عاطف حسین نے اپنی کتاب ’کامیابی کا مغالطہ‘ میں ایک ایسے کھوپے کو نہایت دانشمندی اور ہنرمندی سے ادھیڑا ہے جو کئی سالوں سے ہم پر مسلط کیا جا رہا ہے اور وہ ہے کامیابی حاصل کرنے کے لئے موٹیویشنل سپیکرز کے بے سروپا خطبے سننا۔ مصنف نےکامیابی کی تعریف متعین کرنے کی کوشش کی ہے اور ہمیں احساس دلایا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ ہر موٹیویشنل سپیکر جن حضرات کو کامیابی کے نمونے کے طور پر پیش کرتا ہے وہ دولت مند یا مشہور ہوتے ہیں؟ پہلی بات یہ کہ اس تعریف کی روشنی میں ڈاکٹر اختر حمید خان، اقبال احمد، مدرٹریسا، عبدالستار ایدھی، پنسلین کے موجد سب ناکام ٹھہرتے ہیں اور یوں ہم اپنے معاشرے کے حقیقی محسنوں کو پہچاننے میں ناکام رہتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’کامیابی کے کسی یونیورسل تصور کا خیال ہی عبث ہے اور ایک ہی طرح کا کوئی تصور زورِ خطابت کے ذریعے سب پر ٹھونس کر متنوع مزاجوں کے حامل انسانوں کو انکے فطری راستوں سے بہکا کر کسی خاص راستے پر چلانے کی کوشش کرنا قابلِ مذمت اور نتائج کے اعتبار سے خطرناک ہے۔ اسی طرح میری رائے میں یہ خیال بھی ضحکہ خیز ہے کہ کوئی سکسیس کوچ success coach بھی ہوسکتا ہے جو ہر مزاج اور ہر پیشے کے آدمی کو کامیابی کے گر بتائے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی آدمی کسی ایک مخصوص پیشے میں کامیابی کے متعلق لوگوں کی راہنمائی کردے۔ عمومی طور پر صرف اعلیٰ انسانی اقدار کا پرچار ہی کیا جانا چاہیے
وسری بات یہ کہ لوگ جب کامیابی کے حصول کی خاطر صرف محنت پر انحصار، غیر ضروری امید پرستی، سات عادات وغیرہ کے گمراہ کن تصورات کے پیچھے بھاگیں گے تو اپنی خود اعتمادی کو نقصان پہنچائیں گے۔‘
عاطف حسین نے اپنی کتاب ’کامیابی کا مغالطہ‘ میں ایک ایسے کھوپے کو نہایت دانشمندی اور
ہنرمندی سے ادھیڑا ہے جو کئی سالوں سے ہم پر مسلط کیا جا رہا ہے اور وہ ہے کامیابی حاصل کرنے کے لئے موٹیویشنل سپیکرز کے بے سروپا خطبے سننا۔ مصنف نےکامیابی کی تعریف متعین کرنے کی کوشش کی ہے اور ہمیں احساس دلایا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ ہر موٹیویشنل سپیکر جن حضرات کو کامیابی کے نمونے کے طور پر پیش کرتا ہے وہ دولت مند یا مشہور ہوتے ہیں؟ پہلی بات یہ کہ اس تعریف کی روشنی میں ڈاکٹر اختر حمید خان، اقبال احمد، مدرٹریسا، عبدالستار ایدھی، پنسلین کے موجد سب ناکام ٹھہرتے ہیں اور یوں ہم اپنے معاشرے کے حقیقی محسنوں کو پہچاننے میں ناکام رہتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’کامیابی کے کسی یونیورسل تصور کا خیال ہی عبث ہے اور ایک ہی طرح کا کوئی تصور زورِ خطابت کے ذریعے سب پر ٹھونس کر متنوع مزاجوں کے حامل انسانوں کو انکے فطری راستوں سے بہکا کر کسی خاص راستے پر چلانے کی کوشش کرنا قابلِ
مذمت اور نتائج کے اعتبار سے خطرناک ہے۔ اسی طرح میری رائے میں یہ خیال بھی ضحکہ خیز ہے کہ کوئی سکسیس کوچ
success coach
بھی ہوسکتا ہے جو ہر مزاج اور ہر پیشے کے آدمی کو کامیابی کے گر بتائے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی آدمی کسی ایک مخصوص پیشے میں کامیابی کے متعلق لوگوں کی راہنمائی کردے۔ عمومی طور پر صرف اعلیٰ انسانی اقدار کا پرچار ہی کیا جانا چاہیے
وسری بات یہ کہ لوگ جب کامیابی کے حصول کی خاطر صرف محنت پر انحصار، غیر ضروری امید پرستی، سات عادات وغیرہ کے گمراہ کن تصورات کے پیچھے بھاگیں گے تو اپنی
خود اعتمادی کو نقصان پہنچائیں گے۔‘
http://jaeza.pk/taasrat/atif_hussain_...