हिंदी : कृश्न चन्दर Urdu Profile:کرشن چندر Krishan Chander was an Urdu and Hindi writer of short stories and novels. He also worked on English.
He was a prolific writer, penning over 20 novels, 30 collections of short stories and scores of radio plays in Urdu, and later, after partition of the country, took to writing in Hindi as well.
He also wrote screen-plays for Bollywood movies to supplement his meagre income as an author of satirical stories. Krishan Chander's novels (including the classic : Ek Gadhe Ki Sarguzasht, trans. Autobiography of a Donkey) have been translated into over 16 Indian languages and some foreign languages, including English.
His short story "Annadata" (trans: The Giver of Grain – an obsequious appellation used by Indian peasants for their feudal land-owners), was made into the film Dharti Ke Lal (1946) by Khwaja Ahmad Abbas – which led to his being offered work regularly as a screenwriter by Bollywood, including such populist hits as Mamta (1966) and Sharafat (1970). He wrote his film scripts in Urdu
کرشن چندر ایک مایہ ناز ادیب ہیں۔ اردو فکشن خاص طور پر افسانہ نگاری میں ان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ میرا ان سے پہلا تعارف ان کے ناول "ایک عورت ہزار دیوانے" کے ذریعے ہوا تھا اور ان کا انداز بیاں مجھے اپنا گرویدہ کر گیا۔ جب ان کو مزید پڑھنے کی چاہ بڑھی تو یہ کتاب ہاتھ لگی جو کہ ان کے بہترین افسانوں کا انتخاب ہے جنہیں طارق محمود صاحب نے مرتب کیا ہے۔
زیر تبصرہ کتاب ان کے 18 افسانوں، ایک انٹرویو، آپ بیتی کے کچھ حصّے اور چند خاکوں پر مشتمل ہیں جو کہ ان کے عزیز دوستوں، بھائی مہندر اور بیوی سلمی نے کرشن چندر کے متعلق لکھے ہیں۔ ان خاکوں کے ذریعے ہمیں کرشن چندر کی حقیقی زندگی میں جھانکنے کا موقع ملتا ہے۔ وہ ایک بہترین ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک حساس دل رکھنے والے ایک بہترین انسان بھی تھے جن کی ذات مختلف خوبیوں کا مرقع تھی۔ اس کتاب میں شامل افسانوں میں "درد گردہ، کچرا بابا، چندرو کی دنیا اور مہا لکشمی کا پل میرے پسندیدہ رہے ہیں۔ ان افسانوں میں کرشن چندر کا فن اپنی معراج پر نظر آتا ہے۔ انسانی نفسیات اور احساسات کی اس قدر خوبصورت اور جاندار منظرکشی کی ہے کہ قاری ان کرداروں کے دکھ اور بےبسی کو دلی طور پر محسوس کرتا ہے۔
کرشن چندر کے افسانے رومان اور حقیقت کا حسین امتزاج ہیں۔ شروع کے چند افسانوں میں رومانوی عنصر زیادہ غالب ہے مگر ترقی پسند مصنفین کے صف میں شامل ہونے کے بعد ان کے افسانوں پر حقیقت کی چھاپ گہری ہوتی گئی۔ ان کے افسانوں کے موضوعات عام آدمی کی زندگی اور ان کے مسائل کے گرد گھومتے ہیں۔ معاشرتی موضوعات پر لکھی جانے والی کہانیاں کم و بیش ایک سی ہوتی ہیں مگر یہ مصنف کا انداز بیاں ہوتا ہے جو انہیں مختلف بناتا ہے اور کرشن چندر میں بلا شبہ یہ خوبی بطور احسن پائی جاتی ہے۔
ان کا انداز بیاں ایسا اچھوتا اور دلفریب ہے کہ قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے الفاظ کا چناؤ نہایت خوب اور جملوں میں اس قدر روانی اور بے ساختگی ہے کہ پڑھنے والا کہانی کے بہاؤ کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے۔ ان کی نثر کا الگ ہی آہنگ ہے۔ انہوں نے آسان جملوں میں زندگی کی وہ گہرائیاں بیان کی ہیں کہ پڑھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔ علی سردار جعفری کہتے ہیں کہ "مجھے ان کی نثر پر رشک اتا ہے۔ وہ بے ایمان شاعر ہے جو افسانہ نگار کا روپ دھار کے آتا ہے اور اپنے ایک ایک جملے اور فقرے پر غزل کے اشعار کی طرح داد لیتا ہے۔"
منظر کشی میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتے چاہے وہ انسانی احساسات و جذبات کا احوال ہو یا فطرت کے مناظر کی عکاسی ہو وہ اپنے الفاظ سے ایسی دلکش تصاویر کھینچتے ہیں کہ پڑھنے والا مبہوت رہ جاتا ہے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ زندگی کی سب سے بڑی شخصیت جس نے مجھے متاثر کیا وہ فطرت ہے اور اسی فطرت کی عکاسی وہ اس قدر خوبصورت پیرائے میں کرتے ہیں کہ پڑھنے والوں کو متاثر کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں کے مقبولیت اور فن کی عظمت کا راز ان کی نظریات کے عالمگیر وسعت اور احساس کی بے پناہ شدت میں مضمر ہے۔ وہ کسی ایک قوم، فرقے یا نسل کے ادیب نہیں بلکہ ساری انسانیت کے ادیب ہیں۔