگھ کی زمینوں کو سنبھالتا بھی ہے اور وہیں موجود اپنی حسین معشوقہ سے ملاقاتیں بھی جاری رکھتا ہے- اور آخر میں اپنا رعب اور دبدبہ پورے گاؤں میں باعزت طریقےسے برقرار رکھ کر اپنے تمام دشمنوں کو جھاگ کی طرح بیٹھ جانے پر مجبور کر دیتا ہے-
چک پیراں کا جسا، ایک منفرد اور خوبصورت کہانی ہے جو گاؤں کی منظر نگاری کے بل بوتے پر ناول کو چار چاند لگا دیتی ہے- ناول کا پہلا غلاف یعنی پہلا باب وارث شاہ کے اس شعر سے شروع ہوتا ہے، "جیہڑا آس کر کے ڈگے آن دوارے، جیو اوسدے کدے نہ توڑئیے جی وارث شاہ! یتیم دی غور کرئیے، ہتھ عاجزی دے نال جوڑیے جی- یعنی " اگر کوئی آس کر کے دروازے پر آ گرے تو اس کا من کبھی نہیں توڑنا چاہیے، اے وارث شاہ یتیم کی دیکھ بھال کرنی چاہیے اور اس کے سامنے عاجزی سے ہاتھ جوڑنے چاہیئں" اسی طرح دیباچے کا آغاز بھی وارث شاہ کے ایک خوبصورت شعر سے ہوتا ہے، " صورت یوسف دی ویکھ طیموس بیٹی، انے مال تے ملک قربان ہوئی نین مست کلیجڑے وچ دھانے جیویں ترکھڑی نوک سناں دی" طیموس بادشاہ کی بیٹی یوسف(علیہ السلام) جیسی شکل والے نوجوان کو دیکھ کر اپنے جاہ و چشم اور مال و دولت کے ساتھ اس پر نچھاور ہوگئی، اسے لگا، جیسے نوجوان کے مست نین اس کے کلیجے میں برچھی کی تیز نوک کی طرح دھنس گئے- گاؤں کی منظر نگاری ناول میں مختلف مقامات پر دلچسپ انداز میں کی گئی ہے جیسا کہ، "گاؤں میں کوئی خصوصیت نہیں تھی- وہی کچی اینٹوں کے بنے ہوئے ابڑ کھبڑ چھتوں والے ناہموار مکان، باہر گندے پانی کا جوہر، جس میں اس وقت کچھ بھینسیں گھسی ہوئی تھیں- ادھر ادھر اروڑیاں، گندگی کے دھیڑ دکھائی دے رہے تھے- بیکار سے کتے کوڑا سونگتے پھر رہے تھے اور مرغیاں خوراک کی تلاش میں جگہ جگہ اروڑیوں کو کھود رہی تھیں-" اسی طرح ایک اور مقام پر ناول نگار بیان کرتے ہیں، " جسو نے ایک نظر نئے مکان پر ڈالی- کافی وشال صحن تھا- مکان کی دیواریں گوبر مٹی اور بھوسے کے گارے سے لپی ہوئی تھیں اور خوب اجلی دکھائی دیتی تھیں- داہنے ہاتھ کو تیں سیڑھیاں چڑھ کر باہر والا پسار یعنی برآمدہ تھا، اور دروازوں میں سے بھیتر کا پسار بھی دکھائی دے رہا تھا- شیشم کی لکڑی کے بنے ہوئے خوب اونچے اور چوڑے دروازوں کے تختوں پر پیتل کی پھولدار ٹکیاں لوہے کے کیلوں سے جڑی ہوئی تھیں- پسار کا صرف باہر والا حاشیہ پکی اینٹوں کا بنا ہوا تھا- صحن کے کونے میں بالشت بھر اونچے چبوترے پر بغیر چھت کارسوئی گھر تھا، جہاں اس وقت دو چولہے جل رہے تھے- رسوئی کے ایک کونے میں دھرتی کو کھود کر انگیٹھی بنائی گئی تطی- زمین کے نیچے بنی انگیٹھی میں اپلے جلائے جاتے تھے اور اس میں ہر وقت دودھ سے بھری مٹی کی چاٹی رکھی رہتی تھی- انگیٹھی کا منہ مٹی کے بنے بڑے سے گول ڈھکن سے ڈھکا رہتا تھا- اپلوں کی دھیمی دھیمی آنچ سے دودھ پک پک کر گہرے بھورے رنگ کا ہو جاتا تھا اور اس کے اوپر ملائی کی موٹی سی تہہ جم جاتی تھی-"
منظر نگاری اور کہانی کے لحاظ سے ناول ایک منفرد کشش کا حامل ہے جس میں بلونت سنگھ نے کسی قسم کی کمی نہیں چھوڑی- ناول میں ایک جگہ لکھتے ہیں،" گاؤں سے کافی دور پر ایک کنواں تھا- کسی زمانے میں وہاں رہٹ چلا کرتا تھا- دو بیل بھاری بھرکم چرکھڑے کو گھمایا کرتے تھے اور پانی ٹنڈوں میں سے چھلا چھل گر کر پاڑچھے کے ذریعے بہتا چلا جاتا تھا- وہاں تھوڑی بہت گہما گہمی بھی رہتی تھی- گاؤں سے زیادہ دوری پر ہونے کی وجہ سے عورتیں کپڑے دھونے کے لیے وہاں تک نہیں آتی تھیں لیکن کچھ منچلی پہنچ بھی جاتی تھیں- وجہ یہ کہ وہاں ان کو بالکل تنہائی ملتی رھی- کنویں سے نکلا ہوا پانی آس پاس کے کھیتوں کی سینچائی کرتا تھا- رہٹ پر بیلوں کو ہانکنے کے لیے صرف ایک ادھ لڑکا موجود ہوتا تھا- مرد کھیتوں میں ہوتے تھے- عورتیں لڑکے کو بھگا دیتیں اور کسی لڑکی کو بیل ہانکنے پر لگا دیتیں- تب سارے رہٹ پر انہیں کا راج ہو جاتا - وہ بغیر کسی ڈر کے رہٹ کے پانی میں نہاتیں، کپڑے دھوتیں اور ادھ ننگی ادھر ادھر گھوم پھر کر کپڑے پھیلایا کرتی تھیں-"
اردو ادب کے کلاسیک میں شمار کیا جانے والا یہ ناول" چک پیراں کا جسا" کسی پہاڑی چشمے کی مانند حرف اول سے آخر تک اپنی روانی اور بہاؤ برقرار رکھتا ہے- جملوں اور مکالموں کے ساتھ ساتھ مناظر کا لطف بھی لیے ہوئے، یہ ناول ایک ہی نشست میں ختم کیے بنا چھوڑ دینا ممکن ہی نہیں ہے- اسی لیے معراج خالد نے سچ لکھا تھا کہ اگر آپ یہ شاہکارخرید کر پڑھیں تو یقیناً رقم اور مطالعہ دونوں بیکار نہیں جائیں گے-
"شہر کی لڑکی" جب پنجاب کے گاؤں آتی ہے تو زندگی کی جھیل میں جو لہریں پیدا ہوتی ہیں، یہی بیان اس ناول میں ہے۔ اور "شہر کی لڑکی" سے پیدا ہونے والا ڈرامہ قابل مطالعہ ہے۔ ہر باب کا آغاز وارث شاہ کی شاعری کے اقتباس سے ہوتا ہے۔ بک کارنر، جہلم نے اسے بہترین انداز سے شائع کیا ہے۔ اسکی قیمت نو سو روپے ہے۔
از Faisal Majeed
This entire review has been hidden because of spoilers.
وارث شاہ اس عشق دے ونج وچوں کسے پلے نہیں بدھڑی دمڑی ہے In these transactions of love o Waris Shah No one has ever gained the meanest gain
رانجھا آکھدا ایہہ جہان سُفنا۔۔۔ Ranjha says this world is but a dream
Ever so poignantly every chapter of this novel starts with a couplet from Waris Shah - the transience of this world; the overwhelming impact of infatuation; empathy for the needy; the playfulness of the young and the carefree; the obsessiveness of romantic love; the ultimate profitlessness of romantic love; the plight of the neglectful; the failure of those who aspire to things out of their league; the tribulations of love and the pain of being apart from the beloved; the intrigues of women; the hauteur of pampered fools; the regret that comes with making tall claims; and the granting of honor or infamy vesting with the Divine - and Balwant Singh tightly weaves his story linking them to the sublime verse from Heer Waris Shah. It contrasts ever so beautifully with Balwant Singh's otherwise straightforward prose, which nevertheless has lovely descriptive passages of the Punjab countryside and essentially tells stories of passions; whether passionate rivalry or passionate love.
Ultimately Chak Peeran Ka Jassa is a novel driven by incredibly strong characters whom Balwant Singh draws in such great detail and texture. The protagonist is the orphan boy Jassa Singh of course who is reluctantly taken under his care by his uncle Bagga Singh. Jassa is stoic, enigmatic and taciturn, capable of roughing it out, taking daily beatings, and self-preserving, without as much as a change of expression. His is a fascinating character and it is engrossing to see him grow and develop from a grubby, often maltreated loner into a brooding, very strong and somewhat surly young man who is nevertheless capable of tender emotions and harbors a deep affection for his childhood playmate Deepi. Bagga Singh on the other hand is a dull, rough hewn, bully of a man who falls for an enigmatic siren called Ram Pyari who comes to live in the village. The thing about Balwant Singh's storytelling is that he completely engrosses the reader and the story flows marvelously. The Punjabi village economy, Sikh culture, aspects of everyday early twentieth century rural life under distant colonial rule, the festivals, the topography and the seasons, and above all local norms and rivalries (especially with shareekas or male paternal cousins) is captured minutely. his dialogue is crisp, spontaneous and often quite witty, with Punjabi expressions, adages, and at times expletives making it sound very natural. The other characters in the novel are no less memorable - Bagga Singh's arch nemesis the wily Channan Singh and his thuggish sons; Bagga's long-suffering and doting elder sister Bhajnu; the bhang consuming, slovenly, mischievous and ever so lively elder Jageer Singh; the no-gooder Tasveer Singh; the noble and cunning village tough turned householder Sher Singh; the elegant and chivalrous policeman Pooran Singh; the vivacious Parasni, and the charming Deepi, amongst others, enliven the story and add much to its heft, entertainment and believability.
In a culture that extols physical strength and courage, village dynamics are very much determined by the balance of power between different strongmen and their groups of loyalists. However, as it emerges what is even more important are intrigue, tactics and the ability to outsmart one's opponents. Bagga Singh learns this the hard way and at great personal cost but Jassa hides a shrewder persona beneath his impassive and even dull exterior. The novel moves at a steady pace as the combatants harbor grievances, seek strategic alliances and public support, and try and outmaneuver each other. In a slow-paced period at a slow-paced place it is remarkable how Balwant Singh builds the tension and sense of anticipation and explores aspects of human social existence, group and clan behavior, and power dynamics that are universal. The climax when it comes through the provocations of Channan Singh's bulky and roguish nephew Thunna, is brutal and devastating in terms of the resulting outcome and the future power politics in the area.
A highly entertaining read this is a wonderful novel that chronicles a way of life without either romanticizing it too much or being didactic. One could argue that towards the end one too many coincidences and neat and pleasant tidying up of things take place. Nevertheless, this is highly compelling storytelling. The dialogue and character-building is rich and impactful and in Jassa we have a unique and strangely likable character in Urdu literature. The novel has been very nicely reprinted by Book Corner.
چک پیراں کا جسا پنجاب اور پنجاب کی روایتی رہتل کا بہترین ترجمان ناول ہے۔ کرداروں کی بنت سے لے کر سماجی ساخت کے ہر پہلو میں پنجاب نظر آتا ہے۔ یہ ناول پنجابی شناخت کو اس انداز میں پیش کرتا ہے کہ پڑھنے والا خؤد کو کہانی کے کرداروں میں جیتا جاگتا محسوس کرتا ہے۔ کہانی کے بیان پر غور کریں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ مصنف کے انداز و بیان سے منظر فلم کی طرح آںکھوں کے سامنے گھومتا ہے۔ جسے کا اپنے چاچے بگا سنگھ کی بات میں 'اچھا چاچا' کہنا بھی مختلف صورتحال میں بھی مختلف معانی دیتا ہے، ناول کی کہانی بڑی سیدھی سیدھی ہے لیکن بڑے خوبصورت انداز میں بہت سی پس پردہ حقیقتوں کو آشکار کرتی ہے۔
This entire review has been hidden because of spoilers.
یہ ناول ایک مخصوص عہد اور نسل کا نمائندہ ہے۔ آپ اگر کسی گاؤں سے وابستہ نہیں ہیں تو یہ ویسے ہی آپکو بور کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا۔ ہمارے ہاں اچھے نئے لکھنے والوں کی شدید کمی ہے۔ قحط الرجال کا عالم ہے، ایسے میں ناشرین اس قسم کی رائلٹی فری کتب شائع کرتے ہیں۔ بک گئی تو کیا کہنا اور ناپسند کی گئی تو کم از کم لکھنے والے کو معاوضہ تو نہیں دینا پڑے گا۔