Pakistani Readers discussion

29 views
(Urdu Literature) اردو ادب > اردو کا زاوال

Comments Showing 1-8 of 8 (8 new)    post a comment »
dateUp arrow    newest »

message 1: by Aakash (new)

Aakash (mistyanon) | 5393 comments Mod
(((( آئیں اپنی اردو سدهارتے هیں))))

ایک بار ضرور پڑهیں......

*اُردُو زُبان کا زوال، مُجرم کون؟*

گو کہ ہماری پیدائش سے کہیں پہلے مدرسہ کو سکول بنا دیا گیا تھا، لیکن انگریزی زبان کی اصطلاحات دورانِ تعلیم استعمال نہیں ہوتی تھیں۔

بہت وقت پہلے تین چار الفاظ انگریزی زبان کے رائج تھے،
ہیڈ ماسٹر،
فِیس،
فیل،
پاس اور جمعرات کو لاسٹ ورکنگ ڈے (کیونکہ اُن دِنوں اتوار کی بجائے جمعہ کے دن سرکاری چھٹی ہوتی تھی)
کہا جاتا تھا اس دن آدھی چھٹی یعنی ہاف ڈے ہوتا تھا۔

انگلش میڈیم سکول میں پیپر اور سرکاری سکول میں پرچہ کہا جاتا تھا

پھر استاد جی کی بجائے سر جی آیا۔
یوں استاد جی سے سر جی کہلانے لگے
سارے استاد ٹیچر بن گئے۔
پھر عام بول چال میں غیر محسوس طریقے سے اردو کا جو زوال شروع ہوا وہ اب تک جاری ہے۔

اب تو یاد بھی نہیں کہ کب جماعت،
کلاس میں تبدیل ہوگئ۔ اور جو ہم جماعت تھے وہ کب کلاس فیلو بن گئے۔

اول، دوم، سوم، چہارم، پنجم، ششم، ہفتم، ہشتم، نہم، دہم، جماعتیں ہوتی تھیں اور کمروں کے باہر لگی تختیوں پر اسی طرح لکھا ہوتا تھا۔
پھر کمروں سے کلاس روم بن گئے
اور فرسٹ سے ٹینتھ کلاس کی نیم پلیٹس لگ گئیں۔

تفریح کی جگہ ریسیس اور بریک کے الفاظ استعمال ہونے لگے۔

گرمیوں کی چھٹیاں اور سردیوں کی چھٹیاں (المعروف وڈے دناں دی چھٹیاں) کی جگہ سمر ووکیشن اور وِنٹر ووکیشن آگئیں۔

چھٹیوں کا کام چھٹیوں کا کام نہ رہا بلکہ ہوم ورک ہو گیا ۔

*ہم نے یوم آزادی کی بجائے انڈیپنڈنس ڈے منانا شروع کردیا۔*

پہلے پرچے شروع ہونے کی تاریخ آتی تھی اب پیپرز کی ڈیٹ شیٹ آنے لگی۔

ششماہی اور سالانہ امتحانات کی جگہ مڈٹرم اور فائینل ایگزامز کی اصطلاح آگئ۔

امتحانات کی جگہ ایگزامز ہونے لگے،
اب طلباء امتحان دینے کیلیے امتحانی مرکز نہیں جاتے بلکہ سٹوڈنٹس ایگزام کیلیے ایگزامینیشن ہال جاتے ہیں۔

قلم،
دوات،
سیاہی،
تختی،
گاچی،
سلیٹ اور
سلیٹی جیسی اشیاء گویا میوزیم میں رکھ دی گئیں ان کی جگہ لَیڈ پنسل اور بال پین آگئیں۔

کاپیاں گئیں نوٹ بکس آگئیں۔

نصاب کو کورس کہا جانے لگا
اور اس کورس کی ساری کتابیں بکس بن گئیں یوں بکس کے نام بھی تبدیل ہوگئے۔

ریاضی کو میتھ کہا جانے لگا۔
اسلامیات اسلامک سٹڈی بن گئ۔
انگریزی کی کتاب انگلش بک بن گئ۔
اسی طرح طبیعات فزکس،
معاشیات اکنامکس
اور مطالعہ پاکستان، پاکستان سٹڈیز لکھی اور پڑھی جانے لگیں۔

پہلے طلبہ پڑھائی کرتے تھے پھر سٹوڈنٹس سٹڈی کرنے لگے۔

پہاڑے یاد کرنے والوں کی اولادیں ٹیبل یاد کرنے لگیں۔

اساتذہ کیلیے میز اور کرسیاں لگانے والے ٹیچرز کے لیے ٹیبل اور چئیرز لگانے لگے۔

داخلوں کی بجائے ایڈمشنز ہونے لگے۔

اول دوم سوم آنے والے طلبہ فرسٹ سیکنڈ تھرڈ آنے والے سٹوڈنٹ بن گئے۔

پہلے انعام ملا کرتے تھے پھر پرائز ملنے لگے۔

بچے تالیاں پیٹنے کی جگہ چیئرز کرنے لگے۔

یہ سب کچھ سرکاری سکولوں میں ہوا ہے۔

باقی رہے پرائیویٹ سکول،
ان کا تو پوچھیے ہی مت۔
ان کاروباری مراکز کیلیے کچھ عرصہ پہلے ایک شعر کہا تھا۔

مکتب نہیں دکان ہے یہ خام مال کی
مقصد جہاں پہ علم نہیں روزگار ہے

*اور تعلیمی اداروں کا رونا ہی کیوں رویا جائے ہمارے گھروں میں بھی اردو کو یتیم اولاد کی طرح ایک کونے میں ڈال دیا گیا ہے۔*

زنان خانہ اور مردان خانہ تو کب کے ختم ہو گئے۔
خواب گاہ کی البتہ موجودگی لازمی ہے تو اسے ہم نے بیڈ روم کا نام دے دیا۔
باورچی خانہ کچن بن گیا
اور اس میں پڑے برتن کراکری۔
غسل خانہ پہلے باتھ روم ہوا پھر ترقی کر کے واش روم بن گیا۔
مہمان خانہ یا بیٹھک کو اب ڈرائنگ روم کہتے ہوئے فخر محسوس کیا جاتا ہے۔

پہلی منزل کو گراونڈ فلور کا نام دے دیا گیا اور دوسری منزل کو فرسٹ فلور۔
دروازہ ڈور کہلایا جانے لگا اور پہلے گھنٹی بجتی تھی اب بیل بجنے لگی۔
کمرے روم بن گئے۔
کپڑے الماری کی بجائے کیبنٹ میں رکھے جانے لگے۔

*ابو جی* جیسا پیار اور ادب سے بھرپور تخاطب دقیانوسی لگنے لگا اور ہر طرف پاپا، پاپا کی گردان لگ گئ حالانکہ پہلے تو پاپے کو کھایا کرتے تھے۔
اسی طرح شہد کی طرح میٹھا لفظ *امی جی،* ممی میں تبدیل ہو گیا۔

سب سے زیادہ نقصان رشتوں کی پہچان کا ہوا۔ چچا چچی،
تایا تائ،
ماموں ممانی،
پھوپھا پھوپھو،
خالو خالہ علی ہذالاقیاس سب کے سب ایک غیر ادبی اور بے احترام سے لفظ انکل اور آنٹی میں تبدیل ہوگئے۔
بچوں کے لیے ریڑھی والے سے لے کر سگے رشتہ دار تک سب انکل بن گئے
یعنی محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔
ساری عورتیں آنٹیاں۔ چچا زاد،
ماموں زاد،
خالہ زاد بہنیں و بھائ سب کے سب کزن میں تبدیل ہوگئے
نہ رشتے کی پہچان رہی اور نہ ہی جنس کی۔
بس ایک کام کرنے والی پہلے بھی ماسی تھی اب بھی ماسی ہے۔

گھر اور سکول میں اتنی زیادہ تبدیلیوں کے بعد بازار انگریزی کی زد سے کیسے محفوظ رہتا۔ دکانیں شاپس میں تبدیل ہو گئیں اور ان پر گاہکوں کی بجائے کسٹمرز آنے لگے
آخر کیوں نہ ہوتا کہ دکان دار بھی تو سیلز مین بن گئے جس کی وجہ سے لوگوں نے خریداری چھوڑ دی اور شاپنگ کرنے لگے۔
سڑکیں روڈ بن گئیں۔ کپڑے کا بازار کلاتھ مارکیٹ بن گئ
یعنی 'اس نے کس ڈھب سے مذکر کو مونث باندھا'۔
کریانے کی دکان نے جنرل سٹور کا روپ دھار لیا اور نائ نے باربر بن کر حمام بند کردیا اور ہیئر کٹنگ سیلون کھول لیا۔

ایسے ماحول میں دفاتر بھلا کہاں بچتے۔
پہلے ہمارا دفتر ہوتا تھا جہاں مہینے کے مہینے تنخواہ ملا کرتی تھی اب آفس بن گیا اور منتھ ٹو منتھ سیلری ملنے لگی۔ جو صاحب تھے وہ باس بن گئے۔
بابو کلرک اور چپڑاسی پِیَن۔
پہلے دفتر کے نظام الاوقات لکھے ہوتے تھے اب آفس ٹائمنگ کا بورڈ لگ گیا۔

آوے کا آوا کچھ یوں بگڑا کہ ہمارے صدر پاکستان کو پریزیڈنٹ آف پاکستان کہا جانے لگا۔
پہلے وزیر اعظم کرسی سے اتارے جاتے تھے اب پرائم منسٹر کو کرسی سے اتارا جانے لگا۔
وزیر اعلی چیف منسٹر بن گئے۔
وفاقی حکومت کو فیڈرل گورنمنٹ کہا جانے لگا
اور صوبائی کو پراونشل۔

سود جیسے قبیح فعل کو انٹرسٹ کہا جانے لگا۔ طوائفیں آرٹسٹ بن گئیں
اور محبت کو 'لَوّ' کا نام دے کر محبت کی ساری چاشنی اور تقدس ہی چھین لیا گیا۔
محبوب بوائے فرینڈ اور محبوبہ گرل فرینڈ بن گئ۔
صحافی رپورٹر بن گئے اور خبروں کی جگہ ہم نیوز سننے لگے۔

کس کس کا اور کہاں کہاں کا رونا رویا جائے۔

*اردو زبان کے زوال میں حکومت سے لے کر ایک عام آدمی تک نے اپنا بھرپور حصہ ڈالا ہے*

اور دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ ہم نے اپنی خوبصورت زبان اردو کا حلیہ مغرب سے مرعوب ہو کر کیسے بگاڑ لیا۔
وہ الفاظ جو اردو زبان میں پہلے سے موجود ہیں اور مستعمل بھی ہیں ان کو چھوڑ کر انگریزی زبان کے الفاظ کو استعمال کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں

*وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا*
*کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا*.

لکھاری کی بجائے رائیٹربن گیا ہم کہاں سے کہاں آگئے اورکہاں جارہے ہیں؟

(اور اِس تحریر کے جواب میں بھی، واہ، عمدہ، مُتفِق،
جیسے الفاظ کے بجائے انگریزی کے الفاظ میں ہی جواب دِیا جاۓ گا)

#Copied


message 2: by Shabana (new)

Shabana Mukhtar (shabanamukhtarofficial) | 184 comments بہت عمدہ لکھا ہے۔
میرا خیال ہے کہ انگریزی کے الفاظ اس لئے زیادہ استعمال ہونے لگے ہیں کیونکہ لوگ اردو پڑھتے ہی نہیں۔ میں ہندوستان سے ہوں، اور میرے اطراف میں ہندی زبان بولنے والے لوگ ہوتے ہیں ۔ اب یا تو میں اردو میں بات کروں اور انہیں سمجھاتی پھروں، یا پھر انگریزی میں بات کروں۔ میرا خیال ہے کہ بیشتر لوگ اسی وجہ سے آدھی ادھوری اردو استعمال کرنے لگے ہیں۔

شبانہ مختار۔


message 3: by Salman (new)

Salman Tariq (salmanahmedtariq) | 236 comments ردو کا زوال تہزیب کے زوال سے وابستہ ہے
انگیزی پڑھنے لکھنے والے اس لیے زیادہ ہیں کہ ہم جس سمت بہ رہے ہیں وہ معرب روایات کا عکاس ہے
اردو نے بھی تو قبضہ کیا تھا جب آئی تھی، ویسے گلزار کہتے ہیں زبان کو بہینے دینا چاہیے وقت کی داھارا میں ۔۔۔ روکیں گے تو ذبان کی موت واقع ہو جایے گئ

میں تو بہت پر امید ہوں ، لکھنوں کے مرجھائے قصیدے تو شاید کوئی نہ لکھے لیکن نئی جہت کی ترجمانی کرنے والے لوگ موجود ہیں جن کو آگے آنے سے مرانی مورتوں نے روکا ہوا ہے جو نہ قبر میں جاتے ہیں نہ کسی نئی روایت کو پنپنے دیتا ہیں ان کے نزدیک ہر نئی چیز اردوپر حملہ ہے


message 4: by Salman (new)

Salman Tariq (salmanahmedtariq) | 236 comments ہمارے سکالرز نے ہمارے لیے کچھ نہیں سوچا ، نہ ہی ہم نے ایسا کچھ بنایا جس سے دینا میں آگے بڑھتے تو انگریزی کا آنا لازم تھا۔۔ایک خلا تھا جو انگریزی نے پر کر دیا ،،، اردو تو ابھی بچہ ہے 4 یا 5 سو سال کا۔۔۔ اسے انگریزی کی عمر لگنے دیں


message 5: by Shabana (new)

Shabana Mukhtar (shabanamukhtarofficial) | 184 comments بالکل۔


message 6: by Aakash (new)

Aakash (mistyanon) | 5393 comments Mod
Salman wrote: "ہمارے سکالرز نے ہمارے لیے کچھ نہیں سوچا ، نہ ہی ہم نے ایسا کچھ بنایا جس سے دینا میں آگے بڑھتے تو انگریزی کا آنا لازم تھا۔۔ایک خلا تھا جو انگریزی نے پر کر دیا ،،، اردو تو ابھی بچہ ہے 4 یا 5 سو سال ک..."

kahi esa na ho k english k umer lagtay lagtay, urdu khud ko english samjh lay.... aur apna wajood kho baitay...


message 7: by Shabana (new)

Shabana Mukhtar (shabanamukhtarofficial) | 184 comments ہو سکتا ہے۔
آج کل کے مضامین اور ناول میں بھی اردو کے ساتھ انگریزی کے الفاظ کی بھرمار ہوتی ہے. میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں جو لکھنے اور بولنے میں دونوں زبانوں کا مساوی استعمال کرتے ہیں۔ دھیرے دھیرے ہم اس سمت میں جا رہے ہیں جہاں اردو انگریزی میں ضم ہو جائے۔


message 8: by Salman (new)

Salman Tariq (salmanahmedtariq) | 236 comments یہ خام خیالی ہوسکتی ہے جس طریقہ سے ہندوستان کا ستارہ چمکے گا میرے خیال سے اردو اور ہندی اور ترقی کریں گی


back to top