Mumtaz Mufti
Born
in Batala, Gurdaspur District, British India
September 11, 1905
Died
October 27, 1995
Website
Genre
|
Alipur ka Ailee / علی پور کا ایلی
—
published
1961
—
6 editions
|
|
|
Labbaik / لبیک
—
published
1975
—
21 editions
|
|
|
Talash /تلاش
|
|
|
Alakh Nagri / الکھ نگری
—
published
1992
—
6 editions
|
|
|
Samay Ka Bandhan / سمے کا بندھن
—
published
1986
—
7 editions
|
|
|
Un Kahi / ان کہی
—
published
1944
—
2 editions
|
|
|
Hind Yatra / ہند یاترا
—
published
1982
—
4 editions
|
|
|
Aur Aukhay Log / اوراوکھے لوگ
—
published
1991
—
4 editions
|
|
|
Roghani Putlay / روغنی پتلے
—
published
1984
—
5 editions
|
|
|
Pyaz Ke Chilkay / پیاز کے چھلکے
—
published
1968
—
5 editions
|
|
“اندر سے ایک آواز اٹھتی ۔ بول تیرا جیون کس کام آیا ؟ وہ سوچ ہار جاتی، پر اس کا جواب ذہن میں نہ آتا۔ الجھے الجھے خیال الجھاتے۔ مجھے چمن سے اکھیڑا ۔ بیل بنا کر اک درخت کے گرد گھمایا اور اب اس درخت کو اکھیڑ پھینکا ۔ بیل مٹی میں مل گئی ۔ اب یہ کس کے گرد گھومے ؟ بول میراجیون کس کام آیا۔”
― Samay Ka Bandhan / سمے کا بندھن
― Samay Ka Bandhan / سمے کا بندھن
“اماں " میں نے خاموشی توڑی "محبت کیا ہوتی ہے ؟
کچھ دیر کے لئے وہ خاموش رہی ، پھر بولی" بیٹے ، محبت دوڑ بھاگ نہیں ہوتی ۔ طوفان نہیں ہوتی ، سکون ہوتی ہے۔ دریا نہیں ہوتی ہے جھیل ہوتی ہے ۔ دوپہر نہیں ہوتی ، بھورسمے ہوتی ہے ۔ آگ نہیں ہوتی ، اجالا ہوتی ہے ۔ اب میں تجھے کیا بتاؤں کیا ہوتی ہے ۔ وہ بتانے کی چیز نہیں ، بیتنے کی چیز ہے ۔ سمجھنے کی چیز نہیں جاننے کی چیز ہے ۔ "
اماں کی بات میرا راستہ روک لیتی ہے ۔ میں رُک جاتا ہوں ۔ لیکن تڑپ بھری نگاہوں سے اُسے دیکھتا رہتا ہوں ۔ اس امید پر کہ شاید وہ مڑ کر دیکھے پھر مسکرائے ۔ پھر پھلجھڑی چل جائے ۔ پھر کن کہہ دیا جائے ۔ لیکن وہ چلے جاتی ہے ۔یوں چلے جاتی ہے جیسے کسی نے اس کا راستہ کاٹا ہی نہ ہو ۔ جیسے کسی کو پیچھے چھوڑ کر نہ جا رہی ہو ۔ سچی بات یہ ہے کہ اگرچہ میرے پاؤں رک گئے ہیں لیکن میں نہیں رکا ہوں ۔میں اس کے پیچھے پیچھے چلےجا رہا ہوں ۔ چلے جا رہا ہوں ۔ دِن گزر جاتے ہیں ۔ ہفتے گزر جاتے ہیں ۔ لیکن میں چل رہا ہوں ۔ چلے جا رہا ہوں ۔ اس کے پیچھے پیچھے چلےجا رہا ہوں ۔”
― Samay Ka Bandhan / سمے کا بندھن
کچھ دیر کے لئے وہ خاموش رہی ، پھر بولی" بیٹے ، محبت دوڑ بھاگ نہیں ہوتی ۔ طوفان نہیں ہوتی ، سکون ہوتی ہے۔ دریا نہیں ہوتی ہے جھیل ہوتی ہے ۔ دوپہر نہیں ہوتی ، بھورسمے ہوتی ہے ۔ آگ نہیں ہوتی ، اجالا ہوتی ہے ۔ اب میں تجھے کیا بتاؤں کیا ہوتی ہے ۔ وہ بتانے کی چیز نہیں ، بیتنے کی چیز ہے ۔ سمجھنے کی چیز نہیں جاننے کی چیز ہے ۔ "
اماں کی بات میرا راستہ روک لیتی ہے ۔ میں رُک جاتا ہوں ۔ لیکن تڑپ بھری نگاہوں سے اُسے دیکھتا رہتا ہوں ۔ اس امید پر کہ شاید وہ مڑ کر دیکھے پھر مسکرائے ۔ پھر پھلجھڑی چل جائے ۔ پھر کن کہہ دیا جائے ۔ لیکن وہ چلے جاتی ہے ۔یوں چلے جاتی ہے جیسے کسی نے اس کا راستہ کاٹا ہی نہ ہو ۔ جیسے کسی کو پیچھے چھوڑ کر نہ جا رہی ہو ۔ سچی بات یہ ہے کہ اگرچہ میرے پاؤں رک گئے ہیں لیکن میں نہیں رکا ہوں ۔میں اس کے پیچھے پیچھے چلےجا رہا ہوں ۔ چلے جا رہا ہوں ۔ دِن گزر جاتے ہیں ۔ ہفتے گزر جاتے ہیں ۔ لیکن میں چل رہا ہوں ۔ چلے جا رہا ہوں ۔ اس کے پیچھے پیچھے چلےجا رہا ہوں ۔”
― Samay Ka Bandhan / سمے کا بندھن



























