“Every tiny molecule of Ash is in motion with my heat I am such a Lunatic that I am free even in Jail.”
―
―
“اپنے اردگرد کے تمام شہروں سے دس کوس دور ہونے کے سبب، ڈسکہ کا پرانا نام "دس کوس" ہوا کرتا تھا۔ جو بگڑتے بگڑتے ڈسکہ ہو گیا۔ ویسے تو یہاں نندی پور کے نام کا آنند بھی ہے،مگر آزادی سے پہلے، ڈسکہ کی اصل شہرت، جگا ڈاکو تھا، جسے پنجاب کا رابن ہڈ بھی کہا جاتا ہے۔ لوک داستانوں میں ایسی بہادری کا حامل یہ کردار، برطانوی استعمار کے خلاف، مزاحمت کی علامت تھی۔ جگے کی زندگی بارہا فلم کے فیتے پر چڑھی مگر جس اختصار سے اس ٹپے میں یہ کہانی سنائی گئی ہے وہ بے مثال ہے۔
جگا جمیا فجر دی بانگے
تے لوڈے ویلے کھیڈدا پھرے
جگا جمیا تے ملن ودھایاں
تے وڈا ہو کے ڈاکے ماردا
جگے ماریا لائل پور ڈاکہ
تے تاراں کھڑک گئیاں
جگا وڈھیا بوڑھ دی چھاویں
تے نو من ریت بھج گئی
جگے کی پیدائش تو چونیاں کے ایک نواحی گاؤں میں ہوئی مگر ڈسکہ میں بڑے بڑے زمیندار آباد تھے، اس لئے جگے نے زیادہ تر وارداتیں یہیں کیں۔ تقسیم کے بعد اس کے اہل خانہ گڑھ مکتسر آباد ہو گئے جہاں اس کی بیٹی، اب بھی، اپنے باپ کی انتیس سال پر مشتمل کہانی سناتی ہے۔”
― Rail Ki Seeti / ریل کی سیٹی
جگا جمیا فجر دی بانگے
تے لوڈے ویلے کھیڈدا پھرے
جگا جمیا تے ملن ودھایاں
تے وڈا ہو کے ڈاکے ماردا
جگے ماریا لائل پور ڈاکہ
تے تاراں کھڑک گئیاں
جگا وڈھیا بوڑھ دی چھاویں
تے نو من ریت بھج گئی
جگے کی پیدائش تو چونیاں کے ایک نواحی گاؤں میں ہوئی مگر ڈسکہ میں بڑے بڑے زمیندار آباد تھے، اس لئے جگے نے زیادہ تر وارداتیں یہیں کیں۔ تقسیم کے بعد اس کے اہل خانہ گڑھ مکتسر آباد ہو گئے جہاں اس کی بیٹی، اب بھی، اپنے باپ کی انتیس سال پر مشتمل کہانی سناتی ہے۔”
― Rail Ki Seeti / ریل کی سیٹی
“ریل کہانی دینہ سے آگے بڑھے تو کلوال، کالا گوجراں سے ہوتے ہوئے جہلم جا کر رکتی ہے۔ دینہ کے بعد ایک ویرانہ ہے جسے محکمہ مال کی قانونگوئی ، بوڑھے جنگل کے نام سے جانتی ہے۔ یہیں سے ایک راستہ، روہتاس کا سراغ لے کر نکلتا ہے۔ ایک بوسیدہ پل پر کاہان کا دریا عبور کریں تو سامنے روہتاس ہے۔ روہتاس کے طلسم سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں تو بھی جہلم میں داخل ہونا آسان نہیں۔ شہر اور چھاونی سے آنکھ بچا کر ایک راستہ رڑیالہ اور داراپور کو جاتا ہے۔ ٹلہ جوگیاں اسی راستے پر واقع ہے۔
روہتاس اور ٹلہ جوگیاں کے بعد، جہلم مسافر کے لئے اپنے بازو کھول دیتا ہے۔ آہستہ آہستہ، دو آبے کا حسن دیکھنے والوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ بڑھاپے کی محبت کی طرح، پر تجسس مگر شکستگی پر آمادہ۔ جہلم کتنا پرانا ہے، کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا، البتہ اتنا پرانا ضرور ہے کہ اس کو چھوڑ کے جانے والے، اب بھی اس کے سحر میں گرفتار ہیں۔ شہر اور دریا کی تاریخ ایک دوسرے سے آنول اور بچے کی مانند جڑی ہے۔ اس سے پہلے کے شہر اپنا افسوں پڑھ کر پھونکے، دریا اس کا طلسم ختم کر دیتا ہے۔
دریائے سندہ تو خیر اپنے ماننے والوں کے لئے مقدس ہے ہی، جہلم کے پانی بھی کئی پرانوں کی جڑیں سیراب کرتے ہیں۔ ویتھ دریا، وتستا، ہائیڈس پس! اس کے چند نام ہیں۔ رگ وید کے مطابق یہ دریا، پورے ہندوستان کو پاکیزگی بخشتے ہیں۔ آج کل، بہرحال، اس کے پانی روح روشن کرنے سے زیادہ گھر روشن کرنے کے کام آتے ہیں۔
اننت ناگ سے پچاس میل دور، ویری نگ کا چشمہ ہے، جہاں سے دریائے جہلم اپنا سر اُٹھاتا ہے۔ کسی زمانے میں اس کی شکل گول کنڈکے جیسی تھی مگر مغلیہ دور میں جہانگیر نے اس جگہ ہشت پہلو تا لاب بنوا کر چشمے کو دو رویہ درختوں سے آراستہ کیا۔ پیر پنجال کے پہاڑی سلسلے سے نکل کر دریا، اننت ناگ، برج بہارہ، اونتی پورہ، سوپورہ اور بارہ مولا سے ہوتا ہوا، میلوں کا سفر طے کر کے مظفرآباد کے راستے پاکستان پہنچتا ہے۔ راستے میں بڑے بڑے آبی ذخیرے اور چھوٹے چھوٹے جذباتی جزیرے بھی آتے ہیں۔ یہیں ایشیا کی سب سے بڑی جھیل وولرہے ۔
ریل کی سیٹی”
― Rail Ki Seeti / ریل کی سیٹی
روہتاس اور ٹلہ جوگیاں کے بعد، جہلم مسافر کے لئے اپنے بازو کھول دیتا ہے۔ آہستہ آہستہ، دو آبے کا حسن دیکھنے والوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ بڑھاپے کی محبت کی طرح، پر تجسس مگر شکستگی پر آمادہ۔ جہلم کتنا پرانا ہے، کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا، البتہ اتنا پرانا ضرور ہے کہ اس کو چھوڑ کے جانے والے، اب بھی اس کے سحر میں گرفتار ہیں۔ شہر اور دریا کی تاریخ ایک دوسرے سے آنول اور بچے کی مانند جڑی ہے۔ اس سے پہلے کے شہر اپنا افسوں پڑھ کر پھونکے، دریا اس کا طلسم ختم کر دیتا ہے۔
دریائے سندہ تو خیر اپنے ماننے والوں کے لئے مقدس ہے ہی، جہلم کے پانی بھی کئی پرانوں کی جڑیں سیراب کرتے ہیں۔ ویتھ دریا، وتستا، ہائیڈس پس! اس کے چند نام ہیں۔ رگ وید کے مطابق یہ دریا، پورے ہندوستان کو پاکیزگی بخشتے ہیں۔ آج کل، بہرحال، اس کے پانی روح روشن کرنے سے زیادہ گھر روشن کرنے کے کام آتے ہیں۔
اننت ناگ سے پچاس میل دور، ویری نگ کا چشمہ ہے، جہاں سے دریائے جہلم اپنا سر اُٹھاتا ہے۔ کسی زمانے میں اس کی شکل گول کنڈکے جیسی تھی مگر مغلیہ دور میں جہانگیر نے اس جگہ ہشت پہلو تا لاب بنوا کر چشمے کو دو رویہ درختوں سے آراستہ کیا۔ پیر پنجال کے پہاڑی سلسلے سے نکل کر دریا، اننت ناگ، برج بہارہ، اونتی پورہ، سوپورہ اور بارہ مولا سے ہوتا ہوا، میلوں کا سفر طے کر کے مظفرآباد کے راستے پاکستان پہنچتا ہے۔ راستے میں بڑے بڑے آبی ذخیرے اور چھوٹے چھوٹے جذباتی جزیرے بھی آتے ہیں۔ یہیں ایشیا کی سب سے بڑی جھیل وولرہے ۔
ریل کی سیٹی”
― Rail Ki Seeti / ریل کی سیٹی
“But man's duty is to try and endeavour, success depends upon chance and environments.”
― Why I Am An Atheist: An Autobiographical Discourse
― Why I Am An Atheist: An Autobiographical Discourse
Tumhara’s 2024 Year in Books
Take a look at Tumhara’s Year in Books, including some fun facts about their reading.
Polls voted on by Tumhara
Lists liked by Tumhara
















